” عربی سے طب تک“ قسط۔ 8 باشندہ ریاست درجہ اول


ایف ایس سی کے امتحانات جو لائی1969 ء میں شروع ہو کر اگست کے پہلے ہفتے میں ختم ہو گئے۔ ظفر علی جو میرا ہم جماعت تھا اور میری طرح ڈاکٹر بننے کا ارادہ رکھتا تھا، نے مجھے سٹیٹ سبجیکٹ یعنی ’باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ‘ بنوا لینے کا مشورہ دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے اس سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پڑے گی بلکہ اس کے بغیر داخلہ نہیں ہو سکے گا۔ ظفر کی ہی راہنمائی میں، میں نے میرپور کچہری میں جاکر محکمہ مال میں ’باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ‘ کے لئے درخواست جمع کر وادی۔

وہاں ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں بوسیدہ سی فائلوں کے ہرطرف انبار لگے تھے۔ صد ہا سال پرانی فائلوں اور کرم خوردہ مثلوں کے گردآلود ڈھیروں کے درمیان ان سے کہیں بوسیدہ اور گرد آلود ایک گرداور بلکہ گرداور تشریف فرما تھے۔ انہوں نے درخواست وصول کرنے بعد مجھے ایک ہفتہ بعد آنے کو کہا۔ چونکہ اس نوعیت کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا اس لئے میرا خیال تھا کہ ایک ہفتہ بعد جب میں ان صاحب کے پاس جاؤں گا تو سرٹیفیکیٹ بنا بنایا ان کی میز پر پڑا ہو گا۔ ایک ہفتہ بعد جب میں سرٹیفیکیٹ لینے کے لئے ان کے پاس گیا تو کہنے لگے کیوں آئے ہو؟

عرض کیا ’باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ ‘ لینے آیا ہوں۔ آپ نے ایک ہفتے بعد آنے کا کہا تھا۔
آپ کی درخواست کہاں ہے؟
وہ میں آپ کو دے گیا تھا۔
لیکن وہ اب کہاں ہے؟
آپ کے پاس ہوگی۔
آپ باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ کیوں بنوانا چاہتے ہیں؟
مجھے میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے اس کی ضرورت ہوگی۔
اچھا! آج تو میں ذرا مصروف ہوں۔ آپ اگلے ہفتے آجائیں، میں آپ کی درخواست کا کچھ کروں گا۔

میں دوسرے ہفتے پھر وہاں چلا گیا۔ کچہری کالج کے بالکل سامنے ہی تو تھی۔ اب کی بار ڈھونڈ ڈھانڈ کے انہوں نے میری درخواست تو کہیں سے برآمد کر لی لیکن کہنے لگے آپ کی کوئی جدی پشتی زمین ہے؟

جی تھی، لیکن وہ تو منگلا ڈیم کی نذر ہو گئی۔

لیکن تھی کہاں اور کس کے نام تھی؟ اپنی زمیں کا محل وقوع انہیں بتایا اور یہ بھی کہ وہ میرے والد محترم کے نام تھی۔ وہ کچھ دیر فائلوں کے ایک ڈھیر کو ٹٹولتے رہے اور پھر کہنے لگے یہاں تو آپ کے والد کے نام کی کوئی فائل نہیں ہے۔ آپ کے دادا کا کیا نام ہے؟ جب دادا کا نام بتایا تو کہنے لگے آپ اگلے ہفتے آ جائیں میں اس دوران آپ کی فائل تلاش کر رکھوں گا۔ ایک ہفتے بعد پھر گیا۔ اب کی بار فرمایا آپ کے دادا کے نام بھی کوئی زمین نہیں۔

آپ کے پردادا کا کیا نام ہے؟ وہ تو مجھے معلوم نہیں تھا۔ میں نے ان سے کہا میں اپنے والد سے پوچھ کر کل آپ کو بتا دوں گا۔ دوسرے دن جب انہیں پر دادا کا نام بتایا تو پھر وہی رٹا رٹایا فقرہ کہ آپ ایک ہفتہ بعد آجائیں، آپ کا کام ہو جائے گا۔ میں ایک ہفتے بعد پھر وہاں پہنچ گیا۔ اب کے پھر انہوں نے کچھ فائلوں کو ٹٹولا اور کہا کہ آپ کے پردادا کے نام بھی کوئی زمین نہیں۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔

منگلا ڈیم کی تعمیر سے قبل 18مارچ 1962ء کو اپنے گاؤں سے انخلاء کے وقت میری عمر گیارہ سال تھی اور میں اپنی زمینوں سے بڑی اچھی طرح واقف تھا مگر گرداور صاحب کہہ رہے ہیں آپ کے والد، دادا یا پردادا کے نام کوئی زمین نہیں۔ پردادا کے نام زمین کا نہ ہونا تو سمجھ میں آتا تھا کہ وہ سری نگر امیراکدل سے ہماری پر دادی کے ساتھ جو پونچھ سے تھیں، انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں منگلا تشریف لائے تھے۔ مگر ہمارے دادا تو یہیں پیدا ہوئے تھے۔ میرے علم کے مطابق ہماری زمین جائیداد اور مکانات انہیں کی محنت کا ثمر تھے۔

بار بار کے چکروں سے تنگ آ کر میں نے گرداور صاحب سے پوچھا وہ ہماری زمین کی مثل کون سے گاؤں میں تلاش کر رہے ہیں۔ جب انہوں نے

بتایا تو پتہ چلا کہ جس چھوٹے سے گاؤں، کھڑی خاص (ڈھوک اہالیاں ) ، میں ہماری زمین تھی وہ اس کی بجائے ’کھڑی‘ جو وہاں سے دس میل دور ایک بہت بڑا علاقہ تھا، کے ریکارڈ میں ہماری فائل تلاش کرتے رہے تھے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ ہماری زمین کی مثل تو وہاں نہیں ہو سکتی جہاں آپ تلاش کرتے رہے ہیں۔ تو فرمایا آپ اگلے ہفتے آجائیں، اب میں آپ کی فائل تلاش کر لوں گا۔ میں ایک ہفتے بعد پھر وہاں پہنچ گیا۔ مگر ان کی طرف سے پھر وہی گھڑا گھڑایا جواب ملا ”آپ ایک ہفتے بعد آ جائیں میں اس دوران آپ کی فائل تلاش کر لوں گا“ میں ان کے دفتر سے نکل کر تحصیل دار کے دفتر میں چلا گیا۔

تحصیل دار صاحب کچہری لگائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے کالج کی یونیفارم میں دیکھ کر اپنے پاس بلا لیا اور پوچھا کیوں آئے ہو؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں باشندہ ریاست سرٹیفیکیٹ بنوانا چاہتا ہوں۔ اس کے لئے درخواست چار ہفتے قبل آپ کے گرداور صاحب کے پاس جمع کروائی تھی۔ تب سے اب تک یہ مجھے ہر ہفتے اپنے پاس بلاتے ہیں صرف یہ بتانے کے لئے کہ آپ کی زمین کی مثل نہیں مل رہی۔ معلوم نہیں انہیں ہماری زمین کی مثل کیوں نہیں ملتی۔

ہماری زمین یہاں تھی جس کے بدلے میں ہمیں پاکستان میں ایک مربع زمین پچھلے سات سال سے الاٹ ہو چکی ہے۔ کہنے لگے یہ تو آپ شکایت کر رہے ہیں۔ آپ اپنی شکایت تحریری طور پر مجھے دیں۔ میں اس پر کارروائی کروں گا۔ میرا خیال تھا کہ یہ بڑا سیدھا سادہ سا معاملہ ہے اور یہ کہ میں نے جو حقیقت تھی وہی بیان کی ہے۔ گرداور صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب یا جواز نہیں ہو گا۔ میں نے ادھر کھڑے کھڑے درخواست لکھ کر تحصیل دار کے حوالے کر دی۔

انہوں نے گرداور کو وہیں بلا لیا اور ان سے پوچھا کہ آپ نے اس وقت تک ان کی باشندہ ریاست کی درخواست پر کیا کارروائی کی ہے۔ تو گرداور صاحب نے میرے خلاف شکایات کے دفتر کھول دیے۔ کہنے لگے انہوں نے درخواست تو دے دی مگر اپنی زمین کا اتا پتہ معلوم نہیں۔ انہیں اپنے دادا کا نام معلوم ہے نہ پردادا کا ۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ان کی زمین چاہی تھی، بارانی یا نہری۔ انہیں اپنی زمین کے خسرہ کا علم ہے نہ کھیوٹ کا ۔ ان کے پاس ختونی ہے اور نہ ہی شجرہ کشتوار ہے۔ میں پچھلے پانچ ہفتوں سے ان کی زمین کی مثل تلاش کرتے کرتے کھپ گیا ہوں۔ میں نے اپنے دفتر کا کونہ کونہ چھان مارا ہے بلکہ اس کی مٹی تک کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کر چکا ہوں مگر ان کی فائل نہیں ملی، ہو تو ملے۔

طالب علمی اور نوجوانی کا زمانہ تھا، عملی زندگی سے واسطہ نہ ہونے کے برابر تھا لہذا انسان کے اس روپ سے بالعموم اور اور محکمہ مال کے اہل کاروں کی ذہنیت سے بالخصوص واقف نہیں تھا۔ میں ہکا بکا کبھی گرداور کو اور کبھی تحصیل دار کو دیکھتا تھا۔ گرداور کے بولے ہوئے کچھ الفاظ مثلاً چاہی، بارانی، نہری، کھیوٹ، ختوتی اور شجرہ کشتوار میرے لئے اجنبی تھے، آج انہیں پہلی بار سن رہا تھا البتہ خسرہ کا مجھے علم تھا۔ وہ جو چھوٹے بچوں کو بخار کے ساتھ دانے نکل آتے ہیں اسے خسرہ کہتے ہیں۔

لیکن اس بات کا علم نہیں تھا کہ زمین کو بھی خسرہ ہو جاتا ہے۔ اگر نہری سے مراد زمین کا نہر کے پاس ہونا تھا تو واقعی ہماری زمین نہر اپر جہلم کے کنارے بلکہ منبع کے بالکل قریب واقع تھی مگر پانی کی سطح سے سو میٹر بلند۔ مجھے خاموش پاکر تحصیل دار نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ نوجوان ہیں، آپ کو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے اور ساتھ ہی گرداور کو حکم دیا کہ ان کی فائل تلاش کر کے ایک ہفتے کے اندر اندر میرے سامنے پیش کرو۔ پتہ نہیں جو کچھ میں نے کہا تھا اس میں جھوٹی بات کون سی تھی۔ گرداور کی طنز بھری نگاہیں مجھے کہہ رہی تھیں اور کرو شکایت۔ انہیں مجھ پر غصہ تو تھا مگر پھر بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے پوچھا، آپ کی زمین ہے کون سے موضع میں؟ میرے بتانے پر انہوں نے کہا آپ کل آجائیں، آپ کی فائل میری میز پر ہوگی۔

دوسرے دن جب میں ان کے پاس گیا تو واقعی ہماری زمین کی فائل ان کی میز پر تھی اور ساتھ ہی میری درخواست بھی نتھی تھی۔ پانچ ہفتے بعد ہی سہی، اب اس فائل نے اپنے سفر کا آغاز کر دیا تھا۔ دو ہفتے بعد یہ فائل تحصیل دار کے پیش کار کے دفتر میں پہنچ گئی۔ میں ان کے پاس گیا تو کہنے لگے اس زمین کی مثل پر آپ کے نام باشندہ ریاست کا سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے اپنی درخواست میں اپنے والد کے نام کے ساتھ محمد لکھا ہے جب کہ زمین کے کاغذات میں محمد نہیں ہے۔

میں نے بہتیرا کہا کہ ان کاغذات پر لکھے ہوئے نام میرے والد اور چچا کے ہی ہیں مگر وہ پھر بھی نہ مانے۔ ہفتہ بھر میں ان کے دفتر کے چکر لگاتا رہا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ آخر میں نے والد محترم سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ پوری ریاست جموں کشمیر میں پٹواری عام طور پر ہندو ہوتے تھے۔ انہیں ہمارے رسول پاک ﷺکے نام سے چڑ تھی۔ یا تو وہ یہ نام لکھتے نہیں تھے اور اگر مجبوراً لکھنا پڑ جائے تو بگاڑ کر لکھتے تھے۔ یہاں بھی ہم دونوں بھائیوں کے نام کے ساتھ پٹواری نے جان بوجھ کر محمد نہیں لکھا تھا۔ والد نے اپنے خالہ زاد بھائی صوفی

لعل محمد، جنہوں نے مجھے کالج میں داخل کروایا تھا، سے بات کی۔ وہ ہمارے ساتھ چلنے پر راضی ہو گئے۔ جب وہاں پہنچے تو چچا جان کو دیکھتے ہی وہ شخص اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ نہایت احترام سے انہیں اپنی کرسی پر بٹھایا اور خود ان کے سامنے با ادب کھڑا ہو گیا۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ چچا جان نے اس سے کہا ’او عبد الغنی! یہ تم ہو جس نے میرے بھتیجے کو کچہری کے اتنے چکر لگوائے ہیں؟ عبدالغنی کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا، اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ عبد الغنی میٹرک تک چچا جان کا شاگرد رہا تھا اب ان کے سامنے کچھ کہتے ہوئے ہچکچاہٹ اور خجالت محسوس کر رہا تھا۔

جب اسے فائل پر محمد نہ لکھے ہونے کی اصل وجہ بتائی گئی تو اس نے کہا چونکہ میں اس فائل پر اعتراض پہلے سے لکھ چکا ہوں، اب اسے تبدیل نہیں کر سکتا، لہذا آپ کو اس فائل کے ساتھ ایک بیان حلفی لگانا پڑے گا کہ ان کے والد کا اصلی نام وہی ہے جو درخواست پر لکھا گیا ہے مگر زمین کے کاغذات میں پٹواری کی غلطی سے محمد کا اندراج ہونے سے رہ گیا۔ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور مزید ایک ہفتے بعد مجھے باشندہ ریاست درجہ اول کا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔

2004ء کی بات ہے مجھے اپنے بڑے بیٹے اور بہو کے لئے یہی سرٹیفیکیٹ بنوانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پہلے تجربے کو 36 سال گزر چکے تھے۔ کچہری میں بھی دفتر ادھر سے ادھر ہو چکے تھے۔ ایک دوست سے بات کی۔ وہ مجھے کچہری میں ایک صاحب کے پاس لے گئے۔ ان سے میرا تعارف کروایا گیا۔ انہوں نے مجھ سے چھوٹتے ہی پوچھا کیا آپ کا سرٹیفیکیٹ بن چکا ہے۔ عرض کیا کہ ہاں۔ کہنے لگے پھر تو کوئی مسئلہ نہیں آپ اپنے سرٹیفیکیٹ کی کاپی ساتھ لگا دیجیے ایک ہفتے میں ان کے سرٹیفیکیٹ بن جائیں گے۔

مجھے رہ رہ کر 1969ء کے وہ ہفتے یاد آرہے تھے جب مجھے بار بار کچہری کے چکر لگانے پڑے تھے۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ ایک ہفتے بعد وہ سرٹیفیکیٹ واقعی تیار ہو گئے۔ میں نے ان کی تعریف کی اور اپنے سرٹیفیکیٹ کی داستان الم انہیں سنانے بیٹھ گیا۔ گرداور اور تحصیلدار کی کہانی تو انہوں نے بڑی دلچسپی سے سنی لیکن جونہی میں نے عبدالغنی کا نام لیا تو جھٹ سے بول پڑے ’عبدالغنی میرے والد محترم ہیں‘ ۔ میں نے کہا یہ کیسا اتفاق ہے کہ میرا سرٹیفیکیٹ آپ کے والد نے بنایا اور میرے بیٹے کا آپ نے؟

میڈیکل کالج میں داخلہ

ایف ایس سی کا رزلٹ اکتوبر 1969 ء کے دوسرے ہفتے میں آ گیا۔ میرے مارکس اچھے تھے۔ پاکستان کے کسی بھی میڈیکل کالج میں میرٹ پر داخلہ ملنے کے بعد کچھ فالتو بھی بچ جاتے، لیکن میں کسی بھی کالج میں درخواست براہ راست نہیں بھیج سکتا تھا۔ مجھے درخواست آزاد حکومت، ریاست جموں و کشمیر کے محکمہ صحت میں بھجوانی تھی، کہ یہی دستور، یہی قانون اور یہی حاکم وقت کا فرمان جلی تھا۔ نومبر کے پہلے ہفتے میں مظفر آباد جا کر بنفس نفیس درخواست جمع کروا دی۔

درخواست کے ساتھ میڈیکل فٹنس سرٹیفیکیٹ (صداقت نامہ درستی صحت) جو ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کے ڈسپنسر کو سولہ روپے دے کر حاصل کیا گیا تھا، منسلک کیا گیا۔ مغربی پاکستان کے میڈیکل کالجز میں ریاست جموں و کشمیر کے لئے گیارہ نشستیں مختص تھیں۔ ان نشستوں کی تقسیم دیدہ و دانستہ اور باضابطہ طور پر غیر منصفانہ انداز میں کی گئی تھی۔ آزاد کشمیر سے فارغ التحصیل طلباء کے لئے چھے اور پاکستان میں آباد کشمیریوں، جن کا دہائیوں پہلے کشمیر سے کوئی تعلق رہا تھا اور جو پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے تھے، کے لئے پانچ سیٹیں تھیں۔

ان کا آزاد کشمیر کے طلباء کے متوازی میرٹ بنتا۔ یعنی ایک طالب علم ادھر سے اور ایک ادھر سے ایک ہی کالج میں بھیجے جاتے۔ ثانی الذکر وہ لوگ ہوتے تھے جنہیں پاکستان کے ڈومیسائل پر ، کم نمبر ہونے کی وجہ سے، صوبے سے ملحقہ کالج میں میرٹ پر یا علاقائی بنیاد پر داخلہ نہیں مل سکتا تھا۔ اب وہ کشمیر سے اپنے موروثی تعلق کی بنا پر ریاستی طلباء کا حق مار لیتے تھے۔ بلکہ بہت کم نمبر لے کر اچھے کالج میں داخلے کے حق دار بن جاتے۔

ان کشمیریوں کی تین نسلیں جوان ہو جانے پر بھی یہ سلسلہ آج بھی کالجز میں داخلوں اور آزاد کشمیر میں ملازمت کے حصول کے لئے جاری و ساری ہے۔ کچھ ایسے ہی سہولت پاکستان میں آباد کشمیریوں کے لئے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں انتخاب کے لئے رکھی گئی ہے۔ اس اسمبلی پر قانون سازی کا اختیار تو محض تہمت ہے، البتہ اسلام آباد کی سرکار کے لئے آزاد کشمیر کی اسمبلی کی منجی میں ممکنہ پڑنے والی کان کو ان بارہ اراکین کی مدد سے بخوبی بٹھا نے کا انتظام کیا گیا ہے۔

محکمہ صحت، آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کی طرف سے داخلوں کا فیصلہ3 دسمبر1969ء کو ہوا۔ میرا داخلہ نشتر میڈیکل کالج میں ہونا قرار پایا۔ اب کالج سے داخلے کے خط کا انتظار تھا۔ مگر یہ انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا۔ دسمبر کے آخری دن تھے اور مجھے ابھی تک کالج سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔ منگلا سے کچھ دوستوں نے بتایا کہ آپ کے کالج میں کلاسیں شروع ہو چکی ہیں مگر آپ ابھی تک یہیں ہیں، کالج نہیں گئے؟ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ملتان سے ایک لڑکا جسے نشتر میڈیکل کالج میں ابھی ابھی داخلہ ملا ہے، اپنے بھائی سے ملنے یہاں آیا ہوا ہے۔ یہ خبر اس نے دی ہے۔ میں اس سے ملا۔ اس نے تصدیق کی کہ کالج میں کلاسیں دسمبر کے تیسرے ہفتے سے شروع ہو چکی ہیں اور یہ کہ کالج میں صرف کل یعنی25دسمبر کی چھٹی تھی، سوموار 29 دسمبر کو کالج پھر سے کھل جائے گا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments