گلیمر کی دنیا کا سچ: ٹالی وڈ اداکاراؤں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی حقیقت کیا ہے؟


’اداکارہ پلّوی ڈے کی موت کے بعد میں اپنی بیٹی کے بارے میں خوفزدہ رہنے لگا تھا، وہ بھی پلّوی کی طرح اکیلی رہتی تھی، ایسے میں خدشہ تھا کہ کہیں وہ کوئی غلط فیصلہ نہ کر لے۔‘

کولکتہ کی ابھرتی ہوئی ماڈل ودیشا ڈے مجمدار کے والد وشواجیت ڈے مجمدار کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ان کی بیٹی بھی جدوجہد سے خوفزدہ ہو کر فرار کا راستہ اختیار کرے گی۔

وہ بتاتے ہیں کہ پلّوی کی موت کی خبر سن کر ودیشا کی ماں بہت پریشان ہوئی اور انھوں نے اپنا خوف ودیشا سے بھی ظاہر کیا۔

لیکن اس وقت ودیشا نے کہا تھا ’ارے! پلوی نے حماقت کی ہے۔ میں بہت مضبوط لڑکی ہوں۔ آپ کو بالکل فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں ایسا نہیں کروں گی۔‘

لیکن ایسا کنے والی لڑکی نے محض دس دنوں بعد ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ ٹھیک دو دن بعد ودیشا کی دوست اور ایک اور ماڈل منجوشا نییوگی نے بھی اسی طرح اپنی جان دے دی۔

منجوشا کی ماں کا کہنا ہے کہ ’ودیشا کی موت کے بعد سے میری بیٹی شدید ذہنی دباؤ میں تھی اور بار بار اسی کا ذکر کر رہی تھی۔‘

مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ میں مئی کے آخری دو ہفتوں کے دوران چھوٹے پردے کی تین اداکاراؤں اور ایک ماڈل کی ہلاکت نے ٹالی وڈ کے نام سے مشہور بنگالی فلم انڈسٹری میں تشویش کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔

فلمی دنیا کا گلیمر

ان میں سے زیادہ تر معاملات کو فلمی دنیا کی چکاچوند تلے موجود اندھیرے اور جدوجہد میں ناکامی سے جوڑا جا رہا ہے۔ تاہم بعض صورتوں میں ناکام محبت کو بھی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

لیکن ان چاروں کی موت کی اصل وجہ ذہنی ڈپریشن ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اب اکثر لوگ ان واقعات پر کھل کر بات نہیں کرنا چاہتے۔

خودکشی ایک سنگین نفسیاتی اور سماجی مسئلہ ہے۔ اگر آپ بھی تناؤ سے گزر رہے ہیں تو آپ کو اپنے ملک میں موجود ہیلپ لائن سے رابطہ کرنا چاہیے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی بات کرنی چاہیے۔

ان واقعات نے فلموں کی راتوں رات کامیاب ہونے کی جدوجہد، اور راہ فرار اختیار کرنے کے لمیہ کو منظر عام پر لایا ہے۔ پندرہ دنوں میں ہونے والی ان چار اموات نے بنگالی فلموں اور سیریئلز کی دنیا کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔

ویسے تو عام خیال یہ ہے کہ تمام لڑکیاں بیرونی چمک دمک سے متاثر ہو کر اس کی طرف راغب ہوتی ہیں۔ لیکن اندر کی کالکھ اور کیچڑ دیکھ کر ان کے خواب جلد ہی چکنا چور ہو جاتے ہیں۔

فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کے علاوہ ماہرین نفسیات نے بھی ان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس سے سبق لیتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ مستقبل میں اس کے دوبارہ ہونے کو روکا جا سکے۔

ایک اندازے کے مطابق بنگال میں چھوٹے پردے کے سیریئلز پر ہر سال ایک سو کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن کورونا کے دور میں طویل عرصے سے شوٹنگ بند ہونے کی وجہ سے اس صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور روزگار کے مواقع بھی کم ہوگئے ہیں۔

پہلے بھی اموات ہو چکی ہیں

ویسے بنگالی فلم انڈسٹری میں بالخصوص نوجوان اداکاراؤں کی پراسرار موت کا سلسلہ بہت طویل ہے۔ سنہ 1985 میں معروف اداکارہ مہوا رائے چودھری پراسرار حالات میں جل کر ہلاک ہو گئیں۔

سنہ 2015 میں ابھرتی ہوئی اداکارہ دیشا گنگولی کی لاش بھی ان کے فلیٹ کا دروازہ توڑ کر برآمد کی گئی تھی۔ سنہ 2016 میں اداکارہ پوجا آئچ کی بھی پراسرار حالات میں موت ہوگئی۔ سنہ 2017 میں اداکارہ بیتستا ساہا کی اپنے فلیٹ میں موت ہوگئی۔

سنہ 2018 میں اداکارہ پائل چکرورتی کی سلی گڑی کے ایک ہوٹل کے کمرے میں موت واقع ہو گئی۔ اسی طرح سنہ 2020 میں اداکارہ آریہ بنرجی کی لاش ان کے فلیٹ کا دروازہ توڑ کر برآمد ہوئی تھی۔

‘لو، سیکس اور دھوکا’ اور ‘دی ڈرٹی پکچر’ کے علاوہ آریہ نے کئی دوسری فلموں میں کام کیا تھا۔ ان اداکاراؤں کی پراسرار حالات میں موت کے بعد فلم انڈسٹری میں کچھ دنوں تک اسی طرح ہلچل مچی ہوئی تھی جیسے کھڑے پانی میں پتھر پھینک دیا گیا ہو۔ لیکن بعد میں سب کچھ معمول نظر آنے لگا۔

تازہ اور حالیہ واقعات

سب سے پہلے چھوٹے پردے کی ابھرتی ہوئی اداکارہ پلّوی ڈے نے اپنے گھر میں گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ ان کی لاش گذشتہ 15 مئی کو برآمد ہوئی تھی۔ تب وہ اپنے ساتھی ساگنک چکرورتی کے ساتھ رہ رہی تھیں۔

لیکن لاش برآمد ہونے کے بعد اہل خانہ نے قتل کا الزام لگایا۔ پلّوی کے والد کی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے دو دن بعد ساگنک کو گرفتار کر لیا۔

فی الحال، پلّوی چھوٹے پردے کے بنگالی سیریئل من مانے نا (دل نہیں مانتا) میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں۔ انھوں نے ‘آمی سراجے بیگم (میں سراج کی بیگم ہوں)، ‘ریشما جاپی’، ‘کنجو چھایا’ اور ‘سرسوتی پریم’ جیسے سیریلز میں بھی اہم کردار ادا کیے تھے۔

ایک اور اداکارہ ودیشا ڈے مجمدار نے پلّوی کی موت پر صدمے کا اظہار کیا اور اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا: ‘یہ کیا ہے؟ میں یقین نہیں کر سکتی۔’

لیکن دس دن بعد یعنی 25 مئی کو ودیشا نے بھی خودکشی کر لی۔ ان کی لاش کولکتہ کے دم دم علاقے میں واقع ایک فلیٹ سے برآمد ہوئی۔

اس کے بعد 27 مئی کو ودیشا کی قریبی دوست منجوشا نییوگی نے بھی اسی طرح خودکشی کرلی۔ منجوشا بنگالی سیریل ‘کانچی’ میں کام کر رہی تھیں۔

اس کے بعد سرسوتی داس نامی ایک ابھرتی ہوئی ماڈل کی بھی اسی طرح موت ہوگئی۔ انھوں نے رواں سال دسویں کا امتحان دیا تھا اور ماڈلنگ کی دنیا میں بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

سدھو موسے والا: مقدمات، تنازعات سے بھرپور زندگی جس نے گاؤں کے نوجوان کو سپرسٹار بنا دیا

انڈیا کی وہ اداکارہ جنھوں نے مذہبی منافرت اور گولیوں کا مقابلہ کیا

بالی وڈ اداکار سنجے دت: ’جیل میں کمائے پیسے سنبھال کر بیوی کو دے دیے‘

کلکتہ پولیس کا کیا موقف ہے؟

کلکتہ پولیس کا کہنا ہے کہ سرسوتی محبت میں ناکامی کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار تھیں۔

کلکتہ کے ایک پولیس افسر کے مطابق ’منجوشا بہت جلد انڈسٹری میں اپنا نام بنانا چاہتی تھیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور شاید اسی وجہ سے ان کو ڈپریشن ہوا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ منجوشا نے اپنے شوہر اور خاندان سے بھی بات کی اور ان کو ڈپریشن کے بارے میں بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ منجوشا پہلے بھی ایک بار خودکشی کی کوشش کر چکی تھیں لیکن ان کو بچا لیا گیا تھا۔

بنگالی انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں یکے بعد دیگرے خودکشی کے واقعات نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ یہ تمام اداکارائیں اس دنیا کی چمک دمک کی وجہ سے اس کی جانب کھنچی چلی آئیں لیکن ان کے خواب بہت جلد ٹوٹ گئے۔

بنگالی اداکارہ اندرانی کہتی ہیں کہ ’فلم انڈسٹری میں شروع شروع کا وقت کافی بےرحمانہ ہوتا ہے۔ بہت لمبے عرصے تک کام نہیں ملتا اور یہ وقت کافی مشکل ہوتا ہے۔ میں بھی اس سے گزری ہوں لیکن میرے ذہن میں کبھی بھی خود کشی کا خیال نہیں آیا۔‘

سپریو، جو سیریل پروڈکشن سے جڑی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’بعض لوگ جو انڈسٹری کی چمک دمک سے متاثر ہو کر اس میں داخل ہوتے ہیں ان کے لیے نام اور پیسہ کبھی کبھار ایک مشکل بن جاتا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران کام کی کمی تھی کیوں کہ نئی فلمیں اور سیریل نہیں بن رہے تھے اور ایسے میں بہت سے لوگ خصوصا نوجوان مایوس اور عدم تحفظ کا شکار ہو گئے تھے۔‘

ڈپریشن

کیا بنگالی فلم اور ٹیلی ویژن انڈسٹری میں ڈپریشن کا مسئلہ واقعی سنگین ہوتا جا رہا ہے؟ پلوی کے پارٹنر ساگنک نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ اس بات سے پریشان تھیں کہ جس سیریل میں وہ کام کر رہی تھیں وہ جلد ختم ہونے والا ہے اور ان کے پاس کوئی اور کام نہیں تھا۔

ساگنک کے اس دعوے کی تصدیق کرنے کے لیے پولیس نے پلوی کے ساتھی اداکاروں سے بھی پوچھ گچھ کی۔ انھوں نے بھی پولیس کو یہی بتایا تھا کہ پلوی کام ختم ہونے کی وجہ سے بہت پریشان تھیں اور کام کی تلاش میں رہتی تھیں۔ وہ اکثر ساتھی اداکاروں سے پوچھتی رہتی تھیں کہ ان کو آگے کام کیسے ملے گا۔

شوبھانگی (فرضی نام) ایک ماڈل ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’انڈسٹری میں ہنرمند لوگوں کے لیے کام کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن کام ہمیشہ ٹیلنٹ کی بنیاد پر نہیں ملتا۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں کو جان پہچان کی وجہ سے زیادہ کام مل جاتا ہے لیکن ایسے میں جس کی جان پہچان کم ہوتی ہے، اسے کام بھی کم ملتا ہے۔ نتیجتاً وہ آہستہ آہستہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔‘

چھوٹے پردے کی اداکارہ دیا مکھرجی کا کہنا ہے کہ ’کچھ واقعات سے پوری انڈسٹری کو ڈپریشن کا مریض قرار دینا درست نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے تو روزگار سے جڑے کسی بھی شعبے میں ڈپریشن ہو سکتا ہے اور فلموں میں کام کرنے والے بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔‘

ماہر نفسیات ڈاکٹر رینا گھوش کہتی ہیں کہ ’کام کا دباؤ، کام کے اوقات مقرر نہ ہونا، اعلیٰ عزائم اور اکثر کسی کی طرف سے تعاون نہ ملنا بھی ذہنی ڈپریشن کا سبب بنتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ ہار مان لیتے ہیں۔ لڑکیاں اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اس پیشے کا انتخاب کرتی ہیں لیکن جب کامیابی نہیں ملتی تو یہ سوچ کر ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں کہ وہ گھر والوں کا سامنا کیسے کریں گی۔‘

ماہر نفسیات انوروپا بنیرجی کا کہنا ہے کہ ’عام طور پر لوگ ایسے واقعات کو بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ لیکن ان کی تہہ تک جا کر ڈپریشن کی وجوہات تلاش کی جانی چاہئیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔‘

بنگالی فلم اور ٹیلی ویژن انڈسٹری سے ایک طویل عرصے سے وابستہ رہنے والے ایک پروڈیوسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کل کے لوگ، خاص طور پر اس شعبے میں نئے آنے والے، شارٹ کٹ کے ذریعے کامیابی کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔‘

’وہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ کامیابی کے لیے محنت اور طویل جدوجہد ضروری ہے۔ نئے اداکار اور اداکارائیں راتوں رات مشہور ہونے کا خواب لے کر اس انڈسٹری میں داخل ہوتے ہیں لیکن جب ان کو یہاں ایک تلخ حقیقت کا سامنا ہوتا ہے اور وہ خواب چکنا چور ہونے لگتے ہیں تو کچھ لوگ ہار مان لیتے ہیں اور ایسے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اب دسویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ بھی سیریلز میں کام کرنے آتے ہیں۔ چند سیریلز میں کام کرنے کے بعد اچانک ملنے والی رقم سے ان کا طرز زندگی تو بدل جاتا ہے لیکن بعد میں جب ان کو کام نہیں ملتا تو وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘

ڈپریشن کے مریضوں کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے کنوینر دھیرن کمار داس کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی شخص اچانک خودکشی نہیں کرتا۔ چند دن پہلے سے ہی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اگر ایسے لوگوں پر نظر رکھی جائے تو بہت سی جانیں ضائع ہونے سے بچائی جا سکتی ہیں۔‘

ان کا مشورہ ہے کہ ایسے لوگ جن کو ڈپریشن کا سامنا ہو، ان کو خودکشی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے متعلقہ ماہرین سے مشورہ لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments