عصری تاریخ کا قضیہ


عصری تاریخ کے قضیہ کی ہمارے ہاں الجھنے کی بڑی ٹھوس وجوہات ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو یہ کہ ہم مجموعی طور پر تاریخ کے تشکیلی پروسس کو ہی سمجھنے کو تیار نہیں۔ بنیادی طور پر ہم خوابوں، سرابوں اور خواہشوں کی بنیاد پر تصوراتی قسم کی تاریخ بننے کے عادی ہیں (جسے تاریخ کہنا بھی گناہ ہے ) ۔ دوسری وجہ جو پہلی وجہ کا ہی ضمیمہ ہے، وہ یہ کہ ہم ”سنہرے ماضی“ کی متھ میں سانس لینا اور زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے آبا و اجداد نے ہی نہیں ہمارے ”آقاؤں“ نے بھی ہمیں یہی سبق پڑھانا اور سکھانا بہتر سمجھا، لہٰذا ہمارا اپنے عصر سے کوئی ایسا گہرا تعلق بننے ہی نہیں دیا گیا کہ جس کے لیے ہم متفکر ہوں۔ تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہم ماضی سے وابستہ اپنی کچھ تصوراتی سچائیوں اور بے شمار خوش فہم حقیقتوں کو کسی طور شک کی نگاہ سے دیکھنے کا خیال نہیں کر سکتے۔ جب کہ آج کے ”عصری تاریخ“ کے تصور کی بنیاد ہی ٹھوس سچائیوں کے انکار اور ان کے اضافی ہونے کے خیال پر ہے۔

تاریخ کے بارے میں ہمارے ہاں ابھی تک عام تصور یہی ہے کہ اس کا تعلق ماضی سے ہوتا ہے ؛ یقیناً یہ تاریخ کا ادھورا اور ناکافی تصور ہے۔ تاریخ اس سے بہت آگے بڑھ آئی ہے۔ تاریخ ماضی کی بھی ہوتی ہے، حال کی بھی اور اب تو مستقبل کی بھی تاریخ لکھی جا رہی ہے جس کی ایک مثال حالیہ برسوں میں شائع ہونے والی Yuval Noah Harari کی کتاب ”Homo Deus: A Brief History of Tomorrow“ ہے۔ بہرحال یہاں ہمارا موضوع حال کی تاریخ ہے، جس کے لیے ”عصری تاریخ“ یا ”Contemporary History“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اور جس سے سادہ لفظوں میں مراد یہ لی جاتی ہے کہ مؤرخ کا اپنے عہد کی، جس میں وہ زندہ ہے، تاریخ لکھنا۔

عصری تاریخ ”کی اصطلاح اگرچہ انیسویں بیسویں صدی میں رائج ہوئی لیکن علم تاریخ میں اس کا استعمال بہت پرانا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہیروڈوٹس کی کتاب“ تواریخ ”یا“ Histories ”جسے دنیا کی قدیم ترین اور پہلی باقاعدہ تاریخ قرار دیا جاتا ہے اور جو 450 ق م کے لگ بھگ لکھی گئی، بنیادی طور پر عصری تاریخ کے ذیل میں آتی ہے۔ اسی طرح ہیروڈوٹس کے ایک اور ہم عصر لیکن قدرے کم عمر مؤرخ تھیوسی ڈائیڈس کی تاریخ بھی عصری تاریخ کا ہی نمونہ تھی۔ ان دونوں قدیم یونانی مؤرخین نے اپنے اپنے عہد ہی کی تاریخ کو رقم کیا۔ ہیگل نے اپنی معروف کتاب“ The Philosophy of History ”میں صاف صاف اعتراف کیا ہے کہ ان قدیم یونانی مؤرخین کی تاریخ کا بڑا حصہ ان واقعات اور معاشرتی صورت حال کا بیان ہے جو اس وقت ان کی نظر کے سامنے تھی۔ ہیگل نے تاریخ کی اس قسم کے لیے“ Original History ”کی اصطلاح استعمال کی تھی اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس وقت تک بھی Contemporary History کی اصطلاح وضع نہیں ہوئی تھی یہ الگ بات کہ اب کچھ مفکرین ہیگل کی اس قسم کو“ عصری تاریخ ”سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ (ہمارے ہاں ڈاکٹر مبارک علی نے ہیگل کی اس قسم کی تاریخ کا تعارف عصری تاریخ کے عنوان سے ہی کرایا ہے۔ ) لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ بے شک“ عصری تاریخ ”کی اصطلاح نئی ہے مگر اس کی روایت بہت قدیم ہے۔

مغرب میں Contemporary History کی اصطلاح باقاعدہ طور پر پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد استعمال میں آئی اور اس عہد میں اس اصطلاح کو نہ صرف استحکام حاصل ہوا بلکہ جدید انسان نے اپنی تازہ ترین ”حرکات“ کا تجزیہ کرنے اور مستقبل کا الٹا سیدھا جیسا بھی لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کی، اسی ”عصری تاریخ“ کے تناظر میں ہی کی۔ لیکن جب میثل فوکو نے تاریخ کی معروضیت پر سوالیہ نشان لگایا اور بتایا کہ مؤرخ کس طرح کبھی اپنے تعصبات کے تحت اور کبھی سیاسی اغراض یا مقاصد کے تحت ماضی کے واقعات سے بہت کچھ صرف نظر بھی کر دیتا ہے اور اسی کی بنیاد پر Postmodernism نے تاریخ میں کسی بھی معروضی سچائی کے ہونے سے انکار کر دیا تو اس کا اثر ”عصری تاریخ“ پر بھی پڑا اور جب میثل فوکو نے اپنی کتاب ”Archeology of Knowledge“ میں کہا کہ کسی بھی عہد کی تاریخ کا تجزیہ اس عہد کی حدود میں رہ کر ہی ممکن ہے تو اس سے ”عصری تاریخ“ کی اصطلاح نے ایک نئی جہت حاصل کی اور ساتھ ہی دوسری طرف معروف اطالوی مفکر Benedetto Croce نے جب یہ کہ دیا کہ ”All History is a Contemporary History“ تو عصری تاریخ کی معنویت اور بھی بڑھ گئی۔ اس سے اس کی اور اس عہد کے دیگر ما بعد جدیدی مفکرین کی مراد یہ تھی کہ ساری تاریخ معاصر نقطۂ نظر کے تحت لکھی جاتی ہے یعنی ہم ماضی کو بھی حال کی آنکھ سے ہی دیکھتے ہیں۔ مطلب یہ کہ مؤرخین کسی بھی عہد کی تاریخ لکھیں وہ معاصر فکری اور ثقافتی تعصبات اور نقطہ ہائے نظر سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ (یہاں بہرحال ہماری خوابوں اور خواہشوں پر مبنی تصوراتی تاریخ کا ذکر پھر بھی نہیں، وہ اور ہی چیز ہے جس کی کوئی دوسری مثال ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے۔ ) یوں دیکھا گیا کہ کسی بھی عہد کی تاریخ میں واقعات کا انتخاب یا استرداد مخصوص نقطۂ نظر کے تحت ہوتا ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ مؤرخ کا نہ صرف اپنے زمان بلکہ اپنے مکان سے بھی، پوری طرح آزاد ہونا محال ہے۔ تاریخ کے بارے میں اب یہی تصور اعتبار حاصل کیے ہوئے ہے۔ یعنی کسی بھی عہد کی تاریخ لکھی جائے، جس مقام اور عہد میں وہ لکھی جائے گی اس کے اثر سے وہ پاک نہیں رہ سکتی۔ اس لیے اپنی اصل میں ہر تاریخ، عصری تاریخ ہی کہلائے گی۔

یہاں ہمارے موضوع میں اب ایک چھوٹی سی بحث اور بھی داخل ہوتی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں تاریخ کے ایک پروفیسر سر جان سیلے (Sir John Seeley) نے ایک بار تاریخ اور سیاست کے علم میں فرق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”تاریخ ماضی کی سیاست ہے اور سیاست زمانۂ حال کی تاریخ ہے۔“ اس سے نہ صرف تاریخ اور سیاست کے علوم آپس میں لازم و ملزوم کی سی حیثیت میں نظر آتے ہیں بلکہ اس کے تحت ”عصری تاریخ“ سیاسیات کے بیان تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور یہ سوچ ایک طویل عرصے تک مؤرخین کے ذہنوں پر حاوی رہی ہے کہ تاریخ اصل میں سیاسی واقعات کے بیان کا نام ہے۔ اگر کبھی تاریخ کی تاریخ لکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ پچھلے ستر اسی سال سے پہلے دو ہزار سال تک تاریخ کا مرکز سیاسی شخصیات اور سیاسی واقعات ہی رہے ہیں۔ لیکن بہرحال پچھلی چند دہائیوں میں جدید تاریخ کے تصور نے اس رشتے کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔

عصری تاریخ کا سرا اصل میں اب جدید تاریخ کے تصور سے جڑا ہوا ہے اور جدید تاریخ کا تصور محض سیاسی تاریخ تک محدود نہیں۔ اس میں انسان کی تمدنی، ثقافتی اور عوامی تاریخ کو اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب History of Civilization، Cultural History اور History from Below جیسی اصطلاحات استعمال ہونے لگی ہیں۔ مابعد جدید عہد میں تاریخ کا تصور شہنشاہوں کے شب و روز کی سازشوں اور ریاستوں کی سیاسی آویزشوں تک محدود نہیں رہا۔ اس لیے عصری تاریخ کے مؤرخین نے بھی اپنے عہد کی محض سیاسی ہی نہیں بلکہ تمدنی، ثقافتی اور عوامی تاریخ کو رقم کرنے پر زور دیا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ابھی تک ماضی اور حال دونوں کی تاریخ سیاسی واقعات سے باہر نہیں آ رہی۔

اب ذرا سا ذکر ہمارے ہاں کے ادبی محققین و مؤرخین کا، جن کا حال اوپر بیان کی گئی صورت حال سے بھی زیادہ پتلا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ادب اپنے عہد کی تاریخ رقم کر رہا ہوتا ہے اور یہ بات اردو ادب پر بھی صادق آتی ہے۔ لیکن ہمارا محقق (ہمارے کسی مؤرخ سے بھی بڑھ کر) اپنے محدود اور مسخ تصور تاریخ کی بنا پر ادب اور تاریخ؛ دونوں سے زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ چوں کہ وہ ”عصری تاریخ“ کے مذکورہ بالا تصورات اور تاریخ سے (یعنی ”عصری تاریخ“ کی تاریخ سے ) بالعموم واقف نہیں ہوتا لہٰذا ایک تو وہ سیاسی تاریخ کو ہی ”عصری تاریخ“ کے ذیل میں رکھتا ہے، دوسرا یہ کہ ادب یا ادیب کی سچائی کو اصل حقیقت سمجھنے کی غلطی کرتا ہے۔ وہ اپنا بنیادی تھیسز یہ بناتا ہے کہ مؤرخ اپنے عہد کی جن سچائیوں کو مصلحتاً یا جبراً یا دیگر مجبوریوں کی بنا پر بیان کرنے سے گریز کرتا ہے یا قاصر رہتا ہے، ادیب انھیں اپنے متن میں رقم کر دیتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز کا، جو سچائی پر مبنی ہوتی ہے، پابند ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے عہد کا حقیقی سچ ادیب ہی لکھتا ہے۔ ادب یا ادیب کی سچائی کی اہمیت اپنی جگہ مگر اسے معروضی سطح پر حقیقی سچ جاننا بہت بڑا فکری مغالطہ ہے کیوں کہ ادیب اور ادیب کا ضمیر بھی بہرحال اپنے سماج کی قدری، تاریخی اور ثقافتی تشکیل ہی ہوتا ہے۔ اس کا سچ مصلحت سے پاک ہو سکتا ہے، جبر کے آگے جھکنے اور دبنے سے انکار کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اپنے فکری تعصبات اور نقطۂ نظر سے عاری نہیں ہو سکتا۔ ادب یا ادیب کی نیت نیک ہو سکتی ہے مگر اس کا زاویہ نظر اپنے زمان و مکان سے پاک نہیں ہو سکتا۔

علاوہ ازیں ہمارے ادبی محققین اور ناقدین نے ”تاریخی ادب“ (یعنی ماضی کے واقعات پر مبنی ادب) تخلیق کرنے والے تخلیق کاروں اور ان کے متون میں عصری اثرات کا جائزہ لینے کی بھی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ حالاں کہ تاریخی ادب بھی بلاشبہ عصری نقطۂ نظر اور عصری ضروریات اور تعصبات کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے۔ وہ جس زمان اور مکان میں تخلیق ہوتا ہے، اس کی روح ماضی میں جا کر بڑی آسانی سے حقیقتوں کی شکل اپنے مطابق ڈھال کر لے آتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments