علم کا روشن ستارہ مفتی محمد نعیم کی دینی خدمات


سندھ وہ دھرتی ہے جس نے بہت بڑے والی اللہ، عالم، شیوخ، ہیروز، پیر، سپوتوں کو جنم دیا ہے جن کی خدمات سے دھرتی آج بھی اپنے سپوتوں پر ناز کرتی ہے۔ ایسی شخصیات جنہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین اسلام کی تبلیغ، خلق خدمت اور فقیری میں وقف کردی۔ مفتی محمد نعیم رح کی شخصیت بھی ان میں شامل ہے جنہوں نے اپنی زندگی کی شمع روشن کی، اپنے حصہ کا چراغ جلایا، جس سے پاکستان اور دنیا علم کے نور سے منور ہو رہی ہے۔ عالم انبیاء کرام کے وارث ہیں، حدیث میں آتا ہے کہ ایک عالم کی موت پوری عالم کے موت کے برابر ہے۔

ممتاز عالم دین، عالم، محدث، شیخ الحدیث، مصنف کالم نگار، ہزاروں علماء کرام، حفاظ کرام مفتیان عظام کا استاد، قرآن حکیم کا قاری، قال قال اللہ قال قال رسول اللہ کا سبق پڑھانے والے مفتی محمد نعیم رح مہتمم جامعہ بنوریہ العالیہ سائٹ کراچی کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے۔ آپ کی جدائی آپ کے گھر والوں لواحقین کے لئے صدمہ اور نقصان تو ہوا ہی مگر اہل علم، علماء کرام سندھ صوبہ با الخصوص پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے جس کا خال ابھی تک پر نہی ہو سکا ہے۔

ایک عالم کے موت سے ایسے لگتا ہے جیسے ہم کسی شخص کو نہی علم کو دفن کر رہے ہیں۔ آپ کتنے عالم محب وطن، امن پسند اور دین سے محبت کرنے والے استاد، والد، عالم تھے، آپ کی تصانیف، تحاریر، کالمز، کتابیں اور قرآن مجید کا تفسیر اس کا ثبوت ہیں۔ آپ جید عالم باعلم، علم، حلم، امن کے پیکر تھے۔ آپ عاجزی و انکساری کے پیکر، سادہ مزاج، شریف النفس، خوش اخلاق اور نیک سیرت اور نیک صورت تھے۔ مضبوط ایمان کے حامل عالم دین ہونے کی حیثیت سے آپ نے اپنی ساری زندگی وقف کردی۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی میں اپنے لسانیت، عصبیت، تعصب، قومیت، فرقہ پرستی، جہالت جیسی لعنت کو ابھرنے نہیں دیا، بلکہ بند باندھ کر کھڑے رہے۔ بلا تفریق رنگ نسل قومیت کے کام کیا، آپ کا اخلاق کردار، عمل، گفتار، خدمات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مفتی محمد نعیم رح کا خاندان بھی امام عبید اللہ سندھی کی طرح تھا۔ دونوں میں بہت ساری یکسانیت ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی کا تعلق سکھ خاندان سے تھا بعد میں شاگردی کے زمانے میں سندھ آ کر مسلمان ہوئے۔

برصغیر کے چوٹی کے عالم اور تحریک آزادی کے پروانے بنے۔ جبکہ مفتی محمد نعیم رح کے دادا پارسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو سن 1934 ع میں بھارت کے شہر گجرات کے نواحی علاقے سورت میں پارسی مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔ اس وقت مفتی صاحب کے والد عبدالحلیم رح کی عمر چار سال کے قریب تھی۔ یہ خاندان تقسیم ہند سے پہلے بھارت چھوڑ کر سندھ ہجرت کر کے آ گئے اور کراچی میں مستقل رہائش اختیار کی گئی۔ مفتی محمد نعیم نے سن 1958 ع میں کراچی میں قاری عبدالحلیم کے گھر میں آنکھ کھولی، مفتی محمد نعیم کے دادا کا تعلق ہندستان کے شہر گجرات کے علاقے سورت سے تھا۔

جس وقت آپ کے آباؤ اجداد نے اسلام قبول کیا 1934 کا سن تھا۔ مفتی صاحب نے ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی اور مزید دینی تعلیم کے لئے کراچی کی بہت بڑی دینی درسگاہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن سے حاصل کی۔ سن 1979 ع میں جس وقت مفتی صاحب نے جامعہ بنوری ٹاؤن سے تعلیم مکمل کی اور اسی جامعہ میں مدرس کے طور پر خدمات شروع کی، اس سال آپ کے والد قاری عبدالحلیم نے کراچی کے علاقے سائیٹ ایریا میں جامعہ بنوریہ کے نام سے دینی ادارے کی بنیاد رکھی۔

1980 ع میں مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔ مفتی محمد نعیم نے 16 سال جامعہ بنوری ٹاؤن میں مدرس کے طور پر خدمات سرانجام دی بعد میں اپنے والد کے قائم کردہ مدرسے جامعہ بنوریہ میں زمہ داری سنبھالی، مفتی محمد نعیم نے والد کے انتقال کے بعد جامعہ بنوریہ کو عالمی سطح کا ادارہ یونیورسٹی کے طور پر بنایا۔ میں سن 2005 ع میں جامعہ بنوریہ میں جایا کرتا تھا میرے بھائی مفتی محمد طاہر گھانگھرو بھی اسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں۔

جامعہ میں علماء کرام اساتذہ اور طلبہ سے ملاقاتیں ہوتی تھی۔ جامعہ میں غیر ملکی طلبہ کی رہائش اور دیگر سہولیات کے ساتھ کھانا پینا دیکھ کر لگتا تھا کہ مفتی صاحب شاگردوں کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ خیال رکھتے ہیں اور مہمان نوازی کا پورا پورا حق ادا کر رہے ہیں۔ جبکہ ملکی شاگردوں کے لئے رہائش سمیت دیگر سہولیات کسی یونیورسٹی سے زیادہ ہوتی تھی، جامعہ میں جہاں بوائز کے لئے تعلیم کا بندوبست ہے وہی پر الگ بلاک میں خواتین کے لئے بھی الگ پردے میں تعلیم دی جاتی ہے جہاں پر سندھ سمیت چاروں صوبوں سے بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

بنوریہ میں جہاں جامعہ میں اس وقت بھی پاکستان اور دنیا بھر کے 50 سے زائد ممالک کے طلبہ زیر تعلیم ہیں، غیر ملکیوں کے لئے الگ رہائش کا بلاک اور کینٹین الگ ہوتی ہیں جہاں پر ان کو باہر کے کھانے ملتے ہیں اور انہیں کوئی کمی نہیں ہوتی کہ وہ پاکستان میں ہیں یا بیرون میں اپنے ملک گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ اس وقت بھی دنیا کے مختلف ممالک امریکا، یورپ، وسطی ایشیا، افریقہ اور دیگر ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں شاگرد موجود ہیں جو یہاں سے پڑھ کر دین کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔

مفتی صاحب وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رکن رہے، انتقال کے بعد آپ کے بیٹوں مفتی محمد نعمان نعیم نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جامعہ الرشید کے ساتھ مل کر الگ وفاق المدارس کا بورڈ بنا کر اس میں شامل ہو گئے، مفتی محمد نعمان نعیم، جامعہ کے دیگر اساتذۂ ہمارے علاقے سکھر کے قریب کندھرا میں قائم دینی ادارے جامعہ بیت الرحمان پر تشریف لائے، وہاں علماء کرام سے خطاب کیا، برادرم مفتی محمد طاہر نے مفتی محمد نعیم صاحب کی قرآن کریم کی تفسیر 7 جلدوں پر مشتمل تفسیر روح القرآن ہدیہ کے طور پر پیش کی جو کہ اس وقت بھی زیر مطالعہ ہے۔

مفتی صاحب نے تفسیر روح القرآن کے علاوہ شرح مقامات، نماز مدلل اور دیگر کتابیں لکھیں۔ جو کہ صدقہ جاریہ ہے۔ مفتی محمد نعیم کے انتقال پر ملک کے نامور شخصیات نے اپنے تاثرات پر کمال کے جملے کسے ہیں، عالمی اسکالر ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائیک نے کہا کہ مفتی صاحب نے اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کی، ان مشن قرآن و حدیث کی تعلیم کو عام کرنا تھا۔ جی یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمن نے لکھا کہ مفتی محمد نعیم کا شمار ان شخصیات میں تھا جو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نصب العین کے تحت زندگی گزارنا پسند کرتے تھے، اسی کو انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے تاثرات میں لکھا تھا کہ مفتی صاحب نے تبلیغ، ترویج اور اشاعت کے لئے خدمات تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں، مفتی صاحب کا جلایا ہوا چراغ روشنی دیتا رہے گا، جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق نے لکھا کہ مفتی محمد نعیم صاحب ہمارے اس کارواں کے ایک بہترین سپہ سالار تھے۔ وہ ایک علمی روحانی اور سیاسی شخصیت تھے۔ وہ اسلاف کی ایک نشانی ہے۔ علامہ طاہر القادری نے تاثرات میں لکھا کہ مفتی صاحب بہت اچھے اسکالر اور باہمی تعاون یکجہتی کو فروغ دینے والی شخصیت تھے۔

جامعہ بنوریہ العالمیہ آج ایک بہترین یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ مفتی صاحب کے بیٹے ملک میں دینی تعلیم کے ساتھ فلاحی کاموں میں بھی بہت حصہ لے رہے ہیں۔ نرم مزاج، سادہ طبعیت کے مالک مفتی نعمان نعیم میں اس وقت بھی بہت بڑی خوبیاں ہیں۔ 20 جون 2020 ع والد صاحب کے انتقال کے بعد جو ذمہ داری قبول کر کے میدان میں اترے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوں گے اور ادارے کا نام اور وطن عزیز پاکستان کا نام ملک سمیت دنیا بھر میں روشن کریں گے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک مفتی صاحب کے بڑے بیٹے مفتی محمد نعمان نعیم جو اس وقت جامعہ کے مہتمم ہیں مولانا فرحان نعیم حافظ حنظلہ کو اپنے والد کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے دین و دنیا کا کام لے۔ اور اور اس ادارے کو دنیا کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنائے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments