سمراٹ پرتھوی راج: جنگجو ہندو بادشاہ کی فلمی کہانی جو بی جے پی کی مدد کے باوجود فلاپ ہو گئی

گیتا پانڈے - بی بی سی نیوز، دہلی


یہ ایک ایسی فلم تھی جس کے بارے میں گمان تھا کہ یہ باکس آفس پر چھا جائے گی۔

پرتھوی راج چوہان کی کہانی، ایک حسین بادشاہ جو اپنی محبت میں گرفتار ایک خوبصورت شہزادی کو اس کے دغا باز باپ سے بچا لیتا ہے، سینکڑوں سال سے انڈیا میں سنائی جاتی رہی ہے جس میں پرتھوی راج کی بہادری اور ہاتھیوں اور گھوڑوں سے لڑی جنگوں کی داستانیں موجود ہیں۔

یہ ایک ایسے ہیرو کی کہانی ہے جو غیر معمولی شخصیت کا حامل نظر آتا ہے۔

پرتھوی راج چوہان کو انڈیا کا آخری عظیم ہندو حکمران مانا جاتا ہے۔ انھوں نے انڈیا کے راجھستان اور دلی پر بارہویں صدی کے دوران حکومت کی تھی۔ ایک جانب پرتھوی راج اور ان کی خوبصورت ملکہ سنیوگیتا کی لازوال محبت کی داستان تو دوسری طرف ان کی متعدد جنگوں میں فتوحات اور آخر کار محمد غوری کے ہاتھوں شکست کی کہانی تاریخ کی کتابوں کا اہم حصہ رہی ہے۔

حال ہی میں بالی وڈ سٹار اکشے کمار نے پرتھوی راج چوہان کا تاریخی کردار ادا کیا جو انڈیا کے ایک ایسے اداکار ہیں جن کی فلمیں عام طور پر ہٹ ہوتی ہیں اور جن کے انڈیا اور بیرون ملک ان گنت فینز موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس ’جنگجو بادشاہ کا کردار ادا کرنا ان کے لیے قابل فخر تھا اور اگر ان کی والدہ زندہ ہوتیں تو وہ بھی بہت فخر محسوس کرتیں۔‘

لیکن اتوار کو جب میں نے دلی کے ایک سنیما گھر میں سمراٹ پرتھوی راج فلم دیکھنے کے لیے سیٹ سنبھالی تو میری توقعات پہلے ہی متاثر ہو چکی تھیں۔

فلم کی ریلیز سے دو دن پہلے ہی بے شمار ٹکٹ دستیاب تھے اور سنیما ہال کا آڈیٹوریم تقریباً ایک تہائی خالی تھا۔ ناقدین اس فلم کو ’بے روح‘، ’تھکا دینے والی‘، ’بے لطف‘ جیسے القابات سے نواز چکے تھے۔

انڈین ایکسپریس اخبار کی فلمی ناقد شبھرا گپتا نے کہا کہ ’یہ ایک سادہ فلم ہے جو پرشور تو ہے لیکن کشش سے عاری ہے۔‘

سوموار کی صبح تک اطلاعات موصول ہوئیں کہ سنیما ہالز ٹکٹوں کی فروخت میں کمی کے سبب شو منسوخ کر رہے ہیں اور اس فلم کو ایک شاندار ناکامی قرار دے دیا گیا۔

تو یہ سب آخر کیسے ہوا؟

سمراٹ پرتھوی راج فلم آغاز سے ہی تنازعات کا شکار تھی۔ گزشتہ جمعے کے دن اس کے ریلیز سے قبل سوشل میڈیا پر اکشے کمار کے ایک متنازع جملے نے کافی ہلچل مچائی جس کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’تاریخ کی کتابیں مغل حملہ آوروں کی معلومات سے تو بھری ہوئی ہیں لیکن پرتھوی راج چوپان جیسے ہندو بادشاہوں کی عظمت اور جرات پر کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

اکشے کمار کا نصاب میں ہندو راجاؤں کے ’عظیم الشان قصے‘ نہ ہونے کا شکوہ

اورنگزیب: تین سو سال پہلے مر جانے والا مغل بادشاہ انڈیا میں زیر بحث کیوں؟

’چاند سے بھی خوبصورت‘ قبیلے ایبک کا ’سخی غلام‘ جو ہندوستان کا بادشاہ بنا

امیتابھ بچن کی وہ فلم جس کے لیے افغان ’مجاہدین‘ نے جنگ روک دی تھی

اکشے کمار حالیہ برسوں میں صرف اپنی فلموں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے قربت کے باعث بھی خبروں کی زینت بنے ہیں۔ ان کو اسی وجہ سے ’ہندو قوم پرستی کے پوسٹر بوائے‘ کا خطاب بھی مل چکا ہے۔

تین سال پہلے اکشے کمار کا اس وقت کافی مذاق اڑایا گیا جب انھوں نے وزیر اعظم مودی سے انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ کیا وہ آم کھاتے ہیں اور کیا وہ کاٹ کر کھاتے ہیں یا سنک پر کھڑے ہو کر چوس لیتے ہیں۔

ایسے میں یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ ان کی اس فلم کو حکومت کی جانب سے کافی آشیر باد ملی۔ تین ریاستوں، جن پر بی جے پی کی حکومت ہے، نے فلم کو ٹیکس سے بری قرار دیا تاکہ ٹکٹ کی قیمت کم ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ فلم دیکھنے آئیں۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے اکشے کمار کے ساتھ ایک خصوصی سکریننگ میں فلم دیکھنے کے بعد کہا کہ یہ فلم انڈیا کی اس ثقافتی تجدید کے سفر کا اہم حصہ ہے جو ملک کو عظیم دور میں واپس لے کر جائے گی۔

لیکن مورخین کے مطابق فلم غلطیوں سے بھرپور ہے کیوں کہ اس کی کہانی کی بنیاد چاند بردئی کی پرتھوی راج راسو نامی وہ نظم ہے جو پرتھوی راج چوہان کی موت کے ساڑھے تین سو سال بعد سولہویں صدی میں لکھی گئی۔

چاند بردئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ کے درباری شاعر تھے لیکن کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ نظم جعلی معلومات پر مشتمل ہے۔

ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ یہ فلم اس تسلسل کا حصہ ہے جس کے تحت بی جے پی حکومت کے دور میں سنیما کے ذریعے انڈیا کی مسلم اقلیت کو ظالم حملہ آور اور غیر مقامی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

مورخ اروپ بنیرجی کہتے ہیں کہ ایسی کہانیاں تاریخی سچائی کو مدنظر رکھتے ہویے نہیں لکھی گئی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ آج کے وقت کے معیار پر تاریخی کہانیوں کو نہیں جانچ سکتے کیوں کہ یہ تمام تحریریں ایسے قصیدے تھے جن کا مقصد حکمرانوں کو عظیم ثابت کرنا تھا۔‘

ان کا ماننا ہے کہ فلم بھی ایک مخصوص طبقے کے لیے بنائی جاتی ہے جس کا خاص مقصد ہوتا ہے، ’سیاسی شعور کا کردار، اور جو لوگ پرتھوی راج یا جودھا اکبر یا پدماوت جیسی بالی وڈ فلم دیکھنے جاتے ہیں وہ تاریخی حقائق میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘

پروفیسر بنیرجی کہتے ہیں کہ تاریخ کی پیچیدگی کو صرف ہندو مسلمان تناظر میں بھی نہیں دیکھنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پرتھوی راج چوہان مسلمان حملہ آوروں سے نہیں لڑ رہے تھے بلکہ اپنی ریاست اور سرزمین کو بچانے کی جنگ میں مصروف تھے۔ دلی تک پہنچنے کے لیے مغرب سے آنے والے ترکوں کو راجھستان سے گزرنا پڑتا جو ان کی زمین تھی اس لیے لڑائی تو ہونی ہی تھی جو تاریخ کا حادثہ تھا۔ تو اس لیے اب ان کو ایک مخصوص کیمپ کا حصہ بنانا تاکہ وہ موجودہ برسراقتدار جماعت کے مقاصد میں مدد کر سکیں درست نہیں ہو گا۔‘

لیکن ایک ایسے وقت میں جب قوم پرستی عروج پر ہے، پروفیسر بنیر جی سوال اٹھاتے ہیں کہ ’کیا یہ کوئی حیرانی کی بات ہے کہ ہندوتوا کی طرف جھکاؤ رکھنے والے فلم سازوں کو پرتھوی راج کے اندر ایک ایسی پرکشش شخصیت دکھائی دی جسے سنیما کی سکرین تک لانا ضروری تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بی جے پی کی اس مہم کا حصہ ہے جس کے تحت تاریخی کرداروں کو چن کر لوگوں کے ثقافتی خیالات اور عقائد پر اثر انداز ہونا مقصود ہے۔ اس فلم کا مقصد تھا کہ ایسے ہندو دکھائے جائیں جنھوں نے مسلمانوں پر فتح حاصل کی تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس خیال کو بٹھایا جا سکے۔‘

شبھرا گپتا کے مطابق ماضی کی شان و شوکت کو سہارا دینے کے لیے بہت سی فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔

’اس کے پیچھے یہ تصور کارفرما ہے کہ ایسی چکا چوند والی فلم بنائی جائے کہ ناظرین کی آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے آج کے مناظر ان کو بھول جائیں۔ ایسا صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا میں بہت جگہوں پر ہو رہا ہے جہاں حکومتیں اپنے فائدے اور مقاصد کے لیے تاریخی کرداروں کا سہارا لے رہی ہیں۔‘

ایسے میں شھبرا گپتا کہتی ہیں کہ ’اکشے کمار کے لیے بڑا سوال یہ ہے کہ ان کے شائقین نے پیٹھ کیوں موڑ لی؟‘

’میرے ذہن کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف فلم کے موضوع کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بیانیہ کہیں نظر ہی نہیں آتا جو وہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صرف چند لمحات کو چھوڑ کر باقی ڈھائی گھنٹے کی فلم میں کوئی خاص کشش نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments