قاسم! میں کس کے ہاتھ پر تیرا لہو تلاش کروں


5جون اتوار کی رات کا پہلا پہر وقت یہی کوئی آٹھ بجے، مقام F 9 پارک اسلام آباد جب اس بے حد ہونہار ستائیس سالہ قاسم نے لاہور میں اپنی ماں کی کال سنتے ہوئے کہا تھا۔

”امی میں واک کے لیے ایف نائن پارک میں آیا ہوں۔ دس بجے آپ سے تفصیلی بات کروں گا۔“

جواباً ماں نے قدرے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔ ”تم تو اس وقت جم جاتے ہو۔ یہاں پارک میں کیا کرنے آئے ہو؟ اس پارک کی شہرت کچھ اچھی نہیں۔ اس کے ریسٹورنٹ میں ہائی فائی کلاس کے لڑکوں کے گروپ آئس نامی نشہ وشہ کرتے ہیں۔ منفی قسم کی سرگرمیوں میں بھی بڑے فعال ہیں۔ کچھ کالم نگاروں نے بھی اپنے کالموں میں اسلام آباد اور کراچی کے بچوں کو کرسٹل میتھ نامی ایک نشے میں ملوث ہونے کا ذکر کیا ہے۔ کچھ عرصے سے اذیت رسانی کے چند کیس بھی سننے میں آئے ہیں۔“ قاسم نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”اکلوتا ہونا بھی بڑی مصیبت ہے۔ ایک تو میری ماں پریشان بہت جلد ہوجاتی ہے۔ پیاری اماں جم میں اس وقت لائٹ چلی جاتی ہے۔ اور فکر کی چنداں ضرورت نہیں۔ باہر مین گیٹ پر گارڈز ہیں۔ اچھا بائی۔ دس بجے بات ہوگی۔“

واک کے پہلے راؤنڈ کے بعد قاسم کو پارک کی لائٹ جانے کا احساس ہوا۔ مگر اس نے پرواہ نہ کی اور تیز تیز چلتا رہا۔ جب ایک نسبتاً تاریک گوشے میں دو اچانک نمودار ہونے والے لڑکوں نے اسے روک لیا تھا۔ قاسم نے پوچھا۔ کیا بات ہے؟ زمین پر لیٹ جاؤ ایک لڑکے نے رعونت سے کہا۔ ”مگر کیوں؟“ اس نے بحث کی۔ ”جو ہم کہہ رہے ہیں ایسا کرو۔“ ساتھ ہی پوچھا گیا۔ تمہارے پاس کیا ہے؟ اس نے وائلٹ اور موبائل دکھایا۔ وائلٹ کو چیک کیا۔ بے زاری سے اسے زمین پر پھینک دیا۔ یہی حال موبائل کے ساتھ کیا۔

”بیٹھ جاؤ۔ قاسم کھڑا رہا۔ ایک نے رعونت سے بھری ہوئی مگر مدھم آواز میں کہا۔ سنتے نہیں ہو۔ جو کہہ رہے ہیں وہ کرو۔ وہ بیٹھ گیا۔ اس کے کندھے پر ریوالور رکھ کر گولی چلائی گئی؟ جس کی کوئی آواز نہیں تھی۔ قاسم کے منہ سے چیخ نکلی۔ دونوں نے اپنے اردگرد دیکھا اور بھاگتے ہوئے قاسم کی آنکھوں سے گم ہو گئے۔

خون بہہ رہا تھا مگر جی داری سے اس نے موبائل گھسیٹ کر پکڑا۔ اپنے روم میٹ کو سانحے بارے بتایا۔ دوسرا فون اس نے پولیس کو کیا۔ دوست کو آنے میں آدھ گھنٹہ لگا۔ پولیس نے بھی اتنی ہی دیر لگائی۔ الشفاء میں انکار ہوا وجہ یہ پولیس کیس۔ پیمرا میں جانے کتنی منتوں سے داخلہ ہوا۔ اف کسی کو انسانی جان کی فکر نہ تھی۔ Lums کا پوسٹ گریجوایٹ نوجوان بچہ جس کے جسم سے خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ اور وہاں سویلین اور پولیس کا رپھڑ پڑا ہوا تھا۔ گولی جگر، پھیپھڑے کو چیرتی ہوئی گردے کو ناکارہ بنا چکی تھی۔

آپریشن تھیٹر میں جانے سے قبل تک بچہ ایک ہی بات کہتا رہا۔ میری ماں کو نہ بتایا جائے۔ اس نے مر جانا ہے۔

دس بجے قاسم  نے اپنی ماں سے بات کرنے کا کہا تھا۔ دس بجے ہی بات ہوئی مگر قاسم نے نہیں کی۔ قاسم کے کزن نے دھیمے لہجے میں بتاتے ہوئے اسے گاڑی میں بٹھایا۔

خون کنٹرول نہیں ہو رہا تھا۔ بوتلوں پر بوتلیں لگ رہی تھیں اور دوسری طرف سے نکلتی جا رہی تھیں۔ دوستوں اور ساتھیوں کے خون کے عطیات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر خون کے لیے لگائی جانے والی اپیل نے بھی دل درد رکھنے والوں کو اکٹھا کر دیا تھا۔

125 خون کی بوتلیں اور دو دن میں چار سرجریاں۔ منگل کی رات دس بجے قاسم اپنے خوابوں کی کرچیاں لئے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ قاسم میرا شاگرد تھا۔ بے حد ذہین میٹرک میں سکول میں اول اور بورڈ میں چوتھی پوزیشن لینے والا لائق بچہ۔ گورنمنٹ کالج سے بی ایس سی اور لمز سے ایم بی اے۔

”نوکری نہیں بزنس کرنا ہے مجھے۔“ وہ ماں سے کہتا۔ ایم ایم عالم روڈ پر اس نے اپنے لمز کے ساتھیوں کے ساتھ شاندار ریسٹورنٹ کھولا۔ محنت شدید محنت سے اسے چلایا۔ کرونا میں اس کا کام بھی ایک طرح ٹھپ ہو گیا۔

مگر وہ ہمیشہ بڑا پرعزم رہا۔ فوڈ پانڈا میں اس کو بہت پرکشش تنخواہ پر ملازمت ملی تھی۔ ایک سال میں اس نے بہترین پرفارمنس پر پانچ ایوارڈ حاصل کیے۔ اسلام آباد ایک تربیتی کورس پر بھیجا گیا تھا۔ اس کی شاید موت اسے وہاں لے گئی تھی۔ ایک مودب، بیبا اور اچھے کردار والا بچہ کیا وہ کسی ایسے جنونی، نفسیاتی، پاگلوں کی تسکین طبع کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جن کی بیمار ذہنیت قتل کرنے سے تسکین پاتی ہے۔ یہ snipersحد درجہ مہنگا ہتھیار ہے جس کا کسی عام بندے کے پاس ہونے کا سوال ہی نہیں۔ کس کو پکاریں، کسے آواز دیں۔ کون اس قتل کا کھوج لگائے گا۔ کون مجرموں کو پکڑے گا؟ یہ ہم کیسی اندھیر نگری میں رہ رہے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments