عامر لیاقت ہیرو نہیں تھا


روایت چلی آ رہی ہے کہ مرجانے والے کو زبردستی اچھا کہا جائے۔ اس کی برائیوں پر پردہ ڈالا جائے تا کہ ہماری بھی پردہ پوشی ہو۔ بھئی ایسے کام ہی کیوں کرو کے اپنے عیب چھپانے کے لئے مہا پاپیوں کو بھی اچھا کہنا پڑے؟ کیا یہ جھوٹ نہیں؟ منافقت نہیں؟

انسانی ہمدردی یا ترس کے تحت کسی عام انسان کی معمولی زیادتیاں تو شاید درگزر کی جا سکتی ہیں لیکن ایسے انسان کے لیے بلاوجہ کے نیک کلمات کہنا جس نے اپنی جہالت اور بد زبانی سے باقاعدہ مہم چلا کر لوگوں کی جانیں لی ہوں یہ اخلاق کی اعلیٰ نہیں بلکہ مفاد پرستی کی اعلیٰ سطح ہے تا کہ مرنے والے برے شخص کو معاف کر کے ہم اپنے کالے کرتوتوں کے لئے ابھی سے جگاڑ نکال لیں۔

میں ان ہی صاحب کے بارے میں بات کر رہی ہوں جن کے مرتے ہی ان کی ان دیکھی نیکیاں سب کو اچانک یاد آنے لگی ہیں۔ عامر لیاقت حسین کی 3 شادیاں میرے لئے کبھی بھی قابل مذمت نہیں رہیں نہ ہی ان کی ٹی وی پر کہے گئے عامیانہ الفاظ پر مجھے کبھی افسوس ہوا کیونکہ ایک حمام میں سب ننگے کے مصداق عامر لیاقت کی یہ احمقانہ حرکتیں کچھ انوکھی نہیں تھیں نہ ہی ان کا تعلق کسی اور کی ذات سے تھا۔

مجھے ان پر اعتراض تب شروع ہوا جب انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ادارے پر کیچڑ اچھالنی شروع کی اور کچھ عرصے بعد اسی ادارے کے سربراہ سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی۔ خیر اس طرح تھوکا ہوا چاٹنا بھی ہمارے معاشرے میں زیادہ قبیح نہیں سمجھا جاتا لیکن میرے افسوس کی وجہ یہ تھی کہ یہ مفاد پرست انسان ٹی وی پر جانے کتنے ذہنوں کو تباہ کرنے کے باوجود کتنی ڈھٹائی سے بیٹھا ہے۔

اب ایک نظر ڈالتے ہیں حضرت کے کارناموں پر۔ بول نیوز پر عامر لیاقت حسین اپنے پروگرام ”عالم کے بول“ کے دوران ایک بار فتنہ پھیلاتے پھیلاتے شو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ شو میں ایک بھارتی کی جانب سے سوال کیا گیا تھا جس کے بعد پروگرام میں بلائے مذہبی رہنماؤں سے ان کے عقائد کے بارے میں سوال کیے گئے تھے جس کا مقصد خود کو صحیح مسلمان اور دوسرے کو خدا جانے کیا ثابت کرنا تھا۔

بھئی کس نے آپ کو لوگوں کے ایمان اور ان کے فقہ پر سوال اٹھانے کا حق دیا ہے؟ سوال اگر منطقی ہو تو بہت خوب لیکن کوئی شخص اسی مذہبی نظریے کو زبردستی مانے جسے آپ مانتے ہو یہ کہنے والے اور ٹی وی پر ایسا نازک موضوع چھیڑ کر لوگوں میں نفرت کے جذبات بھڑکانے والے آپ ہوتے کون ہو؟

ایسا ایک بار نہیں کئی بار ہوا۔ جب جیو نیوز میں عالم آن لائن کے نام سے عامر لیاقت نیم حکیم بن کر مذہبی شو کی میزبانی کرتے تھے تب متعدد بار شیعہ سنی مذہبی رہنماؤں کے درمیان پھلجھڑیاں چھوڑ کر فساد پھیلایا کرتے تھے۔ ان کی شرپسند طبعیت صرف اسی پر بس نہیں کرتی تھی کئی بار مرحوم نے ہندو پنڈتوں کو بلا کر شو کے دوران ان کے عقائد پر بھی سوال اٹھائے۔

بول نیوز پر ہی موصوف نے چند مشہور بلاگرز جن میں سلمان حیدر اور وقاص گورایہ شامل ہیں، ان کے خلاف بنا کسی ثبوت کے مہم بھی چلائی اور جس کے لئے جو دل کیا وہ خطاب اسے دیا۔ کسی کو بھارت کا ایجنٹ کسی کو را اور موساد اور کسی کو قادیانیت کا ایجنٹ قرار دے دیا۔

ٹی وی چینل پر بیٹھ کر لوگوں کا نام لے کر نفرت پھیلانے کی کیا وجہ تھی؟ بول چینل جوائن کرتے ہی جیو کو نیلا پیلا چینل کہہ کر مرحوم کون سی نیکیاں کما رہے تھے اور بعد میں اسی نیلے پیلے چینل کے مالک میر شکیل الرحمان سے ہاتھ جوڑ کر کیوں معافی مانگ رہے تھے اور سب سے اہم بات اس سارے تماشے کے دوران جن ذہنوں نے ان کی ہذیان گوئی کا اثر لیا اور اپنے دل و دماغ کو نفرت کی آگ سے بھر لیا کیا عامر لیاقت کی بخشش کی دعا کرنے سے وہ ذہن پاک ہوجائیں گے؟

لاسٹ بٹ ناٹ دا لیسٹ 7 ستمبر 2008 کو عالم آن لائن میں مرحوم احمدیوں کے خلاف ایک پروگرام کرتے ہیں جس میں کچھ اس انداز میں گفتگو کی جاتی ہے کہ اگلے 48 گھنٹوں کے اندر میرپور خاص کے 45 سالہ قادیانی ڈاکٹر عبدل منان صدیقی اور نواب شاہ کے 75 سالہ محمد یوسف کو قتل کر دیا جاتا ہے۔

مرحوم نے دنیا بھر سے اس سانحے پر ملامت کے بعد اپنا دامن جھاڑنے کی کافی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے کیوں کہ مملکت خدا داد میں مذہب کی آڑ میں کسی پر جھوٹا الزام لگا کر سرعام جلا دینا بھی کوئی بڑی بات نہیں تو وہ تو پھر احمدی ہی تھے جن سے نفرت کا لائسنس بچے بچے کے پاس ہے۔ کسی نے یہ کہنے کی زحمت نہیں کی کہ ایک سابق وزیر مذہبی امور نے ٹی وی پروگرام کرتے ہوئے اتنا حساس موضوع کیوں چھیڑا اور لوگوں کی مذہبی حساسیت جانتے ہوئے مذہبی منافرت کو کیوں ہوا دی؟

عامر لیاقت کے آخری دنوں کو دیکھ کر ان پر ترس ضرور آتا ہے کہ شہرت کی بلندی چھونے والا شخص آخری لمحات میں اپنی اولاد سے ملنے کے لئے تڑپتا ہوا دنیا سے چلا گیا۔ جہاں تک بات ان کی برہنہ تصاویر لیک ہونے، ان کی ذہنی اذیت کی ہے مجھے انسانیت کے ناتے دلی افسوس ہے لیکن یہ ساری ذہنی اذیت انھوں نے اپنی شہرت کو ہوا دینے کے لئے خود خریدی تھی۔

عامر لیاقت کی شادیوں اور ان کی وائرل ویڈیوز پر تمسخر اڑانے کے میں خلاف ہوں اور رہوں گی لیکن صرف مرجانے سے ان کے وہ گناہ قطعی معاف نہیں ہو جاتے جن کا خمیازہ ذہنوں میں ان کی جانب سے نفرت کے بیج بونے کی وجہ سے کئی گھر بھگت رہے ہیں۔ عامر لیاقت اب دنیا میں نہیں ہیں لیکن اس جیسے متنازع اور نفرت سے بھرے ہوئے شخص کو ایک ہیرو یا اچھے انسان کے طور پر یاد کرنا بد دیانتی کے سوا کچھ نہیں۔ عوام کی زندگی کو نفرت سے تباہ کرنے والے عامر لیاقت کو معصوم اور ہیرو کا درجہ دینے والے ایک بار سوچ لیں کہ آنے والی نسل کے لیے وہ ہیرو ازم یا اچھائی کا کیا معیار مقرر کرنے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments