ڈینٹسٹ، ماہر نفسیات اور زندگی گزارنے کا فن


محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کا مضمون دانت، ڈینٹسٹ اور خودکشی پڑھا اور بہت محظوظ ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں میرا ذکر جس محبت سے کیا گیا ہے وہ میرے لیے باعث مسرت بھی ہے اور باعث فخر بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے حلقہ احباب میں پہلی ڈینٹسٹ ہوں یہ بات البتہ میرے لیے حیران کن تھی جب پہلی دفعہ انہوں نے اس کا ذکر کیا تو سوچا کہ ڈاکٹر صاحب تک رسائی کے لیے آپ کو علم و ادب سے بھی شغف ہونا چاہیے اور بیشتر ڈینٹسٹ کا وقت پیسوں کے پیچھے بھاگتے گزر جاتا ہے ان کے پاس کتابوں، موسیقی، رقص اور مطالعہ کے لیے کوئی ذوق نہیں رہتا اس لیے وہ ڈاکٹر صاحب کے حلقہ احباب میں شامل نہ ہو پائے اور میرا حال کچھ ایسا ہے کہ ڈینٹسٹ کہیں لکھاری ہے اور لکھاری کہیں ڈینٹسٹ ہے یعنی نہ تین میں نہ تیرہ میں اس لیے یہ میرے سے زیادہ ڈاکٹر صاحب کا کمال ہے کہ وہ مجھے برداشت کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کے دانتوں کے علاج کی کہانی دختر خوش گل سے شروع ہو کر عقل داڑھ نکلوانے کی دشوار گزار وادیوں سے گزر کر ماہر نفسیات کے پسندیدہ موضوع ڈینٹسٹ میں خودکشی کے رجحان تک پہنچ چکی ہے۔

سب سے پہلے تو میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ عقل داڑھ کا عقل سے کوئی تعلق نہیں اگر ہوتا تو دنیا اس وقت اس حال میں نہ ہوتی میں اس بات کی قائل ہوں کہ آج کل کہ بچے بڑوں سے زیادہ عقل مند اور سمجھدار ہیں اور میں امید کرتی ہوں کہ وہ بڑے ہو کر ہماری طرح کے انسان نہیں بنیں گے کہ بقول یوسفی بچوں میں بس ایک ہی چیز خراب ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں، اس بڑوں کی دنیا میں ایک فیصد انسانوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ ان کہ سمجھ سے باہر ہے کہ اس کا کیا کریں اور اس کے باوجود وہ اپنے کام کرنے والے لوگوں کو minimum wage سے بھی کم تنخواہ دیں اور ہیلتھ انشورنس اور paid sick leaves کا حق تک دینے کو تیار نہ ہوں اور اگر وہ یونین بنائیں تو وہ اسٹور ہی بند کر دیے جائیں، کہاں افراط زر صرف مڈل کلاس اور غریب کے لیے ہو اور ایک جنونی جنگ کی قیمت عوام کو بڑھتی ہوئی پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں کی صورت میں ادا کرنا پڑے جبکہ پیٹرول کمپنیاں منافع کمائیں اسی طرح وبا کے دنوں میں جب انسان سانس لینے سے تنگ تھے ماسک سے لے کر ٹائلٹ پیپر تک ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا اور امریکہ جیسے ملک میں کرونا سے متاثر لوگوں نے وینٹیلیٹر پر منتقل ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے پاس اس کے بل کے پیسے نہیں تھے اور وہ اپنے خاندان کو اپنی موت کے بعد مقروض نہیں کرنا چاہتے تھے۔

اس لیے اس دنیا کے انسانوں کو اس عقل ڈاڑھ کا کوئی فائدہ نہیں اور مجھے اس جملے پر انسانوں کے حرص کو دیکھ کر یقین آتا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کسی اور سیارے کی جہنم ہے۔ اس دانت کو عقل داڑھ اس لیے کہا جا تا ہے کہ اس کے منہ میں نمودار ہونے کا وقت 17۔ 22 سال کا ہے اور کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت تک انسان سیانا ہو جاتا ہے اس لیے اس کو عقل داڑھ کا نام دیا جاتا ہے لیکن یہ دانت بھی اس عمر کی مانند مسائل سے گھرا ہوتا ہے۔

پہلے تو عموماً اس کو نکلنے میں کافی مشکل پیش آتی ہے اور نکل آئے تو باقی دانتوں کی موجودگی میں اس کو جگہ کی کمی کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور یہ اپنے ساتھ والے داڑھ پر پریشر ڈالتا ہے جس سے اس کی خرابی صحت کے امکان موجود رہتے ہیں۔ اس لیے عموماً ڈینٹسٹ اس کو نکال کر دوسری داڑھ کو بچا لیتے ہیں۔ نکالنے کا عمل اور وقت اس کی پوزیشن پر منحصر ہوتے ہیں۔ اس لیے بچارے ڈاکٹر ملر نے ایک عقل داڑھ تو پانچ منٹ میں نکال لی اور دوسری پر ایک گھنٹے اپنا پسینہ اور ڈاکٹر صاحب کا خون بہایا۔

جہاں تک سوال رہا ڈینٹسٹ میں خودکشی کے رجحان کا تو اس کی وجوہات میں سب سے اہم وہ تنہائی ہے جو ڈینٹسٹ کو کام کے دوران برداشت کرنا پڑتی ہے عموماً ڈینٹسٹ پرائیویٹ پریکٹس کو ترجیح دیتے ہیں اور اکیلے کلینک چلاتے ہیں اگرچہ اس میں ان کے ساتھ اسسٹنٹ اور آفس کا عملہ ہوتا ہے لیکن عملاً وہ اس ٹیم کے ہیڈ ہوتے ہیں اور سارا بوجھ برداشت کرتے ہیں دن رات اس کلینک میں بند رہتے ہیں جو ذہنی صحت کی خرابی کا باعث بنتا ہے، اس کے ساتھ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کے ڈینٹسٹ کو ڈینٹل سرجن کیوں بولا جاتا ہے انتہائی مختصر اور حساس جگہ پر کام کرتے ہیں جہاں خون اور لعاب دونوں کی موجودگی اور نسوں اور خون کی شریانوں کی وافر موجودگی اس کو مزید گمبھیر کرتی ہے چھوٹی سی غلطی مستقل کسی بھی نس کی معذوری کا باعث بن سکتی ہے اور آپ نے دن میں کم ازکم ہر روز دس سے بارہ گھنٹے اس عمل سے گزرنا ہے آپ کے آنکھ، کان، ہاتھ مسلسل چوکنے اور انتہائی مستعد ہونے چاہیں اور ڈینٹسٹ کے اعصاب اس کی بھاری قیمت چکاتے ہیں مستقل سٹریس جب ہر وقت پیسے کمانے کی دھن انتہائی toxic peer competition کے ساتھ اکٹھا ہوتا ہے تو بہت کم ڈینٹسٹ ڈپریشن سے بچ پاتے ہیں اس ڈپریشن کو ان کے اردگرد کے لوگ بہت کم سمجھ پاتے ہیں۔

عموماً ڈینٹسٹ کے گھر والے ان کو پیسے کی مشین سمجھتے ہیں وہ وہ اے ٹی ایم کی مشین بن جاتے ہیں جو کام نہ بھی کرنا چاہے تو ہمارے دیسی اس کو کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا کر چلائے جانا چاہتے ہیں کوئی بھی خاص کر پاکستان میں پروفیشنلز کے برن آؤٹ سے واقف نہیں جب کسی بھی پروفیشنل کو بشمول ڈینٹسٹ اس برن آؤٹ کا سامنا کرنا پڑ تا ہے تو نہ ان کی اپنی سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور نہ ہی ان کے گھر والوں کی یہ ایسے ہے کہ آپ اندھیری سرنگ میں اکیلے کھڑے ہوں اور کوئی راستہ نہ دکھائی دے اس وقت ایسے انسان کی ضرورت ہوتی ہے جو کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہے کہ اگر آپ مزید یہ کام نہیں کر سکتے تو کوئی بات نہیں تھوڑا دھیرے چلیں اور جیسے سکون محسوس کریں ویسا کریں ہمارے الٹا حساب ہوتا ہے ایک تو خود بیچارہ ڈینٹسٹ اعصاب کی کمزوری سے پریشان ہوتا ہے دوسرا گھر والے، دوست، احباب رشتے دار اس کو ناکام سست کام چور ہونے کے طعنے دیتے ہیں کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ یہ سب جان کر نہیں کر رہا اور یہی بے حسی اس ڈپریشن کو خودکشی میں بدل دیتا ہے۔

کیونکہ اینٹی ڈپریسنٹ اور anxiolytics عموماً غنودگی کا باعث بنتی ہیں اس لیے کام کے ساتھ اپنا علاج کرنا بھی ممکن نہیں رہتا اور یہ بم خودکشی کی صورت میں پھٹتا ہے۔ اس لیے میری درخواست ہے جب آپ کا پیارا آپ کو بتائے کہ وہ اب اس بوجھ کو مزید برداشت نہیں کر سکتا تو اس کو واپس اس دلدل میں بہادری کی شراب پلا کر دھکیلنے کی بجائے حوصلہ دیں کہ اس کا یہ پروفیشنل i quit دنیا کے i quit سے بہتر ہے اور اس سے وہ کوئی loser ثابت نہیں ہو رہا اور وہ جس میں خوشی محسوس کرتا ہے وہ کر سکتا ہے جینے پہ اس کا بھی حق ہے۔

جہاں تک پاکستان میں ڈینٹسٹ کی قدر نہ ہونے کا سوال ہے تو یہ پاکستان کے قوانین کی پاسداری نہ ہونے کے المیے کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ پاکستان میں ڈینٹسٹ کے نام پر ایک بڑی تعداد عطائیوں کی ہے اس لیے لوگ ان جو بھی ڈینٹسٹ سمجھتے ہیں جس سرکاری ہسپتال میں میں نے کام کیا وہاں کے پوسٹ مین نے اپنا ڈینٹل کلینک کھول رکھا تھا اور ہاؤس جاب کرنے والے حضرات ان کے کلینک پہ جا کر کام کرتے اور اپنا ہاتھ سیدھا کرتے اور ان کے علم اور تجربے سے فیضیاب ہوتے جو اصل میں پوسٹ مین تھے اور یہ اس آئس برگ کی صرف نوک ہے عام آدمی کو ایک ڈینٹسٹ اور عطائی کا فرق نہیں معلوم ہوتا اور وہ عموماً عطائیوں کے الٹے سیدھے علاج کے ڈسے ہوتے ہیں لیکن جو لوگ اصل ڈینٹسٹ سے واقف ہیں ان کو ان کی قدر ہے اور اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں اس پروفیشن کی طرف آنے والے لوگوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

میں امید کرتی ہوں کہ نئے ڈینٹسٹ بھی زندگی کو جینا کا فن بھی سیکھیں گے جیسے وہ دانتوں کا علاج کرنا سیکھتے ہیں اور اس صرف ایک دفعہ ملنے والی نعمت سے لطف اندوز ہوں گے۔ میں ڈاکٹر خالد سہیل کی شکر گزار ہوں جنہوں نے بطور دوست ہمیشہ عزت اور احترام سے پیش آئے اور میرے پروفیشن کے اتنے اہم موضوع ڈینٹسٹ کی ذہنی صحت کا انتخاب کر کے ثابت کیا کہ ماہر نفسیات ہر جگہ ماہر نفسیات ہوتا ہے چاہے وہ ڈینٹسٹ کی کرسی پر بیٹھ کر اپنا علاج ہی کیوں نہ کرا رہا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments