دعا زہرہ کیس سے متعلق پانچ باتیں جو آپ جاننا چاہتے ہیں

محمد زبیر خان - صحافی


کم عمری میں شادی
کراچی پولیس کے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے مطابق پولیس اب سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے اور دعا زہرہ کی جانب سے دیگر تفتیشی مراحل میں دیے گئے بیانات کی روشنی میں ان کے والدین کی جانب سے دعا زہرہ کے اغوا کے مقدمے کو خارج کرے گی۔ تاہم اگر عدالت اس مقدمے میں پولیس کی حتمی رپورٹ سے مطمئن نہ ہو تو کیس کا چالان پیش کرنے کا کہہ سکتی ہے۔

سندھ پولیس کے مطابق دعا زہرہ کے مقدمے میں اغوا اور انسانی سمگلنگ کی دفعات عائد تھیں۔ ہائی کورٹ اور پولیس کی تفتیش میں دیے گئے بیانات کے بعد اب ان دفعات کے تحت مقدمہ جاری رکھنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔

صوبہ پنجاب کی لاہور ہائی کورٹ میں جمعے کے روز ہونے والے فیصلے کے بعد پنجاب پولیس نے بھی دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے اپنے سسرال اور خاوند ظہیر احمد کے ہمراہ جانے کی اجازت دے دی ہے۔

دعا زہرہ اور ظہیر احمد کو لاہور پولیس نے کڑے پہرے میں لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں پولیس کو ظہیر احمد کے رشتے داروں کو ہراساں نہ کرنے کا حکم سنایا ہے۔

دعا کے والدین کی جانب سے اپنی بچی کے مبینہ اغوا کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا جس پر ہونے والی قانونی کارروائی اور دعا کی مبینہ پسند کی شادی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

بی بی سی نے ان میں سے پانچ ایسے سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے جو دعا زہرہ کیس سے جڑے ہیں۔

1: ظہیر احمد کون ہیں؟

ظہیر احمد کے حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق ان کا آبائی ضلع اوکاڑہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ظہیر احمد کے والدین لاہور منتقل ہو گئے تھے۔ ظہیر احمد اپنے بڑے بھائیوں کی سرپرستی میں ہیں۔ یہ زمیندار خاندان ہے جبکہ ان کے بڑے بھائی ملازمتیں کرنے کے علاوہ کاروبار بھی کرتے ہیں۔

ظہیر احمد کے قریبی رشتے دار اور چچا ابھی بھی ضلع اوکاڑہ کے علاقے حویلی لکھا میں رہائش پذیر ہیں۔ اس مقدمے کے دوران ظہیر احمد کے مختلف رشتے دار ضلع اوکاڑہ میں پولیس کی تفتیش سے بھی گزرتے رہے ہیں۔

اوکاڑہ پولیس کی نظروں میں آنے کے بعد ظہیر احمد اور دعا زہرہ ضلع بہاولنگر میں ظہیر احمد کے رشتے داروں کے پاس مقیم رہے ہیں۔

ظہیر احمد کے وکیل رائے احمد کھرل ایڈووکیٹ کے مطابق اس مقدمے کی وجہ سے ظہیر احمد اور ان کے بھائیوں کے زیر استعمال موبائل فونز، بینک اکاؤنٹس، شناختی کارڈ، سب کچھ بلاک کر دیے گئے تھے جس وجہ سے ان کو انتہائی مشکلات حالات سے گزرنا پڑا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اب اگر اُن کے موکلوں کے تمام کاغذات اور موبائل نمبر وغیرہ بحال نہ ہوئے تو وہ دوبارہ عدالت سے رجوع کریں گے۔ رائے احمد کھرل ایڈووکیٹ کے مطابق ان کے موکلین موجودہ حالات میں میڈیا سے بات کرنا اور سامنے نہیں آنا چاہتے ہیں۔

دعا زہرہ

2: کیا اب کیس ختم ہو چکا ہے یا ٹرائل ہو گا؟

رائے احمد کھرل ایڈووکیٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے بعد ان کے موکلوں پر مقدمات تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔

عدالت کی جانب سے دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے جانے کی اجازت دینے کے بعد اغوا کی دفعہ تو ختم ہو چکی ہے جس وجہ سے ظہیر احمد کے قریبی رشتے داروں کو چھوڑ دیا گیا جبکہ نکاح خواں اور گواہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجا گیا ہے جن کی ضمانت کی درخواست جلد دائر کر دی جائے گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کی ہے، جس کے بعد امید ہے کہ نکاح خواں اور گواہ کی بھی جلد ضمانت ہو جائے گئی۔

تاہم دعا زہرہ کے والد کے وکیل الطاف حسین کھوسو رائے احمد کھرل کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔

الطاف حسین کھوسو ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ظہیر احمد نے لاہور ہائی کورٹ میں بھی ہراساں نہ کرنے کا کیس دائر کر رکھا تھا جس میں فریق پولیس اور انتظامیہ تھی۔

’میری رائے میں اصل جرم کراچی میں ہوا ہے، یہاں پر مقدمہ درج ہے۔ پولیس اپنا کوئی بھی چالان وغیرہ ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کی پابند ہے جس پر ہمیں بھی بات کرنے کا حق ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اگر مقدمہ خارج کرتی ہے تو وہ اس کی مخالفت کریں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو جانے کی اجازت دی ہے تاہم مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ مقدمے کا ٹرائل اب ہونا ہے اور یہ ماتحت عدالت میں ہو گا جس میں اس مقدمے سے منسلک تمام لوگوں کے بیانات ریکارڈ ہوں گے جس میں دعا زہرہ بھی شامل ہوں گی۔

ممتاز قانون دان جبران ناصر ایڈووکیٹ کی رائے میں بھی مقدمے کا ٹرائل ہونا ہے۔ اس میں پولیس اپنی تفتیش کے نتیجے میں مقدمہ خارج کرنے کی درخواست دے سکتی ہے جس پر عدالت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہو گا۔ ٹرائل کے نتیجے میں مقدمے کا فیصلہ ہونے میں لمبا عرصہ چاہیے ہو گا۔ ابھی بھی اس کیس میں مختلف قسم کے آپشن موجود ہیں۔ جس میں سپریم کورٹ میں اپیل کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ میں ریویو کا آپشن موجود ہے۔

3: عمر پر تنازع اور عدالتی روایات

کم عمری میں شادی

جبران ناصر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے میں اُنھوں نے تین ایسے مختلف مقدمات لڑے ہیں جن میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے 18 سال سے کم عمر بچیوں کو عدالت میں پیش ہونے کے بعد جن سے نکاح کا دعویٰ کیا گیا، ان کے ساتھ جانے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔

جبران ناصر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان بچیوں کے سامنے دو ہی راستے رکھے گئے تھے کہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ چلی جائیں یا پھر حکومتی تحویل میں رہ کر کچھ عرصہ گزاریں اور مناسب عمر تک پہنچ کر فیصلہ کریں۔ تیسرا راستہ یعنی اپنے مبینہ شوہروں کے ساتھ جانے کا آپشن دیا ہی نہیں گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مختلف قوانین بالکل واضح ہیں کہ کم عمری کی شادیاں جرم ہیں اور صوبوں میں ان کی مختلف حدود مقرر ہیں۔ قوانین میں کم عمر بچوں کو بہلانا پھسلانا بھی جرم ہے اور اس کی سزا مقرر ہے جبکہ 16 سال سے کم عمر بچیوں کو والدین سے بہلا پھسلا کر ان کی نگرانی سے الگ کرنا قانون کی نظر میں اغوا کے زمرے میں آتا ہے۔

جبران ناصر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ہائی کورٹس میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک جیسے مقدمے میں اگر ڈویژنل بینچ کا فیصلہ آ جائے تو اس فیصلے کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور اگر ڈویژنل بینچ یہ سمجھے کہ سابقہ ڈویژنل بینچ کے فیصلے میں کوئی رد و بدل ضروری ہے تو پھر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو کیس واپس بھجوایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس اس میں لارجر بینچ تشکیل دیتے ہیں۔

جبران ناصر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عمر کے تعین کرنے کے حوالے سے بھی ہائی کورٹ سنگل بینچ کا فیصلہ موجود ہے کہ اگر سرکاری کاغذات اور نادرا میں عمر کا اندراج واقعے سے کافی عرصہ پہلے کیا گیا ہو تو وہ ہی قبول کیا جائے گا۔ اس میں حکومتی دستاویزات اور نادرا وغیرہ کے کاغذات کو طبی معائنے پر فوقیت دی جائے گی۔

اس طرح سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ عمر کے تعین میں صرف بچی کے بیان پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ اس حوالے سے دستاویزات بھی اکھٹی کی جائیں گی۔

جبران ناصر ایڈووکیٹ کے مطابق اسی طرح میرے تجربے میں ہے کہ عموماً لڑکیوں کو سوچنے سمجھنے کا مناسب موقع دیا جاتا ہے۔

’جب کہا جاتا ہے کہ بہلا پھسلا، ورغلا یا لالچ دے کر یہ کام ہوا ہے تو اس میں بہتر فیصلہ کرنے کے لیے مناسب وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس دوران ان کو حکومتی سرپرستی میں شیلٹر ہوم میں رکھا جاتا ہے۔ اس دوران سوشل ویلفیئر کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ وہ بچی کی مناسب دیکھ بھال کرے جس کے ساتھ تعلیم و تربیت کے معاملات پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔‘

جبران ناصر کا کہنا تھا کہ طبی معائنہ دیکھیں یا نادرا کے کاغذات، اس مقدمے میں دعا کی عمر 18 سال سے کم ہے۔ اب اس طرح کے مقدمات میں اگر بچی والدین کے پاس نہیں بھی جانا چاہتی تو بھی ریاست کو اس کی نگرانی سے بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

الطاف حسین کھوسو کہتے ہیں کہ وہ اس وقت تحریری فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں اور عدالت کا تحریری فیصلہ پڑھنے کے بعد والدین کی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے گا کہ اب اس مقدمے کو کیسے بڑھانا ہے۔

’ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں مگر اپنا اپیل کا حق استعمال کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

دعا زہرا: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنا اتنا مشکل کیوں؟

پولیس دعا زہرہ کی ساس، سسرالی رشتے داروں کو ہراساں نہ کرے: لاہور ہائی کورٹ

دعا زہرا اوکاڑہ پولیس کی تحویل میں، ویڈیو پیغام منظرِ عام پر: ’بالغ ہوں، مرضی سے شادی کی‘

4: دعا والدین کا کیا کہنا ہے؟

دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی کہتے ہیں کہ وہ اس مقدمے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ ’اب یہ معاملہ ایک دعا زہرہ کا نہیں بلکہ اس جیسی کئی کم عمر بچیوں کا معاملہ ہے۔‘

مہدی علی کاظمی دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ معاملہ محبت کی شادی کا نہیں ہے۔

’میں خود انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک ہوں۔ میری بچی کے پاس ایک ٹیب ضرور موجود ہے مگر اس میں کوئی سم نہیں ہے۔ میرے گھر میں تین موبائل ہیں۔ بچی کے غائب ہو جانے کے بعد میں نے تینوں موبائل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیے تھے کہ وہ پتا لگائیں کہ بچی کا کس سے رابطہ تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تینوں موبائل اور بچی کے پاس موجود ٹیب سے کچھ پتا نہیں چلا اور موبائل فون وغیرہ سے صرف اور صرف قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ ہی رابطے نکلے ہیں۔

’میرا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کچھ اور ہے۔ بچی دباؤ کا شکار ہے۔ پتا نہیں کیا ہوا یا کیا نہیں۔ اس بارے میں جاننا ضروری ہے۔‘

مہدی علی کاظمی کہتے ہیں کہ ’پتا تو کیا جائے کہ یہ کون لوگ ہیں جو 52 دن تک پورے پاکستان کی پولیس کی نظروں سے اوجھل رہے اور آئی جی سندھ کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے؟‘

مہدی علی کاظمی کہتے ہیں کہ عدالت نے جب ہمیں ملاقات کا وقت دیا تو اس موقع پر درجن بھر پولیس اہلکار کھڑے تھے۔ وہاں پر وہ لوگ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وہ انتہائی دباؤ کی شکار تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے دعا زہرہ کو یقین دلایا کہ اُن کی مرضی کے برخلاف کوئی فیصلہ نہیں ہو گا۔

’میں نے اس سے کہا کہ جا کر عدالت کو بیان دو کہ تم ہمارے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔ ہم تمہاری خواہش کو پوری کریں گے۔‘

دعا کے والد کا دعویٰ تھا کہ ان کی بیٹی دعا نے حامی بھر لی لیکن اس موقع پر اچانک ملاقات کو ختم کر دیا گیا۔ بیٹی دوبارہ عدالت میں بیان دینے کے لیے بھی تیار تھی مگر اس کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا اور بتایا گیا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، بار بار بیان نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ دعا زہرہ عمر کے جس دور سے گزر رہی ہے، اس میں غلط اور جذباتی فیصلے ہو سکتے ہیں اور ان کو سدھارنے کا موقع دیا جاتا ہے، اس لیے دعا زہرہ کو بھی کچھ عرصے کے لیے شیلٹر ہوم بھیج دیا جائے۔

’شیلٹر ہوم میں کچھ عرصہ رہ کر وہ سمجھ سکے کہ وہ کیا کر رہی ہے، کیا ہو رہا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔‘

دعا زہرہ

فائل فوٹو

5: بلوغت کی عمر ایک مشکل مرحلہ کیوں؟

بچوں کی نفسیات کی ماہر سارہ نعمان کہتی ہیں کہ 11 سے 15 سال عمر کا حصہ انتہائی حساس ہوتا ہے اور یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں اگر بچے سے مناسب انداز میں پیش نہ آیا جائے اور رہنمائی نہ کی جائے تو وہ بہت کچھ کر گزرتا ہے۔

سارہ نعمان فیڈرل گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ ہیومن ڈویلپمنٹ اور فیملی سٹڈی میں لیکچرار ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ چند سال پہلے جب دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی تھیں تو اکثر یہ اطلاعات ملتی تھیں کہ خودکش حملہ آور کم عمر ہے۔

’والدین کو خبردار رہنا چاہیے کہ یہی وہ عمر ہے جس میں آسانی کے ساتھ کسی کو بھی گمراہ کیا جا سکتا ہے۔‘

سارہ نعمان کہتی ہیں کہ عمر کے اسی حصے میں بچوں کے اندر بلوغت پیدا ہو رہی ہوتی ہے، ہارمونز میں تبدیلی ہو رہی ہوتی ہے، جسمانی ساخت تبدیل ہوتی ہے، عمر کے اس حصے میں چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، اسے توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں لڑکیوں کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کو گھر سے باہر نکل کر توجہ حاصل کرنے کا موقع کم ملتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ضرورت یہ ہوتی ہے کہ بچیوں کی ماں ان کی دوست ہو اور ان کو سمجھا سکے کہ ان کے جسم میں یہ کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں، ان کا مقصد کیا ہے اوراس موقع پر بچیوں کو جذباتی اور جسمانی طور پر سہارا فراہم کیا جائے ورنہ عموماً خدشہ ہوتا ہے کہ منفی رد عمل خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ماہرِ نفسیات سارہ نعمان نے بتایا کہ اگر گھر میں ہر وقت ایک ہی بات ہو رہی ہو کہ بس اب اس کی شادی کرنی ہے، اس نے گھر بسانا ہے، کوئی بھی کام کرنا ہے تو شادی کے بعد کرنا ہے، تو پھر اس عمر میں بچی سوچتی ہے کہ اگر شادی ہی کرنی ہے تو میں خود کر لوں کیونکہ گھر والے اتنی جلدی مجھے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32486 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments