مولانا اسلم قریشی صاحب کا اغوا، شہادت اور پھر زندہ ہونا قسط 1


MM Ahmad

حالی نے اپنی مسدس میں مسلمانوں کے و عروج و زوال کی منظوم داستان رقم کی تھی۔ اور پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے آڈیو ویڈیو کے ذریعہ یہی فریضہ مکرمی وجاہت مسعود صاحب سرانجام دے رہے ہیں۔ خاکسار نے ان کا پروگرام ”پاکستان تباہی کے اس مرحلہ تک کیسے پہنچا“ سن رہا تھا۔ اور اس قسط سے فیض پا رہا تھا جس میں وہ جنرل ضیاء صاحب کے بے مثال دور کا تجزیہ فرما رہے تھے۔ اس میں وہ اس پہلو کا جائزہ لے رہے تھے کہ ضیاء صاحب نے اپنے دور کو اتنا طول کس طرح کیا دیا۔

اس کے لئے ضیاء صاحب کو ہر وقت کوئی نہ کوئی رونق لگا کے رکھنی پڑتی تھی۔ کبھی احتساب ہو رہا ہے۔ کبھی نفاذ اسلام کیا جا رہا ہے۔ کبھی نظام زکٰوۃ و عشر کا قیام ہو رہا ہے۔ کبھی مثبت صحافت کے حصول کے لئے صحافیوں کو کوڑے لگائے جا رہے ہیں۔ کبھی پاکستان کے نوجوان جوق در جوق افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑنے کے لئے جا رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ یہی جہاد ہے۔ بہر حال ان اہم کاموں کی ایک فہرست وجاہت صاحب نے سنائی جن میں ہمہ تن مصروفیت کی وجہ سے ضیاء صاحب کو انتخابات کرانے کا موقع نہ مل سکا۔

اس کالم اور اس کی دوسری قسط میں اس قسم کے ایک ناٹک کو اختصار سے پیش کیا جائے گا۔ واقعات کا یہ سلسلہ مولانا اسلم قریشی صاحب کے اغوا، پھر شہادت سے ہوتا ہوا ان کے دوبارہ زندہ ہونے پر ختم ہوا۔ سب سے پہلے تو یہ ذکر ضروری ہے کہ اسلم قریشی صاحب ”مولانا“ کس طرح بنے؟ یہ صاحب اسلام آباد میں ایک فورمین تھے۔ جب ستمبر 1971 میں ملک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا تھا تو انہوں نے پاکستان کے سیکریٹری خزانہ ایم ایم احمد پر قاتلانہ حملہ کیا کیونکہ ایم ایم احمد عقیدہ کے اعتبار سے احمدی تھے۔ لیکن کامیابی نہیں ہوئی اور اسلم قریشی صاحب کو پندرہ سال کی سزا ہوئی۔ لیکن 1974 میں یعنی جس سال میں احمدیوں کے خلاف فسادات ہو رہے تھے بھٹو صاحب نے انہیں رہا کر دیا اور یہ صاحب سعودی عرب چلے گئے۔ جب واپس آئے تو انہوں نے احمدیوں کے خلاف ایک سرگرم مولوی کی حیثیت سے کام شروع کیا۔

تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ میں بھارت کی سرحد کے بالکل قریب ایک گاؤں معراج کے ہے۔ اسلم قریشی صاحب نے وہاں پر 11 فروری 1983 کو احمدیوں کے خلاف خطبہ دیا۔ اور مقامی لوگوں کے ساتھ طے ہوا کہ وہ اگلی جمعرات کو اسی گاؤں میں عورتوں کو وعظ کریں گے اور اس سے اگلے روز جمعہ پڑھائیں گے۔ اسلم قریشی صاحب 17 فروری جمعرات کے روز ایک مدرسہ دارالعلوم شہابیہ تک سائیکل پر گئے اور وہاں پر اپنی سائیکل ایک نابینا کے حوالے کی کہ میں واپسی پر لے لوں گا۔ اور معراج کے روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ ان کی گمشدگی کا پرچہ کاٹا گیا اور اس میں دو تین احمدیوں کا نام بھی لکھا گیا۔ پورے ملک میں مہم شروع ہو گئی کہ اسلم قریشی صاحب کو احمدیوں نے اغوا کر لیا ہے۔ بہر حال 25 فروری 1983 کو اسلم قریشی صاحب کی بازیابی کے لئے مجلس عمل قائم کر دی گئی۔

اس کے بعد چنیوٹ میں احمدیوں کے مخالفین نے مباہلہ کانفرنس منعقد کی اور مولوی منظور چنیوٹی صاحب[والد الیاس چنیوٹی صاحب ایم پی اے ] نے اس میں اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کی خبر کو خوب اجاگر کیا اور یہ انکشاف کیا کہ اسلم قریشی صاحب کا اغوا مرزا طاہر احمد [ جماعت احمدیہ کے سربراہ] کی سازش کا نتیجہ ہے۔ اور اس گمشدگی کے تقریباً ایک ماہ کے اندر اندر ہی صدر مملکت سے بھی اپیلیں شروع ہو جاتی ہیں کہ ایک ممتاز عالم دین گم گیا ہے اور ہمیں شبہ ہے کہ قادیانیوں نے دشمنی کی وجہ سے اغواء کر لیا ہے۔ اور پولیس نے یہ انکشاف کیا کہ مولانا اغوا ہوتے وقت اپنا پاسپورٹ بھی ساتھ لے کر گئے تھے۔ اور ایک خط بھی ملا جس میں منظور چنیوٹی صاحب نے انہیں بیرون ملک بھجوانے کی پیشکش کی تھی۔

[نوائے وقت 27 فروری امروز 14 مارچ 1983 ]
اور پھر جلد ہی احمدیوں کے خلاف مطالبات کی طویل فہرست سامنے آ گئی تھی۔ چنانچہ یہ مطالبات یہ تھے
1۔ جماعت احمدیہ کو خلاف قانون قرار دیا جائے اور اس کے فنڈز منجمد کیے جائیں۔
2۔ احمدیوں کو کلیدی اسامیوں سے برطرف کیا جائے۔

3۔ احمدیوں کو اس بات سے روکا جائے کہ وہ شعائر اسلام استعمال کر سکیں۔ انہیں اس بات سے روکا جائے کہ وہ اذان دے سکیں، مسجد کی شکل میں اپنی عبادت گاہ بنا سکیں، نماز کی شکل میں عبادت کر سکیں۔

4۔ احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی لگائی جائے۔

5۔ مرتد کے لئے سزائے موت مقرر کی جائے۔ اور یہ غور کیا جائے کہ پیدائشی احمدی بھی مرتد ہیں کہ نہیں۔ قتل مرتد کے بارے میں غور کر لینا چاہیے کہ اس کا اطلاق کب سے ہو گا۔ اور جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد احمدیت کو قبول کیا ہے انہیں تین روز کے لئے علماء کے حوالے کیا جائے اگر وہ اس دوران تائب نہ ہوں تو ان کو سزائے موت دی جائے۔

[چٹان 11 تا 18 جولائی 1983 ص 15، 32 ]

اب اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کو تقریباً چھ ماہ گزر چکے تھے۔ امام کعبہ نے بھی ان کی بازیابی کے لئے خط لکھا۔ اکتوبر 1983 میں ربوہ میں اسلم قریشی صاحب کی گم شدگی کے سلسلہ میں ایک جلسہ کیا گیا۔ اس میں سعودی عرب کی نمائندگی الشیخ عبد اللہ یحییٰ صاحب نے کی اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ سعودی حکام بھی اسلم قریشی صاحب کا غوا سے کافی پریشان ہیں۔ مولوی تاج محمود صاحب اسلم قریشی صاحب کے صاحبزادے صہیب کو سٹیج پر جب لائے تو اس پر ہفت روزہ ختم نبوت کی رپورٹ تھی کہ سب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور مجمع پر سکتہ چھا گیا۔ اور خود مولوی تاج محمود صاحب بھی اتنی رقت میں آئے کہ آواز نہ نکل سکی۔

[ختم نبوت کراچی 12 تا 18 نومبر 1983 ص 4 و 5 ]

جنرل ضیاء الحق صاحب کے نام ایک کھلا خط شائع کیا گیا جس کا عنوان تھا ”کھلی چھٹی بنام جنرل محمد ضیاء الحق صاحب صدر پاکستان، جناب گورنر صاحب پنجاب“

اس میں لکھا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کے سربراہ کے حکم سے مولانا اسلم قریشی صاحب کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا ہے اور تمام قراردادوں کے با وجود اب تک مرزائیوں کو گرفتار کر کے مسلمانوں کی تسلی نہیں کی گئی۔ اور عوام میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ حکومت مرزائی نوازی سے کام لے رہی ہے۔ جبکہ مرزائی پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اور اس ’کھلی چھٹی‘ میں مطالبہ کیا گیا کہ معراج کے اور سیالکوٹ کے نمایاں احمدیوں اور امام جماعت احمدیہ کو گرفتار کر کے شاہی قلعہ لاہور میں ہمارے سامنے تفتیش کی جائے۔ اگر اس طریق پر تفتیش کرنے سے 48 گھنٹے کے اندر اندر مجرموں کا سراغ نہ ملا تو حکومت کو اختیار ہو گا:

”چوک علامہ اقبال میں کھڑا کر کے گولی مار دیں یا پھانسی پر لٹکا دیں۔ ہمیں یا ہمارے ورثاء کو کوئی گلہ یا اعتراض ہو گا۔ اور مولانا اسلام قریشی کے مدعیان اور ہمدرد مسلمان بھی خاموش ہو کر آرام سے گھروں کو بیٹھ جائیں گے۔ اور فرض کی ادائیگی کے بعد حکومت کو بھی سکون حاصل ہو جائے گا۔“

[ختم نبوت کراچی 12 تا 18 نومبر 1983 ص 10 ]

اب واضح طور پر یہ موقف سامنے آ رہا تھا کہ اسلم قریشی صاحب کو قتل کر دیا گیا اور یہ قتل احمدیوں نے کیا ہے اور اس بنیاد پر پورے ملک میں احمدیوں کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ اس سے اگلے کالم میں ان واقعات کا بقیہ حیران کن اور سنسنی خیز حصہ پیش کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments