مولانا طارق جمیل کو آمریت یا ڈکٹیٹر شپ کیوں پسند ہے؟
مشہور صحافی سید عمران شفقت جو ”ٹیلنگ“ کے نام سے اپنا یوٹیوب چینل چلاتے ہیں اور اسی پلیٹ فارم سے ”بیٹھک“ کے نام سے بھی ایک پروگرام کرتے ہیں جس میں مختلف صحافی موجودہ ملکی صورتحال پر بڑی عمیق اور بصیرت افروز گفتگو فرماتے ہیں، خاص طور پر استاد محترم وجاہت مسعود جو ”ہم سب“ ویب سائٹ کے مدیر اعلی کے علاوہ اپنا ایک منفرد علمی مقام رکھتے ہیں کی منجھی ہوئی گفتگو بیٹھک کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ گزشتہ دنوں عمران شفقت نے مشہور تبلیغی مبلغ مولانا طارق جمیل کا ایک منفرد انداز میں انٹرویو کیا، جس نے مولانا کی سیاسی بصیرت کا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا
ان کے واقعاتی طرز کلام اور حوروں کے متعلق چسکا بیانیوں سے تو آگاہ تھے مگر ان کا جینوئن آئی کیو لیول ایک بہتر انداز میں عوام کے سامنے واضح ہو گیا کہ کیسے مذہبی طبقہ کی ایلیٹ طاقت کے گٹھ جوڑ کو مستحکم بنا کر عوام کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور ان کی نظروں میں عوام ان پڑھ، بد تہذیب اور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر حسن نثار اور اعتزاز احسن کے ووٹ کی زیادہ وقعت اور اہمیت بنتی ہے، ان کا ووٹ اور جاہل اجڈ عوام کا ووٹ کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔
مولانا صاحب عوام کو بیوقوف اور اچھوت ڈکلیئر کرنے کا شکریہ مگر بصد احترام ان کو ہجوم میں تبدیل کرنے اور حکمرانوں کی ناکامیوں پر پردہ پوشی کر کے عوام کو اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور دنیاوی خوشیوں سے محرومی پر صبر و قناعت سے کام لینے اور آخرت میں سب کچھ مل جانے جیسے سہانے سپنوں کے خواب دکھا کر ان کا ذہنی و معاشی استحصال کرنے میں آپ کا کتنا کردار ہے؟ کیوں کہ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ مذہبی ایلیٹ آہستہ آہستہ حکمران طبقے کے قد کے برابر پہنچ چکی ہے اور پیچھے کھڑے ہوئے بقول آپ کے بیوقوف عوام جو آپ کی اقتداء میں نمازیں پڑھتے اور دعائیں مانگتے آرہے ہیں وہ پست سے پست اور آپ بالا سے بالا ہوتے جا رہے ہیں آخر یہ گورکھ دھندا کیا ہے؟
آپ کا جمہوریت کے بالمقابل صدارتی نظام کو ترجیح دینا اور ”ون مین اتھارٹی“ کو سپورٹ کرنا بے وقوف عوام کو بالکل سمجھ میں آتا ہے اور ڈکٹیٹرشپ آپ کو کیوں پسند ہے وہ اس لئے ہے کہ آمرانہ نظام حکومت میں جتنا مذہبی طبقہ کو نوازا گیا یا نوازا جاتا ہے شاید ہی کوئی دوسرا ہو، اور آمرانہ حکومتوں میں جتنا قدرت کا فضل و کرم اس طبقے پر من و سلویٰ کی طرح برسا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ آپ کو ڈیموکریسی اسی لیے زہر لگتی ہے کہ اس نظام میں عوام ڈائریکٹ ملوث ہو جاتے ہیں لیکن آپ تو عوام کو صرف اپنی تقاریر کا قیدی بنا کے رکھنا چاہتے ہیں، ان کی سننا نہیں بلکہ انہیں سنانے کے شوقین ہیں اور آپ خود کو دست بوسی جیسے حسین لطف سے محروم بالکل نہیں کرنا چاہتے اور شعور دشمنی کا سب سے بڑا ثبوت آپ کی آمریت پسندی ہے۔
آپ کا ذہن چونکہ ”منبر“ کی سلطنت کی صورت میں مانولاگ کا اسیر ہے اسی لئے صدارتی نظام پسند ہے اور جمہوریت چونکہ ڈائیلاگ اور برابری کی سطح پر ملوث ہونے کا نام ہے، برابری میں تو پھر بہت سی اناؤں کو پست ہونا پڑتا ہے جو آپ کو بالکل منظور نہیں ہے اور کمزور سے کمزور جمہوریت بھی عوام میں سیاسی شعور کو پنپنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور اگر 1947 سے آج تک اس سفر کو جاری رہنے دیا جاتا تو آج معاملات بالکل مختلف ہوتے۔
کیونکہ شعور ڈگریوں کا محتاج نہیں ہوتا اس کی ایک الگ ہی دنیا اور پروٹوکول ہوتا ہے۔ جس طرح عقل بادام کھانے سے نہیں بلکہ تجربات کی صورت میں رگڑے کھانے سے آتی ہے بالکل اسی طرح جمہوریت کا جوہر یا پھل عوام میں آہستہ آہستہ منتقل ہوتا ہے کیونکہ شعور کلک بٹن جیسی چیز نہیں ہوتی جسے دبا کر فوری نتائج حاصل کر لئے جائیں بلکہ یہ ایک مسلسل آرگینک عمل کا نام ہے۔ آج سوشل میڈیا اور سمارٹ فون کی وجہ سے ہر طبقہ فکر کا ٹریک ریکارڈ مختلف ویڈیوز کے ذریعے سے ریڑھی چلانے والے مزدور تک منتقل ہو رہا ہے اور غریب کی کامن سینس یا اسٹریٹ وزڈم ڈگریوں والوں یا طارق جمیل کے مطابق ”حسن نثار اور اعتزاز احسن کا ووٹ ان پڑھ عوام کے برابر کبھی نہیں ہو سکتا“ سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہنے دیجئے کہ قبیلہ حسن نثار یا اعتزاز احسن سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے، بس المیہ یہ ہے کہ ان کے بچوں کے بھوک سے بلکتے چہرے اور دو وقت کی روٹی پوری کرنے کا جھنجھٹ ان کی کامن سینس یا قوت فیصلہ کو چھین لیتا ہے یا ماؤف کر دیتا ہے۔
اگر اس ان پڑھ یا اجڈ عوام کی حقیقی طاقت کا معجزہ دیکھنے کی تمنا دل میں ہے تو انہیں فکر معاش سے آزادی اور ان کے بچوں کو وہ تمام تعلیمی مواقعوں سے نوازیں جن مواقعوں سے بھرپور فائدہ قبیلہ حسن، اعتراض یا طارق جمیل اٹھاتے ہیں تو پھر اس غربت میں پسی عوام کا ابھرنا دیکھنا۔ کیونکہ بھوک کا سامنے سے مقابلہ کرنے والوں اور بلند و بالا محلات کی کھڑکیوں سے بھوک کا سرسری جائزہ لے کر دانشوری بگھارنے والوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا صاحب کا موقف تھا کہ اتھارٹی ایک بندے کو جچتی ہے اور بہتر نظام حکومت چلانے کے لیے مشورہ اہل علم، اہل فضل یا اہل دانش کے درمیان ہونا چاہیے۔ مولانا کی بات سے اتفاق ہے مگر کون سی چھلنی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کون اہل علم، اہل فضل یا اہل دانش ہے؟ آج تک کی ملکی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ تین ڈگریوں کا اہل بھی آپ کے قبیلے کو ہی گردانا جائے گا۔ چونکہ آپ اہل علم ہیں اسی لیے ہر محفل کا اسپیکر آپ کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے، آپ اہل دانش ہیں اسی لیے تو آپ حکومتی راہداریوں کے مکین تصور کیے جاتے ہیں اور ہر حکمران اپنے فیصلوں پر آپ سے ٹھپا لگوانا پسند کرتا ہے آپ کی اسی قابلیت کا فائدہ ریاست مدینہ کے دعویداروں نے بھی خوب اٹھایا اور آپ اہل فضل بھی خوب ہیں، جاگیرداری میں یکتا ہونے کے اعزاز کے علاوہ ایم ٹی جے برانڈ جیسے بزنس ارینا میں بھی کوئی آپ کے ہم پلہ نہیں ہے۔
آخر میں عمران شفقت نے مولانا سے ایک بہت اہم سوال پوچھا کہ تبلیغی جماعت لوگوں کی اصلاح کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے مگر آخر کیا وجہ ہے کہ آپ لوگوں کے رویے یا معاشرے میں کوئی بڑی سطح کا بدلاؤ لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے؟ مولانا نے انتہائی میسنے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری بھی عوام کے کھاتے میں ڈال دی اور موقف اختیار کیا کہ ہم ان سے بمشکل چار مہینے لینے میں کامیاب ہوتے ہیں مگر یہ چار مہینے ایک اچھا انسان بننے کی محنت کے لیے بہت کم ہیں۔
واہ مولانا کیا جواب دیا ہے مگر ذرا سوچیں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوری بعد قرارداد مقاصد کے منظور ہونے کے بعد سے آج تک آپ اپنے میدان کے بلامقابلہ شہنشاہ ہیں۔ مساجد، مدارس، آستانے، اسمبلیاں اور طاقت کی تمام راہداریوں کے اکیلے مالک ہونے کے باوجود بھی آپ کو عوام سے ٹائم کا گلہ ہے تو پھر یہ بات ہضم نہیں ہوتی ہے۔ کتنے گولڈن چانس اور لیول گراؤنڈ ملنے کے بعد بھی آپ معاشرے کی اخلاقی سطح بلند نہیں کر پائے تو پھر قیامت تک کا ٹائم بھی تو آپ کا ہی ہے، لگے رہیں اپنے حساب سے معاشرے کو سدھارنے میں۔ ایک بات تو بالکل واضح ہے جتنا ٹائم معاشرے میں سدھار لانے کے لیے آپ کو ملا ہے کاش اگر یہی ٹائم جمہوریت کو بغیر کسی مداخلت کے نصیب ہو جاتا تو اس دھرتی پر آپ جمہوریت کے معجزے دیکھتے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).