نگینہ کا درد


وہ سانولے رنگ، نشیلی آنکھوں والی درمیانے قد کی عورت تھی۔ اس کی عمر چالیس کے قریب تھی۔ اس کے چہرے پر نرمی کا تاثر ہر موسم کی دھوپ چھاؤں برداشت کرنے باوجود قائم تھا۔ اس کے ناک کی چمکتی لونگ اور بائیں ہاتھ کی درمیانی انگلی میں ایک سفید پتھر کی انگوٹھی اس کا کل سنگھار تھی۔

اسے اپنی ناک کی لونگ اور سفید پتھر والی انگوٹھی بہت پیاری تھی۔

خاندان اور محلے کی عورتوں نے اس سے یہ لونگ اور انگوٹھی مانگی اور بدلے میں اچھے پتھر والی انگوٹھی اور لونگ دینے کا کہا۔ لیکن وہ کسی کی باتوں میں نہ آتی۔ یہاں عورتیں اپنے زیور ایک دوسرے سے لے کر پہن کر شادی بیاہ میں جاتی تھیں۔ لیکن نگینہ نے کبھی کسی سے کوئی زیور ادھار لیا نہ دیا۔ وہ اپنے انگوٹھی اور لونگ پہن کے مطمئن اور خوش تھی۔ اس سے زیادہ کی چاہ کبھی نہ کی۔

جس دن بہت خوش ہوتی اور جب شام ڈھلے گھر لوٹتی تو دور سے ہی اس کی کھنکتی آواز ماحول کو سحر زدہ کر دیتی۔ جمعے کے دن اس کی عقیدت دیکھنے لائق ہوتی۔ نہا دھو کر صاف ستھرا لباس زیب تن کر کے اپنی گڑوی لے کے بیٹھ جاتی۔

جس پر نگینہ کی سفید پتھر والی انگوٹھی بجنے کی دیر ہوتی تو آس پاس کی عورتیں سب کام چھوڑ کے اس کے پاس آ کے بیٹھ جاتیں۔ کچھ ساتھ گانے لگتیں کچھ داد دیتی، جھومتی، سر ہلاتی تالیاں بجانے لگتیں۔ ان عورتوں کی اپنی آواز بھی بہت کمال تھی لیکن جو بات نگینہ میں تھی وہ کسی اور میں نہ تھی۔

سب دل کھول کے داد دیتیں۔ ویسے بھی نگینہ جب کسی شادی بیاہ پہ جاتی تو سب فرمائش کر کے اس سے ”یثرب نون جانٹرواں اے“ ضرور سنتے۔

دن بدن اس کی آواز میں نکھار آنے کے ساتھ سوز و گداز پیدا ہو رہا تھا۔ جو ہر گیت کو چار چاند لگا دیتا۔

وہ گلہ شکوہ کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ جہاں جاتی اپنے عمدہ اخلاق سے سب کو گرویدہ بنا لیتی۔ یہی وجہ تھے۔ زیادہ تر لوگ شادی بیاہ اور ڈھولک پر نگینہ کو ضرور بلاتے۔ اس کی بستی کی دوسری عورتیں ناک بھوں چڑھاتی۔ حالاں کہ وہ اس سے زیادہ خوب صورت تھیں۔

نگینہ کی زندگی کا محور اس کے دونوں بیٹے تھے۔ شوہر کا نام وہ بھول کے بھی نہ لیتی۔ نہ محبت میں نہ نفرت میں۔

منشی صیب کی نظریں بھی نگینہ کے کندھے پر لٹکے سفید تھیلے پر ہوتیں۔ جو وہ گھر آتے پھینک کر ہاتھ منہ دھونے چل دیتی۔

منشی صیب کی منشی گیری بھی عجیب تھی۔ سارا دن محلے کے لڑکوں کا دھیان رکھتے۔ کون کتنے سگریٹ پھونک رہا۔ کون کتنے پان چبا رہا ہے۔ کس کی بیوی کتنا کماتی ہے۔ جس کی بیوی زیادہ کماتی۔ منشی صیب کا دل چاہتا کاش وہ اس کو بیاہ لاتے۔

نگینہ کو دیکھتے منشی صیب کے حلق میں کڑواہٹ گھل جاتی۔ دونوں ایک دوسرے سے سیدھے منہ بات نہ کرتے۔
بیوی کی سنجیدگی اور میاں کی شوخ مزاجی کا کوئی ملاپ نہ ہو سکا۔

وہ چاہتی تھی کہ بچے پڑھ لکھ جائیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی جس ماحول میں وہ رہتی ہے وہاں یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔

غربت کی چکی میں پسی ماؤں کو پہلا بچہ اسکول بھیجنے کا بہت شوق ہوتا۔ پھر آہستہ آہستہ سب شوق دم توڑ جاتے۔ کچھ حالات کی مجبوریاں اور کچھ آس پاس کا ماحول شوق پروان چڑھنے سے پہلے ہی تھک ہار کر اپنے اصل مقام پر آ جاتا ہے۔

نگینہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ بڑا ایک سال رو دھو کر گیا۔ چھوٹا چھ ماہ بعد گھر واپس لوٹ آیا۔ باپ سے اولاد کے آنسو دیکھے نہ جاتے۔

”بس بہت ہو گیا ہمارا بچہ اب اسکول نہیں جائے گا“
”منشی صیب یہ ظلم نہ کرو، ہمارا بچہ پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے گا، ہمارے بڑے ارمان ہیں“ ۔

نگینہ ایسا ہرگز نہیں چاہتی تھی۔ اس کا بچہ اسکول کو الوداع کہہ کر سارا دن مٹی میں لت پت یہاں وہاں گھومتا پھرے۔ بڑے کا بہت مشکل سے صبر آیا تھا۔ اب چھوٹے بیٹے سے جڑے خواب بھی ٹوٹ رہے تھے۔

اس کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ وہ صبح کی گئی شام کو گھر لوٹتی۔ بچوں پر دھیان رکھنا ممکن نہیں تھا۔ وہ گلیوں میں گھومتی روشنائی سے سجے گھر ڈھونڈتی زندگی کا سفر کاٹنے لگی۔ اب شادیوں کے بلاوے کہیں سے نہیں آتے تھے بلکہ اب گانے والے خود شادی والا گھر بھکاری بنے ڈھونڈتے پھرتے تھے۔

وہ دل ٹوٹنے کا حساب کرتی تو یاد نہ کر پاتی۔ کہ دل کہاں اور کس کس موڑ پر کتنی چوٹیں کھا چکا ہے۔ ہاں آج وہ ایک بار پھر بالکل ایسے اداس اور غمگین ہوئی تھی۔ جیسے وہ کچھ سال پہلے جب وہ نئی شادی ہو کے نیا نیا گانے لگی تھی۔ وہ مہندی کی رسم تھی۔ جہاں مرد و عورتیں دولہا کے ناز نخرے اٹھا رہے تھے۔ دولہا بہت شرمیلا اور نازک مزاج تھا۔ نگینہ وہ سر جھکائے مسکراتا بہت اچھا لگا۔ اس نے ایسا شریف اور شرمیلا مرد ابھی تک نہیں دیکھا تھا۔ وہ آنکھیں جھپکنا بھول گئی۔ اور ٹکٹکی باندھے دولہے کو حیران نظروں سے دیکھنے لگی۔

”اے بی بی کوئی گیت بھی سنا دے یا یوں ہی کھڑی رہے گی“ ۔
دولہے کی ماں کی اسے آواز ہوش کی دنیا میں لائی۔
وہ گیت گانے لگی۔ گیت گاتے ہوئے بھی اس کی نظریں دولہے سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔

اچانک دولہا کی اماں کو شرارت سوجھی وہ سو نوٹ لے کر بیٹے کو تھما کر کہنے لگیں۔ اس گانے والی کی گال پہ رکھ کے دو۔ وہ شرماتا لجاتا اپنی جگہ سے اٹھا اور وہ کھیل جو اس نے اپنے بڑوں سے سیکھا تھا۔ گانے والی کے ناک یا گال پر نوٹ رکھتا۔ وہ نوٹ پکڑنے لگتی تو وہ پیچھے کر لیتا۔ محفل میں موجود لوگ اس ذرا سی بات پہ خوب لطف اندوز ہوتے۔

شادی بیاہ میں گانے والی عورتوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ انہیں معزز گھرانوں کے مردوں کی اوچھی حرکتیں ہنسی خوشی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔

نگینہ کو یہ انداز پہلے کبھی اتنا نہیں بھایا جتنا آج اچھا لگ رہا تھا۔ اس کا دل چاہا یہ گھڑی ہمیشہ کے لیے تھم جائے۔ وہ رات اس نے کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے گزاری۔

وہ رات بھر نیلے آسمان پر سجے چاند تارے دیکھتے گزری۔ بہت مشکل سے دل سنبھلا۔ وہ خواب مکمل دیکھنے سے پہلے ہی زندگی کے جھمیلوں میں خود ہی ٹوٹ کر بکھر گیا۔

اتنے برس بعد آج وہ بھولا بھٹکا خواب نظروں کے سامنے آیا۔ وہ بالکل ویسا ہی تھا۔ دکان دار سے بھاؤ کرتا اپنی جیب سے سر جھکائے نرم مسکراہٹ چہرے پہ سجائے پیسے نکالتا ہوا۔

نگینہ سے ایک قدم آگے بڑھایا نہ گیا۔ وہ بے حس و حرکت کھڑی اپنی دلی کیفیت کو سمجھتی پیچھے کی جانب مڑ گئی۔

وہ آنکھوں میں نمی لیے بوجھل قدموں سے سڑک کنارے چلتے چلتے ایک بند دکان کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر زار و قطار رونے لگی۔

اس کا دل چاہا آج اس کے لیے کوئی درد بھرا گیت گائے۔ کچھ دیر بعد وہ نم آواز میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں
”اکھاں چھم چھم وسیاں“
گانے لگی۔
گانے لگی۔
دوپٹہ کے پلو سے آنسو پونچھتی وہ ریل کی پٹری ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی چلنے لگی۔

وہ لوگوں کا دل گیت گا کر بہلاتی تھی۔ آج دل چاہا کوئی اس کا دل بہلانے کی خاطر گیت گائے۔ لیکن کوئی بھی درد آشنا نہ تھا۔

جس دن وہ اداس ہوتی۔ اس دن نعتیں اور قصیدے پڑھتے گزار دیتی۔ کوئی گیت کی فرمائش کرتا تو کہتی۔
”بابو آج ہمارا دل بہت اداس ہے۔ گیت کی فرمائش نہ کرو، دل کو ذکر رسول و آل رسول ص سے سکون لینے دو“ ۔
فرمائش کرنے والے بھی اس کی خواہش کا احترام کرتے۔
وہ نم آنکھوں سے آسمان کی جانب دیکھ کر کہنے لگی۔
”اونچی شان والے تو نے احترام کرنے والے بہت دیے بس پیار کے دو بول بولنے والا ایک بھی نہ دیا“ ۔

وہ شکوہ کرتی اپنی ٹوٹی جوتی ٹھیک کرتی پاؤں میں اڑسنے کی کوشش کرنے لگی۔ اتنے میں سامنے سے آتی تیز رفتار موٹر سائیکل دیکھ کر وہ پیچھے نہ ہٹی۔ موٹر سائیکل اس کو گرا کر پاؤں کچلتی آگے بڑھ گئی۔

وہ ایسا گری کہ پھر اٹھنے کا نام نہ لیا۔ بس چارپائی پر لیٹی ماتھے پہ بازو رکھے سوچوں میں گم رہتی۔ زخم اتنا گہرا نہیں تھا۔ جتنا وہ درد محسوس کرتی۔ منشی صیب پاؤں کا زخم دیکھتے جو کب کا بھر چکا تھا۔ جب نگینہ کہتی درد ختم نہیں ہوتا۔ تو وہ پاؤں پکڑ کر زخم ڈھونڈنے لگتے۔

”منشی صیب یہ اندرونی چوٹ ہے، آپ کو یہ زخم نہیں ملے گا“ ۔
منشی صیب حیران پریشان پاؤں دیکھتے رہ جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments