فنون لطیفہ اور مذہبی رویے


اس سے بڑا لطیفہ کیا ہو گا کہ ارطغرل اور حلیمہ کے ”شرعی معانقے“ ، بانو کے عاشق سپاہی کے ساتھ بسر کی گئی ”شرعی رات“ ، حلیمہ کے ہاں بچے کی پیدائش کے ”شرعی“ مناظر دیکھنے والے مذہبی لوگ آج ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کو فروغ دینے اور ٹیکس چھوٹ دینے پر سیخ پا ہو رہے ہیں۔ بڑے وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس ”اسلامی ڈرامے“ کو علما اور مدارس کے طلبا نے بھرپور دیکھا ہے جو کہ ڈرامہ انڈسٹری اور فلم انڈسٹری نے بنایا جو پاکستان میں سابق حکمران خان صاحب نے باقاعدہ سرکاری ٹی وی پر نشر کروایا اور خاصا مقبول رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کسی شیخ الاسلام یا کسی مبلغ اعظم یا مذہبی کارکن نے اعتراض کیا تھا؟ کیا اس وقت ان کو اس کے نشر کرنے کی لاگت یاد آئی؟ کیا اردو ترجمہ کرنے والوں کو حکومت نے پیسے نہیں دیے؟

جیسے ضیاء الحق کو ”امیر المومینین“ بنا کر اس کے ہر کیے جانے والے اقدام قتل کو پروموٹ کیا اسی طرح گزشتہ حکمران کے ہر اس ”اسلامی اقدام“ کی حمایت کرتے آئے ہیں جو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اٹھایا گیا۔ پوشیدہ سیاسی ”ظاہرا غیر سیاسی نظر آنے والے علما کو اس معاملے میں اب معیشت اور سود کے بھاشن یاد آ رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو محفوظ رکھ کر غریب مذہبی طلبا کو غیروں کی جنگ میں جھونکنے والے کب کسی امن کی طرف اٹھنے والے قدم کی حمایت کر سکتے ہیں۔

اب چونکہ جمعیت علماء اسلام اس حکومت کے اتحاد کا حصہ ہے تو ان کے خلاف اس بنیاد پر کی جانے والی ٹرولنگ جو کہ اپوزیشن جماعت کے ٹرولرز کی جانب سے کی جا رہی ہے میں مذہبی کارکن سیاسی کجی کے باعث حصہ لے رہے ہیں۔ ان سے سوال ہے کہ مذکورہ انڈسٹری سے جن لوگوں کا معاش وابستہ ہے ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دینے سے کیا وہ انسانی بحران کا شکار نہیں ہوں گے؟ کیا قدیم زمانہ اسلام میں فزیکلی ڈرامے یا موسیقی کی محافل منعقد نہیں ہوتی تھیں جو اب آپ کو یہ ایمان کے خطرے کا باعث نظر آتے ہیں۔ آپ اپنے کمزور ایمان پر محنت کیوں نہیں کرتے؟

اس سماج میں فنون لطیفہ کا فروغ انتہائی ضروری ہے جہاں کے ستر سالہ مذہبی بیانیوں نے عوام کو شدت پسندی، بد امنی اور فکری انتشار کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سالہا سال خاص ماحول میں الجھے رہنے والے مذہبی رہنماؤں اور طلبا یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ایمان ایک گٹار کی آواز سے یا ڈرامے میں ایک معانقہ دیکھنے سے بھٹک جائے گا تو پھر اپنی کمزوری پر توجہ دیں، سماج کو سکھ کا سانس لینے دیں، اس کو فطرت سے آشنا ہونے دیں، انسان کو انسانی دنیا میں رہنے دیں۔ آپ سماج کا جائزہ لے لیں کہ کیا ملک میں انارکی پھیلانے والوں میں سب سے بڑا ہاتھ مذہبی لوگوں کا ہے یا فنکاری کی دنیا سے تعلق رکھنے والے فطرت پسندوں کا؟ جب آپ نے صرف اس سماج کو اسلام کے نام پر بدامنی سے تباہ کیا ہے ہے تو کیوں نہ فنکاروں پر پیسہ لگا کر اس سماج کو امن کی راہ دکھائی جائے۔

میرا طالب علمانہ مشاہدہ ہے کہ آج کے علما اور مذہبی کارکنوں کے رویے متشدد ہیں جبکہ بر صغیر کے جید علما اور مذہبی کارکن کے رویے قابل تقلید تھے جس کی وجہ بھی میں سمجھتا ہوں ان کا فنون لطیفہ سے لگاؤ تھا جو کہ اب ناپید ہو چکا ہے جس کی جگہ شدت پسندی نے لے لی ہے، معلوم نہیں یہ حالات کا جبر، متشدد تشریحات کا اثر یا اختیاری تقوی ہے۔ اسی مشاہدے کی میں آپ کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ مذہبی کارکن یا طالب علم یکسر مزاج اور طبیعت میں مختلف ہو گا، امن پسند ہو گا جو سماج کے ساتھ جڑا رہتا ہے اور فنون لطیفہ میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ میری علما سے گزارش ہے کہ کنفیوژڈ رویوں پر خود بھی نظر ثانی کریں اور شدت پسندی کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے فنون لطیفہ کی مثبت سرگرمیوں کے لیے سماج کی رہنمائی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments