کہیے کہیے مجھے ”بزدل“ کہیے


پیر کے دن برطانوی پارلیمان میں وہاں کے وزیر اعظم بورس جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ وہ اسے شکست دینے میں کامیاب رہا۔ اس کی اپنی جماعت اور ”اتحادی“ سکاٹش پارٹی کے لیکن 148 اراکین نے اس کے خلاف ووٹ دیے۔ ہمارے ہاں مروجہ اصطلاح کے مطابق گویا ”لوٹے“ ہو گئے۔ منگل کی صبح اٹھ کر برطانوی میڈیا کو انٹرنیٹ کے ذریعے کنگھالا۔ جستجو تھی کہ پتہ لگاؤں کہ ”لوٹے“ ہوئے منحرف اراکین پر لندن کے کسی ریستوران یا بار میں آوازے تو نہیں کسے گئے۔

ان کے گھروں کے باہر احتجاجی مظاہروں کی امید بھی تھی۔ ایسا کوئی واقعہ لیکن میری نظر سے یہ کالم لکھنے تک نہیں گزرا تھا۔ برطانیہ کے رائے دہندگان شاید ہم جیسے ”غیرت مند“ نہیں ہیں۔ انہیں اشتعال دلانے کو عمران خان صاحب جیسی کرشماتی شخصیت بھی موجود نہیں۔ بورس جانسن کو ایسی کشش نصیب ہوتی تو اس کے خلاف ووٹ ڈالنے والے عزت و جان بچانے کے خوف سے نامعلوم مقامات پر دبک کر چھپے ہوئے ہوتے۔ پھسپھسے انداز میں انجام کو پہنچی برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے مایوس ہوا تو مقامی خبروں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔

سوشل میڈیا کے ذریعے خبر ملی کہ اسلام آباد کے تقریباً مرکز میں قائم نیشنل پریس کلب کے باہر ایک پریس کانفرنس ہوئی تھی۔ اس پریس کانفرنس کا پیر کی شام میں نے جو ٹی وی چینل سرسری طور پر دیکھے تھے ان میں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ منگل کی صبح گھر آئے اخبارات کے پلندے پر جو عاجلانہ نگاہ ڈالی تو مذکورہ پریس کانفرنس کی بابت بھی کوئی خبر نظر نہیں آئی۔ جنرل ضیاء کے دور میں سدھائے رپورٹر کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ آزادیٔ اظہار کی موجودہ بہار میں بھی چند موضوعات ایسے ہیں جن کے ذکر سے گریز ہی میں عافیت ہے۔

اعزاز سید ہمارا ایک بانکا صحافی ہے۔ خود کو نہایت خلوص سے میرا شاگرد بھی ٹھہراتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ مجھے اس ”اعزاز“ سے محروم ہی رکھے۔ اسے پیر کی شام پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں سے ایک صاحب نے رعونت سے خبردار کیا کہ اپنے ”جنازے کی تیاری کرے“ ۔ رب کریم اعزاز سید کو حفظ وامان میں رکھے۔ جس ”مشن“ کی جانب خبردار کرنے والے صاحب گامزن ہیں اس کی کامیابی کے امکانات کو تاہم نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

عمران خان صاحب اس کی بدولت دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر واپس لوٹ آئے تو اعزاز سید جیسے ”تخریب کاروں“ کو لگ پتہ جائے گا۔ اکتوبر 2018 میں یہ بدنصیب بھی ”آزادیٔ اظہار“ کی حتمی علامت شمار ہوتے ٹی وی چینل سے ”مالیاتی بحران“ کی وجہ سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اپنی تو جیسے تیسے گزر ہی گئی۔ تھوڑی باقی رہ گئی ہے۔ وہ بھی گمنامی میں گزر ہی جائے گی۔ عملی صحافت کے لئے جن کے پاس کئی برس کے امکانات موجود ہیں ان کی بابت سوچتا ہوں تو دل کانپ جاتا ہے۔

بہرحال جس پریس کانفرنس کی جھلکیاں سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں انہیں دیکھا تو 1964 یاد آ گیا۔ میں ان دنوں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے شہر لاہور میں اس برس بہت گہماگہمی تھی۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان ”عوام کے ووٹوں سے“ پاکستان کے صدر منتخب ہونا چاہ رہے تھے۔ عوام کو صدارتی انتخاب میں براہ راست ووٹ ڈالنے کا حق مگر میسر ہی نہیں تھا۔ ”بنیادی جمہوریت“ کے نام پر بنائے بندوبست کے تحت عوام اپنے محلے سے کوئی رکن منتخب کرتے تھے۔

منتخب ہوا ”بی ڈی ممبر“ ہی صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا حقدار تھا۔ ایوب خان کو قوی امید تھی کہ بی ڈی ممبر بہت مشکل سے پیدا ہوئے ”دیدہ ور“ کی حمایت ہی میں ووٹ ڈالیں گے۔ ان کے مقابلے میں لیکن محترمہ فاطمہ جناح اپوزیشن کی متفقہ امیدوار بن کر کھڑی ہو گئیں۔ وہ بانی پاکستان کی بہن تھیں۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران انہوں نے زندگی اپنے بھائی کی خدمت گزاری کے لئے وقف کردی تھی۔ اسی باعث انہیں احترام سے ”مادر ملت“ پکارا جاتا تھا۔

وہ میدان میں اتریں تو اس دور کے حکمرانوں میں تھرتھلی مچ گئی۔ مادر ملت کی کردار کشی کے لئے ایسی کہانیاں پھیلائی گئیں جنہیں اشاروں کنایوں میں بھی دہرایا نہیں جاسکتا۔ بالآخر ان پر ”غداری“ کی تہمت بھی لگادی گئی۔ بی ڈی ممبروں نے تاہم ایوب خان کو خاطر خواہ اکثریت سے صدر منتخب کر دیا۔ پرانے لاہور کے محلوں کی اکثریت اگرچہ مادر ملت کی شکست تسلیم کرنے کو آمادہ نہ ہوئی۔ سرکاری دھونس اور دھاندلی کی سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔

پھر یہ افواہ پھیلی کہ کراچی میں ایوب خان کی ”فتح“ کا جشن منانے ایک جلوس نکلا تھا۔ فیلڈ مارشل کے فرزند گوہر ایوب خان اس کی قیادت فرما رہے تھے۔ موصوف پاک آرمی سے بطور کیپٹن ریٹائر ہو کر کاروبار میں مصروف ہو گئے تھے۔ الزام لگا کہ ان کی قیادت میں نکلے جلوس نے مادر ملت کی ”شکست“ پر افسردہ ہوئے کراچی کے لالو کھیت جسے لیاقت آباد کہا جاتا ہے میں جمع ہوئے لوگوں پر گولی چلائی تھی۔ لاہور میں اس واقعہ کی بابت افواہ پھیلی تو ہزاروں نہیں بلکہ سینکڑوں افراد پر مشتمل ایک ہجوم ریگل چوک میں جمع ہو کر ایوب حکومت کے خلاف نعرہ بازی میں مصروف ہو گیا۔

پولیس نے لاٹھی چارج کے ذریعے اسے منتشر کرنے کی ٹھان لی۔ میری ایک پھوپھی بیڈن روڈ رہتی تھیں۔ اتفاقا میں اس روز ان سے ملنے گیا ہوا تھا۔ پولیس کے لاٹھی چارج سے بھاگ کر چند افراد اس گلی میں بھی آئے جہاں میری پھوپھو کا گھر تھا۔ تھوڑا سستانے کے بعد وہ 20 یا 25 افراد کی ٹولی کی صورت ایک بار پھر ریگل چوک جانے کو تیار ہو گئے۔ ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا: ”گندھارا وہ مارا“ ۔ مجھے اس نعرے کی ہرگز سمجھ نہیں آئی۔

اپنے تئیں فرض کر لیا کہ شاید یہ ”گند“ سے نکلا ہوا لفظ ہے۔ کئی برس گزر جانے کے بعد دریافت ہوا کہ ”گندھارا“ تو تاریخی تہذیب رہی ہے۔ گوہر ایوب کا مگر اس تہذیب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ درحقیقت اس کاروباری ادارے کے کرتا دھرتا افراد میں شامل تھے جو اس نام سے چلایا جا رہا تھا۔ بزرگوں اور کتابوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے ہاں کرپشن کے اولین دشمن فیلڈ مارشل ایوب خان نے مذکورہ ادارے کی سرپرستی فرمائی تھی۔ اس کے مالک حبیب اللہ خان خٹک تھے جو سینئر ترین جنرل ہوتے ہوئے آرمی چیف بنائے جانے کی توقع باندھے ہوئے تھے۔

ایوب خان نے مگر ان کی جگہ بلوچستان کی ہزارہ برادری سے نمودار ہوئے جنرل موسیٰ کا انتخاب کیا۔ خٹک صاحب دل برداشتہ ہوئے تو انہیں کاروبار کی جانب راغب کیا۔ مزید دلجوئی کے لئے اپنے ہونہار فرزند گوہر ایوب خان کو ان کا داماد بھی بنوا دیا۔ جو داستان میں نے لکھی ہے اس کا پیر کے روز ہوئی پریس کانفرنس سے کیا تعلق ہے؟ کاش مجھ میں اس کا جواب دینے کی ہمت ہوتی۔ میں خود کو پورا سچ بیان کرنے کے ”اعزاز“ سے محروم رہنے ہی کو ترجیح دیتا ہوں۔ کہیے کہیے مجھے ”بزدل“ کہیے!
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments