صدائے روس کی یادیں اور باتیں


ریڈیو صدائے روس کی عمارت میں پہلی بار داخل ہونے سے پہلے میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں کتنے منفرد تجربے سے دوچار ہونے جا رہا ہوں۔ یہ عمارت تو پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی عمارت سے کچھ کم ہی ہو گی مگر جگہ کو بڑے سائنسی انداز سے استعمال کیا گیا ہے اور دفاتر اور اسٹوڈیو اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں کہ کہیں بھی جانے کے لئے زیادہ فاصلے طے نہیں کرنا پڑتے اور انتظامی مسائل بھی پیدا نہیں ہوتے۔ عملہ اپنے کام میں مگن نظر آتا ہے مگر عملے کی خوش اخلاقی اور خلوص مثالی ہے۔ نہ تو ان کی خوش اخلاقی اور مہمان نوازی سے ان کے کام پر کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی مصروفیت مہمان نوازی اور حسن اخلاق کو متاثر کرتی ہے۔

یہ امر قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ ریڈیو ماسکو ( صدائے روس کا پرانا نام) کا قیام بی بی سی کے قیام سے دو سال اور وائس آف امریکہ (صدائے امریکہ) کے آغاز سے سات سال قبل 7نومبر 1929 ء کو عمل میں آیا۔ اکتوبر انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر ریڈ اسکوائر کریملن سے اس کی براہ راست نشریات کا آغاز ہوا۔ اس وقت اسے ریڈیو ماسکو کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں اس کا نام تبدیل کر کے صدائے روس ’رکھ دیا گیا۔ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی ریڈیو تھا۔

اس کی سب سے پہلی غیر ملکی زبان چینی تھی جس سے بین الاقوامی زبانوں کی نشریات کے دور کا آغاز ہوا۔ چینی زبان میں پہلا نشر یہ یکم جولائی 1940ء کو نشر کیا گیا۔ اس کے بعد جاپانی زبان میں نشریات کی شروعات کی گئی۔ 1930ء اور 40ء کے عشرے کے دوران بین الاقوامی نشریاتی زبانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔

18 مئی 1942ء کی تاریخ اس لحاظ اہمیت کی حامل ہے کہ اس روز برصغیر کے لئے ہندوستانی زبانی میں باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا۔ یہ ساری دنیا کے لئے بڑی ابتلاء کا دور تھا اور دوسری جنگ عظیم اپنے نقطہ ء عروج پر تھی ایسے میں سرمائے اور تکنیکی عوامل کی فراہمی ایک مشکل امر تھا۔ لیکن پھر بھی ہندوستانی زبان میں محاذ جنگ کی خبروں پر مشتمل پندرہ منٹ کی نشریات شروع کر دی گئیں۔ ان نشریات کا انتظار برصغیر کے باسی بڑی بے چینی اور اشتیاق سے کرتے تھے۔ دوران جنگ ہی بین الاقوامی نشریاتی زبانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان کی تعداد بڑھ کر 28 زبانوں تک جا پہنچی۔

بعد ازاں ان زبانوں میں منگولیائی، ویت نامی، پشتو اور دری زبانیں بھی شامل کر لی گئیں۔ 1955ء سے ہندی اور اردو زبانوں میں الگ الگ نشریات جاری رہیں۔ اردو زبان کی نشریات کی خاص بات معروف ادباء اور شعراء کا کلام اور ان کے انٹرویو ہیں۔ ان میں فیض احمد فیض، کرشن چندر، علی سردار جعفری، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی اور خواجہ احمد عباس جیسی بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات شامل ہیں۔ علاوہ ازیں صدائے روس نے اردو بولنے والوں میں روس کے حوالے سے سیاسی، ثقافتی، ادبی اور جغرافیائی معلومات میں معتدبہ اضافہ کیا ہے۔

اس کے خصوصی پروگراموں میں روسی کلاسیکی ادب کے بارے میں روسی کلاسیکی ادب کے اوراق ’اور روسی بول چال کے اردو میں پروگرام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مقبول عام پروگرام۔ ”اسلام اور مسلمان“ میں روس میں رہنے والے مسلمانوں کی تاریخ، ادب، ثقافت اور دیگر سرگرمیوں کے بارے میں سامعین کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں جب کہ پاکستان اور روس کے دو طرفہ تعلقات میں سرگرمی آئی ہے۔ پاکستانی اور روسی لیڈروں اور وفود کے دوروں کو نشریات میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔

پچھلے چند سالوں سے ایف ایم نشریات پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس حوالے سے انڈیا کے ایف ایم چینل فور کے ساتھ کامیاب تعاون جاری ہے اور صدائے روس کے ارباب بست و کشاد کے مطابق قوی امید ہے کہ بہت جلد پاکستان میں بھی ایف ایم ریڈیو نشریات شروع ہو جائیں گی۔ اس وقت پاکستان میں صدائے روس کی نشریات سننے والے سامعین کے پچاس کلب قائم کیے جا چکے ہیں اور سامعین کی اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں چار کانفرنسیں بھی منعقد کی جا چکی ہیں۔ سال 2013ء میں روس کی خبر رساں ایجنسی ”ریانوستی“ انگریزی زبان کے بین الاقوامی ٹی وی چینل ”رشیا ٹوڈے“ اور ریڈیو صدائے روس کو ضم کر کے ساودنیا (آج) نامی ایجنسی بنا دی گئی ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ صدائے روس کا ذکر ہو اور ان پاکستانی حضرات کا ذکر نہ ہو جو یہاں ماسکو میں عرصہ دراز سے قیام پذیر ہیں بلکہ یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں اور صدائے روس میں گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ تو آئیے ملتے ہیں ڈاکٹر مجاہد مرزا سے، گھبرائیے نہیں، یہ دوسری طرح کے ڈاکٹر ہیں، اگرچہ انہوں نے نہ صرف ایم۔ بی۔ بی ایس کیا بلکہ کافی عرصہ اس شعبے میں باقاعدہ پریکٹس بھی کی مگر اب عرصۂ دراز سے ان کی دلچسپی آپ کی ذہنی، ثقافتی اور علمی صحت تک محدود ہے۔ ڈاکٹر صاحب متنوع تجربات اور یگانہ شخصیت کے حامل ہیں۔ آپ کو انگریزی اور اردو زبانوں پر کامل عبور حاصل ہے۔ دونوں زبانوں کے قادر الکلام شاعر اور نثر نگار ہیں۔ پاکستان اور روس کے ادبی، سیاسی اور ثقافتی منظر نامے پر گہری اور مسلسل نظر رکھتے ہیں۔

مرزا صاحب صدائے روس کے روسی بول چال سکھانے کے پروگرام کا ایک اہم کردار ہیں۔ مذکورہ پروگرام کے 58 ریکارڈ شدہ پروگراموں میں زیادہ تر میں آپ موجود ہیں۔ موقر پاکستانی اخبارات اور جرائد کے لئے عرصہ دراز سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ یہ بھی انہیں شخصیات میں شامل ہیں جو یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں لیکن یہاں پہ مقیم دوسرے سارے پاکستانیوں کی طرح ان کا دل بھی پاکستان میں اٹکا رہ گیا ہے۔ پاکستان کا درد اور محبت ان کے رگ و پے میں سمائی ہوئی ہے اور کبھی کبھی غالب کے اس شعر کی تصویر نظر آتے ہیں۔

رکھیو، غالب! مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

ڈاکٹر صاحب نے پاکستان آرمی میں کمیشنڈ افسر کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض کو دیکھا ہے، اور بغور دیکھا ہے سو ان کی تحریروں میں پاکستان کے مختلف گوشوں کی عکسی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ عوام کو درپیش آلام و مصائب کا تذکرہ کبھی بین الاسطور، کبھی پس منظر اور کبھی پیش منظر میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ آئیے آپ کو اپنے دوسرے کرم فرما سے ملواتے ہیں۔ یہ ہیں جناب ظہیر اللہ خان صاحب، پشتو اور پنجابی تو مادری زبانوں کی طرح بولتے ہیں مگر روسی زبان پر بھی مکمل عبور رکھتے ہیں اور روسی کلاسیکی ادب کے اہم ادب پاروں کی نہ صرف اردو زبان میں ڈرامائی تشکیل کر چکے ہیں بلکہ زیادہ طرح تر میں صدا کاری کے جوہر بھی دکھائے ہیں۔ ان کی ان

کامیاب کاوشوں میں چیخوف کا ڈرامہ ”چیری کا باغ“ اور ٹالسٹائی کی جنگ اور امن ’بھی شامل ہیں۔ اس ضمن میں جس شخصیت کا سب سے پہلے ذکر ہونا چاہیے وہ ہیں تو روسی مگر اپنی بول چال، ادب آداب اور رکھ رکھاؤ سے خالص پاکستانی خاتون لگتی ہیں۔ یہ ہیں ارینا میکسیمنکو۔ محترمہ کا فلیٹ میرے فلیٹ کے قریب تھا اور ہماری آتے جاتے اکثر ملاقات ہو جاتی تھی۔ محترمہ کی صدائے روس ریڈیو کے لئے گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ صدائے روس کی پاکستان میں منعقد کی جانے والی سننے والوں (Listeners) کی متعدد کانفرنسوں میں شریک ہوئی ہیں اور پاکستان کے سماجی، سیاسی اور ادبی منظر نامے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ارینا میکسیمنکو کی روس کو پاکستان اور پاکستان کو روس میں متعارف کرانے کی کاوشوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ افسوس کہ صدائے روس کی اردو سروس کو مالی یا انتظامی وجوہات کی بنا پربند کر دیا گیا ہے جس سے پاکستانی سننے والوں کو بڑا دکھ ہوا ہے کہ روس سے رابطے کی یہ مستقل کڑی اچانک گم ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments