میرے سر پر ہاتھ رکھیں


سکول کے دنوں میں ایک افسانہ پڑھا تھا۔ جو شاید سندھی ادب سے اردو میں ترجمہ تھا۔ لمبا عرصہ گزر گیا اس لیے افسانے اور لکھاری کا نام بھول گیا ہوں۔ لیکن اس افسانے کا پلاٹ ابھی تک یاد ہے۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک چھوٹا بچہ جس کی عمر کوئی سات سال کے قریب ہے اپنے نابینا دادا کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ بچہ اور دادا صبح اٹھ کر بھیک مانگنے کے لئے نکلتے ہیں۔ راستے میں دادا بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر چلتا رہتا ہے۔

راستے میں اگر کوئی رکاوٹ وغیرہ ہو تو بچہ دادا کو بتاتا ہے اور یوں دن گزرتا ہے۔ شام کو بھیک میں ملے پیسوں سے کھانا کھا کر گھر آ جاتے ہیں۔ اور اگلے دن پھر وہی روز کی طرح دادا جی بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر گلی گلی گھومنے نکلتے ہیں۔ ایک دن اچانک دادا انتقال کر جاتا ہے۔ محلے والے جمع ہو جاتے ہیں۔ میت کی تدفین کرتے ہیں۔ اور بجے کو کھانا کھلاتے ہیں۔ روز یہی ہوتا ہے کہ محلے کے کسی نہ کسی گھر سے بچے کے لئے کھانا آتا ہے۔

اور وہ بے فکری سے کھا لیتا ہے۔ کچھ دن اس طرح گزر جاتے ہیں کہ اچانک بچے کو بے چینی ہونے لگتی ہے۔ اور پھر ایک دن وہ گھر سے نکل کر ان راستوں پر چلنے لگتا ہے جہاں دادا کے ساتھ بھیک مانگنے جاتا۔ جوں جوں آگے بڑھتا ہے اس کی بے چینی مزید بڑھتی ہے۔ اتنے میں ایک نیک بندے کی اس پر نظر پڑتی ہے۔ وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک سکہ اس کی ہاتھ پر رکھتا ہے۔ لیکن بچہ پیسے لینے سے انکار کرتا ہے وہ شخص اس سے پوچھتا کہ کیا مسئلہ ہے۔ پیسے کیوں نہیں لے رہے ہو۔ اور جواب میں بچہ کہتا ہے کہ پیسے نہیں چاہیے بس میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دور دور تک چلئے۔

اپنے ملک کے سیاستدانوں کو دیکھ کر یہ بھولی بسری کہانی یاد آئی۔ سب کو اپنے سر پر مائی باپ کا ہاتھ چاہیے۔ سب سے پہلے نمبر پر اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ سر پر ہو تو کام چلتا ہے۔ کچھ ہو یا نہ ہو۔ کچھ کریں یا نہ کریں لیکن اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ سر پر ہو تو سب ٹھیک ہے۔ اس کے بعد کچھ اور ادارے بشمول عدلیہ کا ہاتھ بھی سر پر ہونا ضروری ہے جہاں سے بوقت ضرورت صادق اور امین کا سند ملے۔ یہاں سے ذرا فارغ ہوں تو پھر بین الاقوام سے ایک دادا لازمی ہے جو ہمارے سر پر ہاتھ رکھیں۔

سب سے پہلے نمبر پر امریکہ بہادر کا ہاتھ سر پر ہو تو وارے نیارے۔ پھر بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا ہاتھ سر پر ہونا ضروری ہے۔ تا کہ جیب خرچے کی فکر نہ ہو اور زندگی عیاشی سے گزرے۔ پڑوسی چین کا ہاتھ بھی سر پر ہونا چاہیے۔ کیونکہ چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند جو ہے۔ سعودی عرب تو برادر مسلمان ملک ہے اس لیے اس کا ہاتھ سر پر ہونے سے بھی کافی ریلیف ملتا ہے۔ ان سے فارغ ہوں تو ملک کے اندر پیر فقیروں اور معمر سیاستدانوں کی ایک ایسی کھیپ موجود ہے جن کا ہاتھ بھی سر پر ہونا لازمی ہے۔ ان سب ہاتھوں میں کسی کا بھی کوئی سکریو ڈھیلا ہو جائے یا گرفت کمزور پڑ جائے تو گرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

یہ ہاتھ ہمارے سیاستدانوں کے لئے اتنے ضروری ہیں جتنا کہ سانس لینے کے لئے آکسیجن۔ حال ہی میں سابقہ وزیر اعظم کے سر سے جب ہاتھ ہٹا تو انہوں نے اتنی اودھم مچائی کہ الاماں۔ بیچارہ آج تک اس چکر میں ہے کہ کسی طرح یہ ہاتھ اس کے سر پر دوبارہ آ جائے۔ کبھی نیوٹرل کو جانور سے تشبیہ دیتا ہے اور اگلے دن اسی نیوٹرل سے پھر ہاتھ سر پر رکھنے کی منتیں کرتا ہے۔ کبھی جلاؤ گھیراؤ کی دھمکیاں دیتا ہے تو کبھی ”خطرے ناک“ ہونے کی دھمکیاں۔ کبھی اسلام آباد پر چڑھائی، کبھی اسمبلیوں سے استعفوں کی بات۔ غرض کوئی بھی ٹوٹکا ہو سب آزما لئے کہ سر پر ہاتھ دوبارہ آ جائے۔ 9 اپریل سے لے کر تادم تحریر کوئی مضبوط ہاتھ سر پر نہیں آیا۔

ہاں بوقت ضرورت کبھی کبھار کچھ وقت کے لئے ایک آدھ ہاتھ سر پر آ جاتا ہے لیکن وہ بھی وقتی ہوتا ہے۔ جیسے وہی ہاتھ سر سے اٹھ جاتا ہے خان صاحب پر خلجان طاری ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے اثرات تب زیادہ ہو جاتے ہیں جب خان صاحب کو نظر آتا ہے کہ جو ہاتھ میرے سر پر ہونا تھا وہ تو موجودہ حکومت کے سر پر ہے۔

حکومت بھی بڑی گھاگ ہے۔ ٹیکس عوام پر لگاتی ہے لیکن بجٹ بابے کا بڑھا کر ہاتھ سر پر مضبوطی سے رکھنے کی کوشش میں ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کی اس ہاتھ کو سر پر رکھنے کی لڑائی میں جو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے وہ عوام کا ہے۔ حکومت کے سر پر ہاتھ ہے تو وہ خوش ہے اپوزیشن کے سر پر بھی تھوڑا بہت ہاتھ ہے اس لیے وہ بھی اتنا بے سکون نہیں۔ اصل میں نقصان ملک کا اور 22 کروڑ عوام کا ہو رہا ہے۔ ابھی تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں کسی نے بھی عوام کا ہاتھ سر پر رکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ اس ہاتھ کو دھتکارتی رہیں۔ جس کا نتیجہ ملکی معیشت کی بربادی اور اداروں کی تباہی کی صورت میں آیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments