اسقاط حمل عورت کا بنیادی انسانی حق ہے


امریکی عدالت کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر یہ بحث تازہ کر دی ہے کہ اسقاط حمل کی حیثیت کیا ہے؟

دراصل مرد اور عورت کی جنسی عدم مساوات نے ہمیشہ سے ہی مسائل کو جنم دیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ خواتین کے تقریباً تمام مسائل جنسی عدم مساوات سے پیدا شدہ ہیں۔ کمزوری کی اصل یہی ہے۔ اسی کی بنا پہ اس صنف کی معاشی رفتار بھی کم ہو جاتی ہے یا کم کر دی جاتی ہے اور یا پھر یہی طعنے دے کر کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس عدم مساوات کی بنا پر مردوں کی جنسی برتری انہیں ہر طرح کی برتری عطا کر دیتی ہے۔ اگر ہم زندگی کے دوسرے تمام شعبہ جات کو نظر انداز بھی کر دیں تو اس جنسی برتری کا فائدہ مردوں نے جنسیت کے میدان میں تو ضرور ہی اٹھایا ہے۔

اگر مردوں کو حمل کا خطرہ ہو تو وہ کبھی کسی کو ریپ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مگر چوں کہ انہیں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہوتا لہٰذا صدیوں سے وہ جنسی موج مستی کرتے آئے ہیں۔ مذہبی اجارہ داری ہو تو بھی اس کا فائدہ اس شعبے میں اٹھا جاتا رہا ہے۔ فاتح فوج ہو تو مفتوح قوم کی خواتین کا ریپ ہوتا آیا ہے۔ ڈاکا مارنا ہو تو مردوں کو صرف لوٹا جاتا ہے مگر عورتوں کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ ریپ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ آج بھی جاری ہے۔

اس تمام ریپ کے عمل میں نشانہ بننے والی خواتین کی بڑی تعداد پوری زندگی ریپ کے نتائج سہتی آئی ہے۔ اپنے ہوں یا پرائے، مذہب کے ڈھول بجانے والے خود ساختہ خدا ہوں معاشرے کی گھٹیا روایات کے امین، سبھی اس عمل کے شکار کی زندگی کو قطرہ قطرہ کر کے نچوڑتے ہیں۔ ظلم اور نفرت سے پیدا ہونے والے بیج کو سینچنا اتنا تکلیف دہ ہے کہ موت اس سے کہیں زیادہ آسان لگتی ہے۔ اسی وجہ سے خواتین کی بہت بڑی تعداد نے اس زندگی سے بچنے کے لیے خود کشی کو ترجیح دی ہے۔

مصیبت کے اس پہاڑ کے سامنے اگر سائنس نے اسقاط حمل کو آسان بنایا ہے تو اللہ کا شکر ہے کہ ان مظالم کا شکار خواتین کے درد کچھ کم ہوئے ہیں۔

اس سارے عمل میں میں مرضی سے بنائے گئے جنسی تعلقات کے نتیجے میں حمل کا حصہ بہت کم ہے۔ جس کو بنیاد بنا کر اسقاط کے خلاف شور مچایا جاتا ہے۔ شور مچانے کی اصل وجہ طاقت کو اپنے پاس رکھنے کی خواہش ہے۔

اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو اسقاط کا عام یا آسان رواج نہ ہونے سے قبل دوران زچگی خواتین کی اموات اور نو مولود کی موت بالکل عام سی باتیں ہوا کرتی تھیں۔

حقیقت یہ ہے کہ زچگی کے لمحات فطرت میں پائے جانے والے اذیت ناک ترین لمحات سمجھے جاتے ہیں۔ اسقاط بھی زچگی ہی کی طرز کا ایک عمل ہے جو کہ آرام دہ بالکل نہیں ہے۔ کوئی عورت شوق سے اسقاط نہیں کروانا چاہتی۔ فطرت اور سماج کے جبر ہی اسے ایسے موڑ پہ لا کھڑا کرتے ہیں جس سے آگے اس کے پاس کم تکلیف یا زیادہ تکلیف ہی کے متبادل ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ہر ذی شعور فرد کم تکلیف والا متبادل ہی لیتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم اسقاط کو بنیادی انسانی حق کیوں سمجھتے ہیں؟

جواب یہ ہے کہ بنیادی طور پہ مردوزن کے بیچ جنسی عدم مساوات عورت کو جنسی تشدد کا نشانہ بننے کا باعث بنتی ہے۔ عورت کو حق ہے کہ وہ اس چیز سے نجات حاصل کرے جو اس کی چاہت نہیں تھی اور اس پہ مسلط کی گئی ہے۔ اگر کوئی حمل اٹھانے اور اس کو وضع کرنے کا شوق یا سکت نہیں رکھتا تو کسی ریاست یا سماج کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس فرد کو اس کام کے لیے مجبور کرے۔

شادی کے ادارے کے اندر بھی اکیلے شوہر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بیوی کی صحت، شوق یا مرضی کو نظر انداز کر کے بچہ پیدا کرنے پہ مجبور کرے کجا یہ کہ اس ادارے کے باہر کوئی جبر یا لذت کے شوق میں کوئی امانت کسی عورت کے سپرد کرے اور پھر کہے کہ اب بس یہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ اسے ادا کرے۔ مرد پہ کوئی ذمہ داری نہیں وہ جب چاہے جیسے چاہے شوق پورا کرے اور آزاد ہو جائے۔ ہر گز نہیں۔

موجودہ زمانے میں اسقاط تو ہو رہے ہیں۔ مگر غیر قانونی ہونے کی وجہ سے غیر صحت مندانہ ماحول میں غیر تربیت یافتہ سٹاف کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خواتین زندگی بھر کے لیے صحت کے مسائل کا شکار ہو رہی ہیں۔ مگر خود ساختہ سماجی بریگیڈ کو کوئی پروا نہیں۔ صد افسوس۔

یہ ایسے ہی ہے کہ جسم فروشی تو پوری دنیا میں ہوتی ہے مگر اس کے غیر قانونی ہونے کی وجہ سے مردوں کو اسباب تعیش اونے پونے میں دستیاب ہے۔ پھر وعدہ خلافیوں اور بلیک میلنگ کا کوئی سدباب نہیں۔ گویا یہ غیر قانونی ہونا صرف شکاریوں کو سوٹ کرتا ہے۔ اگر اس کو قانونی شکل دے دی جائے تو کچھ تحفظ تو مجبور طبقے کو بھی مل سکتا ہے۔

اسی طرح اسقاط کے قانونی ہونے کا فائدہ خواتین کی اچھی صحت کے لیے ممکن ہے۔ مردوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اسی لیے انہوں نے اس کے خلاف ماحول بنا رکھا ہے۔

یہ بالکل غلط ہے کہ اگر اسقاط قانونی ہو جائے تو تمام خواتین اسقاط کروانے چل پڑیں گی۔ بھئی یہ ایک نہایت تکلیف دہ عمل ہے۔ کون شوق رکھتا ہے۔ ہاں مجبور لوگ تو اب بھی کرواتے ہیں۔

ایک بڑی دلیل اسقاط کے خلاف یہ ہے کہ قتل کرنا گناہ ہے۔ اسقاط ایک جان کا قتل ہے۔ بھئی اس طرح تو بیضے اور سپرم کا ضیاع بھی قتل ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہ دو ہفتے کے زائیگوٹ کی پروا تو سب کو ہے مگر اس کی وجہ سے ماں کی موت، تکلیف، اور تکلیف بھری زندگی کی پروا کسی کو نہیں۔ کیا معاشرہ ہے۔ کیا بیانیہ ہے۔ کہ دو ہفتے یا مہینے کا زائیگوٹ تو قتل ہے مگر جیتے جاگنے انسان کی زندگی سے کھیلنا ثواب ہے۔ صد افسوس۔

یہ انسانی المیہ ہے کہ عزت، زندگی اور درد کے مسائل کو بھی سیاست کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انسانی حقوق غصب کر کے فخر کیا جاتا ہے۔ انسانوں کی قربانیاں دے کر سماج اور مذہب کو سینچا جاتا ہے۔ اور پھر حقوق کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے۔

میرا جسم میری مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments