دعا زہرہ کے پیچھے مغرب کا کتنا قصور؟


دعا زہرہ کیس میں مغرب کو مطعون و ملعون ٹھہرانے کی بجائے پہلے اپنے قانون پر بھی نظر ڈالیے کہ بچی کو مستند دستاویزات کے باوجود سترہ سال کا ثابت کر دیا گیا اور پھر نہ عدالت کچھ کر سکی نہ شہلا رضا نہ سندھ نہ کوئی جج، لگتا ہے سب کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے یا وہ شاید اس کیس سے چھٹکارا حاصل کرنا چا رہے تھے۔ یا پھر پولیس اپنے آئی جی کی سبکی پر انتقال لینے پر تلی ہوئی تھی۔

اب ذرا دیکھتے ہیں کہ مغرب میں اگر یہ کیس ہوتا تو کیا ہوتا۔ برطانیہ اور یورپ میں یہ قانون ہے کہ بچہ یا بچی اگر اس کی عمر 16 سال سے کم ہے یا بعض ممالک میں سترہ یا اٹھارہ سال سے کم ہے تو اسے بچہ ہی تصور کیا جائے گا۔ اب اگر کوئی بالغ مرد یا عورت جس کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہے اس نے اگر کسی بچے یا بچی کو ، جنسی تشدد یا حتیٰ کہ اس کی مرضی سے ہی اس سے کوئی جنسی تعلق قائم کیا ہو یا قائم کرنے کی کوشش کرے۔

پھر بتا رہا ہوں کہ اس جنسی تعلق میں بچے کی مرضی بھی بے شک شامل ہو تب بھی برطانیہ کا قانون اس بالغ کو معاف نہیں کرے گا۔ اور اس پر نہ صرف بچے بازی یا پیڈوفیلیا کا مقدمہ بنے گا بلکہ وہ بالغ بطور بچے باز بھی رجسٹر ہو جائے گا اور پھر سزا سے کبھی نہ بچ پائے گا کیونکہ برطانیہ کا قانون اسے حرکت کو قتل کے برابر جرم گردانتا ہے۔ اور وہ سزا کم از کم چودہ پندرہ سال ہوتی ہے اور پھر وہ بالغ جس نے بچے سے اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی مرضی سے بھی ناجائز تعلق قائم گیا ہو وہ اپنی آدھی سے زیادہ زندگی جیل میں گزار کر اگر رہا بھی ہو جائے ساری زندگی وہ بچوں سے متعلقہ کوئی نوکری یا حتیٰ کہ رضاکارانہ کام بھی حاصل نہ کرسکے گا۔

اسی طرح اس بچے باز پر لازم ہو گا کہ وہ بچوں کے سکول سے دور رہے اور اگر وہ اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو پھر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اسی طرح ایسا رجسٹرڈ بچے باز شخص رہائی کے بعد کسی محلے یا فلیٹ میں رہائش رکھتا ہے تو پولیس اس کے ہمسائیوں کو خبر کر دیتی ہے کہ ہشیار رہیے آپ کے پڑوس میں ایک بچے باز رہتا ہے۔ یہ سن کر اکثر ہمسائے سیخ پا ہو جاتے ہیں اور پولیس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے اس محلے سے نکالیں۔ یعنی ایک بچے باز کو مغربی معاشرے میں سوائے جیل کے اور کہیں جائے پناہ نہیں ملتی۔

اب پھر آ جائیں دعا زہرہ کی طرف، کہ اگر یہ برطانیہ میں ہوتی تو کیا ہوتا؟ اس کا مبینہ خاوند اب تک سخت ٹرائل کا سامنا کر رہا ہوتا اور دعا زہرہ فوراً بازیاب ہوجاتی۔ اور اگر اس میں کوئی گینگ شامل ہوتا تو یقیناً سب جیل میں سڑ رہے ہوتے۔ اور قانون نے کسی سے کوئی رعائت نہیں برتنی تھی۔ آپ ایک اور مثال سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارا ایک پاکستانی بھائی نیا نیا برطانیہ گیا اور کسی پلمبر کا اسسٹنٹ بن گیا۔ کہ چلو کوئی تو روز گار ملے، وہ ایک گھر میں اپنے استاد کے ساتھ گیا تو جب تک اس کا استاد مالک سے بات کر رہا تھا کہ لان میں ان گھر والوں کا بچہ کھیل رہا تھا۔

اس نئے نئے برطانیہ میں وارد ہونے والے پاکستانی نے ناسمجھی سے پاکستانی عادت کے مطابق اس بچے کو پہلے گدگدی کی پھر اس کو پیار سے چوم لیا۔ بس پھر کیا تھا گھر والوں نے فوراً پولیس بلائی اور اس کی لاکھ دہائیوں اور واویلا کے باوجود بیچارے کو نہ صرف اس کے گھر والوں کو معاوضہ دینا پڑا بلکہ پندرہ سال جیل بھی کاٹنی پڑی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ راہ جاتے اکیلے بچے اگرچہ والدین سائے کی طرح ساتھ ہوتے ہیں، سے ایسے ہی ڈر کر اس سے دور رہتے ہیں جیسے کسی خطرناک چیز سے۔ ہاں پیار کیجیے مگر اپنے بچوں سے دوسروں کے بچوں کے نزدیک آنے کی کوشش مت کیجیے۔ لہذا جتنے بچے مغرب میں محفوظ ہیں اتنے پاکستان میں ہرگز نہیں۔

اب تربیت والدین و بچگان پر جتنی چاہیں تقاریر اور اخلاقیات کے دروس دے لیں۔ مگر جب تک قانون طاقتور نہ ہو گا ہمارے بچے ایسے ہی درندگی کا شکار ہوتے رہیں گے اور میرا سلام ہے۔ دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی پر کہ وہ ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات میں ڈٹ کر کھڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments