پانچواں خط دانیہ کے نام


پیاری دانیہ!

بہت دور جا بسی ہو۔ لیکن دل اس لئے خوش اور مطمئن ہے کہ جب بھی بات ہوتی ہے، خوشی تمہاری آواز سے جھلکتی ہے۔ لفظوں میں بولتی ہے۔ اللہ کرے یہ ویسی ملمع زدہ ہنسی اور اطمینان نہ ہو جو بیاہی بیٹیاں، بہنیں اور بہوئیں اس وقت اپنے لہجے اور چہروں پر سجاتی ہیں جب کئی دکھوں کا پردہ رکھنا ہو۔ اگرچہ اب ویڈیو کالز پر شکلیں بھی نظر آتی ہیں اور تاثرات بھی۔ لیکن پھر بھی یہ اتنے سچے ذریعے نہیں ہو سکتے جتنا سامنے بیٹھ کر صرف آنکھوں کا ملنا، گلے سے لگنا یا ہاتھ کا پکڑنا۔ تب لفظ خاموش اور جذبے سفر کرتے ہیں۔

خیر ہماری طرف گرمی عروج پر ہے۔ اور اسی گرم، حبس زدہ شام میں، میں تمہیں خط لکھ رہی ہوں۔ لان میں جانے کا دل تو بہت تھا لیکن ساکت پتے، اڑتے کاٹتے مچھر اور گھاس سے پھوٹتی تپش میری باہر بیٹھنے کی تمنا پر بند باندھ رہی ہے۔ پھول، پودے سب گردآلود اور انسانوں کی طرح اس موسم میں ہانپتے رہتے ہیں۔ بارش ویسے بھی اس دیس میں نایاب ہے لیکن اس بار تو سمجھو روٹھ ہی گئی ہے۔ مجھے امید ہے تم ٹھنڈے شہر سے کوسوں دور اس ساحلی شہر کی ہواؤں کی عادی ہو گئی ہو گی۔ تم تو ویسے صابر بھی ہو اور سمجھ دار بھی۔ سلیقہ شعار بھی اور تخلیقی بھی۔ نئے موسموں، بدلتی رتوں اور نئے رشتوں کو اپنے حق میں کرنا تمہیں خوب آتا ہے۔ میرا یقین ہے محبت کی دوا کا جو ہنر تمہارے پاس ہے وہ ہر مرض کا علاج ہے۔ بشرط اللہ کی رضا اور خلوص نیت۔

تمہیں پتہ ہے میں جب بھی کوئی بنا سنورا گھر دیکھتی ہوں۔ کسی نرسری سے گزرتی ہوں۔ کوئی ڈی۔ آئی۔ وائے بناتی ہوں۔ کسی دریا، ڈیم، جھیل کنارے پتھر اکٹھی کرتی ہوں۔ تو تم مجھے بہت یاد آتی ہو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ تمہارے گھر آؤں اور دیکھوں کہ تم نے کیسے اپنے مکان کو گھر بنایا ہے؟ کیسے پرانی چیزوں کو کارآمد کیا ہے؟ کون سے پودے تمہاری بالکونی سے لٹک رہے ہیں؟ کیسی پینٹنگز اور تصویریں تمہارے گھر کی دیواروں پر آویزاں ہیں؟

لیکن نجانے کیسا اتفاق ہے کہ میں جو اکثر شہر شہر پھرتی ہوں۔ سیاحت کا شوق رکھتی ہوں۔ ابھی تک پاکستان کی اس جانب کبھی جا ہی نہیں سکی۔ جب بھی سندھ اور بلوچستان جانے کا منصوبہ بنایا۔ کسی نہ کسی وجہ سے منصوبہ ملتوی ہی کرنا پڑا۔ اور اس دفعہ جب تمہارے ولیمے پر ریل کے ٹکٹ بھی ہو گئے اور سامان بھی بندھ گیا تو تمہارے بھائی ایسے بیمار ہوئے کہ ٹکٹ واپس کرنے پڑے اور سامان کھول کر واپس رکھنا پڑا۔ باوجود اس کے میں تمہارے شہر آنا چاہتی ہوں۔ تب سے جب تم ادھر شادی کر کے ابھی بسی بھی نہیں تھی۔

کراچی آنا میرا خواب ہے۔ مجھے قائد کے وطن آنا ہے۔ انھیں سلام کرنا ہے۔ ان کو شکریہ بولنا ہے کہ ہم ان کی کوششوں سے آزاد سانسیں لے رہے ہیں۔ جموں کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، شام اور ایسے سب مقبوضہ علاقے اور ملک ہر پل احساس دلاتے ہیں کہ اپنا الگ ملک کیا معنی رکھتا ہے؟ میں ان کے مزار پر جا کر یہ تسلیم کرنا چاہتی ہوں کہ وہ واقعی نابغہ صلاحیتوں کے مالک تھے کہ بیرونی تسلط، مختلف مذاہب اور اقوام کے ہوتے ہوئے مسلم اکثریت کو ایک مقصد کے لئے متحد کر لیا۔ ورنہ آج آزاد ہو کر بھی ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی اور نالائقی لوگوں کے ہجوم کو ایک قوم نہیں بنا پا رہی۔

میں وہاں اردو بولنے والے بزرگوں سے ملنا چاہتی ہوں جو لکھنؤ، دہلی سے تعلق رکھتے ہوں۔ مجھے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ یہ وہ شہر ہے جہاں سے برصغیر کی ثقافت، ادب، زبان اور رکھ رکھاؤ کی خوشبو آتی ہو گی۔ ایسا احساس مجھے کبھی بھی دوسروں شہروں کے بارے میں نہیں ہوا۔ میں نسبت روڈ کی گہما گہمی دیکھنا چاہتی ہوں اور وہاں کے کھانوں کا قریب سے مشاہدہ کرنا چاہتی ہوں۔ میں اکثر پڑھتی اور ڈاکیومینٹریز میں دیکھتی ہوں کہ کراچی میں پارسی کمیونٹی کی کسی وقت اکثریت تھی جو اب گھٹتے گھٹتے کافی کم ہو گئی ہے۔

میں ان سے ملاقات کرنے کی خواہاں ہوں۔ مجھے اس شہر کا تنوع پسند ہے۔ یہاں مواقع زیادہ ہے۔ یہ امرا اور غربا کو یکساں خوش آمدید کہتا ہے۔ اور پھر پاکستان میں سمندر کا نظارہ صرف اسی شہر میں ہو سکتا ہے۔ اور میرا دل تو کراچی سے گزر کے حیدر آباد جانے کو بھی ہے۔ جہاں کچھ تاریخی مقامات بھی ہیں۔ اور بمبئی بیکری بھی۔ جہاں کے کیک تحفتاً موصول ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن میں تو اس بیکنگ کی خوشبو اور وہاں کے مالک سے ملنا چاہتی ہوں جو پاکستان بننے کے پہلے سے قائم ہے۔ مخصوص وقت کے لئے کھلتی ہے اور سادہ لیکن خوش ذائقہ ٹی کیک بناتی ہے۔

اگرچہ یہ شہر پرانا اور تاریخی ہے۔ پر رونق اور پر ہجوم ہے۔ ملٹی کلچرل ہے اور وسیع ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی اس شہر سے واپس آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ گند کا ڈھیر ہے۔ آلودگی کا گھڑ ہے۔ کچرے کا مرکز ہے۔ ٹریفک ان سڑکوں پر رینگتی ہے۔ اور شور نسوں کو پھاڑتا ہے۔ کئی منزلہ فلیٹس پر چڑھنے کو گھٹنوں کی ہڈیاں چٹختی ہیں۔ شہر بجلی، صاف پانی، تازہ ہوا اور صفائی کو ترس رہا ہے۔ بارشیں بجائے زحمت، رحمت ہیں۔

برس جائیں تو گھر اور گٹر ابل پڑتے ہیں۔ جدھر نکلو، سر ہی سر۔ آدمی ہی آدمی۔ یہ وہ شہر ہے جہاں کی راتیں جاگتیں اور دن سوتے ہیں۔ اور ساحل اور سمندر بھی انسانی قبضے سے بچ نہیں سکے۔ پانی گدلا ہو گیا ہے اور مچھلیاں کم یاب۔ اور کچھوے تو ویسے ہی روٹھ رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا سکون رات کو جلتی روشنیوں اور آوازوں نے چرا لیا ہے اور وہ کسی اور دیس کو ہجرت کر گئے ہیں۔ مسافتیں طویل اور پر تھکن ہیں کیونکہ پورا شہر کنکریٹ اور بلند و بالہ عمارتوں کا جنگل بن گیا ہے۔

مجھے یہ سب باتیں دکھی اور پریشان کرتی ہیں لیکن میں پھر بھی آؤں گی۔ قائد کا دیدار کرنے اور اور تمہیں ملنے۔ اور یہ دیکھنے کہ انسانوں کی نادانیاں، اقتدار کی ہوس، انتظامیہ کی بے حسی اور بے ایمانیاں کیسے ہنستی بستی بستیوں اور شہروں کو خاک کرتی ہیں؟ کیسا کٹھن ہوتا ہے شہر اندر شہر کا ہونا؟ میٹروپولیٹن شہروں کے عذاب کیا ہیں؟

تم بس اپنی بریانی تیار رکھو۔ مجھے تو اس کی یاد بھی بسا اوقات تنگ کرتی ہے۔ اب اجازت دو۔ کل خط پورا نہیں ہو سکا تھا تو آج دوپہر کو پھر لکھنے بیٹھ گئی۔ بچے تمہیں یاد کرتے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں۔ انشاءاللہ جلد ملاقات ہوگی۔

سب ٹھنڈی دعاؤں کے ساتھ
تمہاری خیر خواہ، تمہاری آپی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments