عامر لیاقت! کیجئے ہائے ہائے کیوں


عامر لیاقت کو میں نے پہلی مرتبہ آدم جی سائنس کالج کے آڈیٹوریم میں دیکھا جہاں وہ اور میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ وہ پری میڈیکل میں تھے اور میں پری انجینئرنگ کے سیکشن میں تھا۔ یہ 1990 کی بات ہے۔

کالج میں ایک تقریری مقابلہ تھا۔ مقابلے میں حصہ لینے والے سب ہی اچھی تقریر کر رہے تھے لیکن عامر لیاقت کا انداز اور جوش ہی کچھ اور تھا۔ یہ مقابلہ بھی انہوں نے ہی جیتا۔

میرا ایک اور دوست جو اب امریکہ میں ایک بڑا ڈاکٹر ہے، عامر لیاقت ہی کی کلاس میں تھا۔ ہم دونوں تقریری مقابلے کے بعد عامر سے ملے اور بہت دیر تک ہنسی مذاق کرنے لگے۔ مجھے اسی دن اندازہ ہو گیا تھا کہ عامر لیاقت نے اب نہیں رکنا۔ اچھا یا برا، وہ نام ضرور روشن کرے گا۔

عامر لیاقت کی کئی باتوں سے اختلافات کے باوجود جو نکتہ میں یہاں آج اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ دوسروں کو جینے کا حق دینا ہے۔ آخری دنوں میں عامر لیاقت نے اپنے آپ کو کمرے میں ایک طرح سے محصور کر لیا تھا۔ برہنہ تصاویر اور ویڈیو کے لیک ہونے پر وہ ٹوٹ سا گیا تھا۔ سیف الدین سیف نے کہا تھا،

مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں
موت آسان ہو گئی ہو گی

ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ دوسروں کی نجی زندگیوں پر بحث، ہر بات پر طعنہ، تمسخر، طنز اور دشنام۔ جو معاشرہ چوبیس گھنٹے بریکنگ نیوز پر چلتا ہو، وہاں لوگ اپنی ذات کو کمرے میں ہی محصور کریں گے۔ ذہنی امراض اور ڈپریشن میں ہی لوگ مبتلا ہوں گے۔

عامر کے رونے کو بھی ہم نے حقیر جانا اور پھر وہ ہی ہوا جو حسن عباس نے کہا تھا،
مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت پہ آنا پڑا مجھے
وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقیں
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے

میں یہاں مشہور کورین سنگر اور پاپ اسٹار جانگ ہیان کا ایک خودکشی کا خط پیش کر رہا ہوں جس کا ترجمہ صافی سرحدی صاحب نے بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔

اس خط کو پڑھنے کے بعد شاید ہم سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر، اپنی عام زندگی میں اور اپنی تحریروں میں برداشت، محبت اور رواداری کو اپنا سکیں۔

آئیے وہ خط پڑھتے ہیں جو مشہور کورین سنگر جانگ ہیان نے اپنے دوست کو خودکشی سے کچھ پہلے بھیجا تھا۔

”میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا تھا۔ اداسی نے پہلے آہستہ آہستہ مجھے شکستہ کیا اور پھر مجھے نگل لیا۔ میں نے خود سے نفرت کی۔ اگر میں ‌ سانس نہیں ‌ لے سکتا، تو مجھے رک ہی جانا چاہیے۔ میں تنہا محسوس کرتا ہوں۔

یہ کہنا آسان ہے کہ میں ‌ خود کو ختم کر دوں ‌ گا۔ لیکن ایسا کرنا مشکل ہے۔ میں ‌ نے مشکلات سے لڑنے کی کوشش کی۔ میں ‌ نے خود کو بتایا کہ شاید یہ میں ‌ ہی ہوں ‌ جو ہر شے سے فرار چاہتا ہوں، یہ سچ ہے۔ میں ‌ واقعی خود سے فرار چاہتا تھا۔

میرے ذہن میں ‌ پریشان کن خیالات کا سیلاب رواں ہے۔ مجھے کبھی موقع نہیں ‌ ملا کہ اپنے درد کو مسرت میں ‌ بدل سکوں۔ دکھ بس دکھ ہے، کیوں؟

میں ‌ کیوں ‌ اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنے دکھ اور درد کی وجہ جاننے کی کوشش کی اور مجھے پتا چلا کہ

میں ‌ خود اپنی وجہ سے تکلیف میں ‌ تھا۔ یہ میری ہی غلطی ہے کہ میرے اندر اتنی ساری خامیاں ‌ ہیں۔ کیا یہی آپ سننا چاہتے تھے؟

نہیں، میں ‌ نے کچھ غلط نہیں ‌ کیا۔ ڈاکٹروں ‌ کے لیے بہت آسان ہے کہ اپنی پرسکون آواز میں ‌ ہماری ذات ہی کو ہمارے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا دیں۔ میں ‌ حیران ہوں ‌ کہ میں خود کو اتنی تکلیف میں محسوس کرتا ہوں۔ وہ لوگ جنہوں ‌ نے مجھ سے زیادہ دکھ برداشت کیے، وہ کس طرح جئے جا رہے ہیں۔ مجھ سے کمزور بھی زندہ ہیں، مجھے ایک ہی جواب ملا کہ ”بس جیتے رہو!“

تم مجھ سے کیسے پوچھ سکتے ہو کہ میں اپنی تکلیف کی وجہ تلاش کروں؟ میں ‌ نے کتنی بار کہا کہ میں ‌ تکلیف میں ‌ ہوں۔ کیا مجھے تکلیف میں ‌ ہونے کی مزید وجوہات کی ضرورت ہے؟

کیا مزید کہانیاں بتانے کی ضرورت ہے؟ میں ‌ نے تمہیں پہلے سے بتا دیا ہے۔ کیا تمہارا دماغ غیر حاضر تھا جب میں نے تمہیں بتایا؟ جو چیزیں تم برداشت کر لیتے ہو اور ان سے بلند ہو جاتے ہو وہ زخم کے نشان نہیں ‌ چھوڑتیں۔ دنیا کے خلاف جانا میری ذمہ داری نہیں ‌ تھی۔ دنیا میں مشہور ہو جانا میرا راستہ نہیں ‌ تھا۔

اسی لیے کہتے ہیں ‌ کہ دنیا سے مختلف ہونا مشکل ہے۔ دنیا میں مشہور ہونا مشکل ہے۔ میں ‌ نے کیوں ‌ یہ راستہ چنا۔ اب تو یہ سوچنا مذاق لگتا ہے۔ یہ معجزہ ہے کہ اس تمام وقت میں ‌، میں ‌ اس سب سے گزر گیا۔ اور کیا کہہ سکتا ہوں۔

بس کہو کہ گڈ جاب! تم نے بہت اچھا کام کیا۔ مجھے کہو کہ میں ‌ بہت سہ چکا ہوں۔ حالانکہ اس وقت تم ہنس نہیں ‌ سکتے، لیکن بس مجھے الزام دیتے ہوئے رخصت مت کرو

کہو، گڈ جاب!
تم بہت سہ چکے ہو
گڈ بائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments