دھوکے کی شادی: حقائق سے پردہ کشائی کرتا ڈرامہ فراڈ


”پیسہ صحت پر خرچ کریں یا بیماری کے علاج پر؟“

نجی ٹی وی پر جاری ڈرامہ سیریل فراڈ آج کل کافی پسند کیا جا رہا ہے۔ زنجبیل عاصم شاہ کی تحریر اور ثاقب خان کی ہدایات کو صبا قمر کی اداکاری نے چار چاند لگا دیے ہیں۔ نام ہی سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ فراڈ پر مبنی کہانی ہے۔ پروموز دیکھ کر مزید اندازہ ہو گیا تھا کہ ہیروئن کے ساتھ شادی کی صورت میں فراڈ ہوتا دکھایا گیا ہے۔ حقیقی زندگی میں ہمارے والدین نے بیٹیوں کی شادی کو جس طرح ہوا بنا کر سر پر سوار کر رکھا ہے، یہ کہانی اس بات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ڈرامہ ریٹنگ کے حساب سے کافی آگے ہے۔ اب تک کی سات اقساط نے ناظرین کو جو دلچسپی کا سامان اور تجسس فراہم کیا ہے، وہی اس کہانی کی کامیابی ہے۔

ڈرامے کی کہانی سے مشابہ ایک حقیقی کہانی میری سماعت سے گزری۔ آپ بھی سنیں :

ایک لڑکی کو والدین نے شادی پر نہ صرف اچھا خاصا جہیز دیا بلکہ کپڑے، طلائی زیورات، اور دولہا کی ماں کو تحفے میں طلائی چوڑیاں بھی دیں۔ والدین نے دولہا کی خواہشات کے مطابق اپنی استطاعت سے بڑھ کر اخراجات کیے۔ شادی کے کچھ دن بعد لڑکے نے لڑکی کو کہا کہ وہ چند دن کے لئے اپنے والدین کے گھر چلی جائے۔ لڑکی اور اس کے والدین تو اس بات پر پھولے نہ سمائے کہ اتنا اچھا اور خیال رکھنے والا شوہر اور داماد ملا ہے۔ وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگے۔

لڑکی اپنے میکے میں بہت خوش تھی کہ چند دن بعد گھر پر ایک خط آیا۔ کھول کر دیکھا تو طلاق نامہ نکلا۔ لڑکی اور اس کے والدین کے قدموں تلے سے تو گویا زمین نکل گئی۔ وہ حیرت و پریشانی سے یہ سوچتے رہ گئے کہ دونوں میاں بیوی شادی کے بعد خوش تھے، نہ کوئی لڑائی جھگڑا نہ شکایت۔ تو پھر یہ طلاق کیوں؟ فوراً پریشانی کے عالم میں لڑکے کو فون کیا۔ رابطہ نہ ہوا۔ اس کے والدین کو اور پھر گھر کے لینڈ لائن نمبر پر بھی کال کی مگر یا تو فون اٹھایا نہیں گیا یا بند ملا۔

بے چارے صدمے کے مارے لڑکے کے گھر پہنچ گئے، رستے میں خیریت کی دعائیں مانگتے رہے۔ لیکن وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ وہ لوگ مکان خالی کر کے جا چکے تھے۔ مزید محلے داروں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ مکان کرائے کا تھا۔ محلے میں چونکہ وہ ڈیڑھ دو مہینہ پہلے ہی آئے تھے اس لئے کوئی ان کے بارے میں کچھ خاص جانتا بھی نہ تھا۔ یہ شادی بھی سادگی سے انجام پائی۔ جو لوگ لڑکے کی طرف سے شادی میں شریک ہوئے تھے، ان میں سے کسی کا بھی فون نمبر یا پتا معلوم نہ تھا۔

آخر کار، بے چارے والدین اور لڑکی صبر کر کے بیٹھ گئے۔ پہلے تو صدمے سے ان کی ذہنی صلاحیت ہی مفقود ہو گئی۔ جب کچھ سمجھنے کے قابل ہوئے تو پتا چلا کہ ان کے ساتھ تو فراڈ ہو گیا تھا۔ لڑکے کا مقصد شادی کرنا نہیں بلکہ جہیز کا سامان، طلائی زیورات، اور رقم لوٹنا تھا جس کے بعد وہ لوگ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئے۔ اس لڑکے اور اس کے خاندان نے مزید کتنی لڑکیوں سے فراڈ کیا ہو گا، خود ہی اندازہ لگا لیں۔

فراڈ کی کہانی بھی ایسے ہی حقیقی حادثات کو سامنے لاتی ہے۔ اب تک فراڈ ہو جانے کے بعد مایا (صبا قمر) اس صدمے سے نہیں نکل سکی۔ اوپر سے مایا کی والدہ کو اس کی دوسری شادی کی فکر ستانے لگی ہے۔ صرف مایا کی چھوٹی بہن ہی ہے جو محلے کی عورتوں کے ہمدردانہ طنز و تشنیع کا جواب دیتی ہے۔ دوسری طرف تبریز اور اس کے جعلی والدین اب کراچی سے لاہور پہنچ چکے ہیں اور یہاں ایک چوہدری صاحب کی بیٹی پر نظریں جما دی ہیں، اسے لوٹنے کے لئے۔

ان چوہدری صاحب کی بیٹی کی شادی تایا زاد سے ہوئی تھی لیکن بدقسمتی سے طلاق ہو گئی۔ اب چوہدری اور ان کی بیگم نے چار مربع زمین اور ایک گھر جہیز میں دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کوئی پیسہ اور جائیداد دیکھ کر ان کی بیٹی کو اپنا لے۔ اب فراڈیے وہاں ہاتھ ماریں گے اور پھر پہلے ہی طرح کسی اور شہر کا رخ کر لیں گے۔ اب تک فراڈ سے نمٹنے یا اس کے خلاف پولیس کی کارروائی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ فی الوقت ڈراما رنج و الم ہی کی عکاسی کر رہا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ طلاق یا بیوگی کے بعد لڑکی خود کو جلد از جلد اس صدمے سے نکال کر نارمل زندگی کی طرف لائے۔ اور تعلیم یا جاب وغیرہ پر توجہ دے کیونکہ طلاق یا بیوگی ایک تلخ حقیقت ہے جسے قبول کر لینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ اور اگر فراڈ ہوا ہو تو پولیس میں رپورٹ درج کروا کر کیس کی مکمل پیروی کی جائے تاکہ فراڈیوں کو کسی اور کو لوٹنے سے پہلے سوچنا پڑے۔ اگر دھوکے سے آپ کی چیک بک یا اے ٹی ایم کارڈ لے لیے گئے ہوں تو سب سے پہلے بینک کی ہیلپ لائن پر کال کر کے انہیں بلاک کروا دیں۔

جس جگہ لڑکا یہ کہے کہ اسے بیرون ملک جانا ہے اور وہ وقت کی کمی کی وجہ سے فوراً شادی کرنا چاہتا ہے، یا لڑکے والے سادگی سے اور چند ایک رشتے داروں کے ساتھ، بالخصوص بغیر جہیز کے نکاح کرنے کی بات کریں تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھیں اور بیٹی کا بوجھ سر سے اتارنے سے گریز کریں۔ اس کے علاوہ کچھ لڑکے پاگل یا ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ ایسے لڑکوں کے والدین پیسے اور جائیداد کا لالچ دے کر لڑکی کو گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بیٹی کو نقد رقم یا کچھ بھی دینے کا بہت شوق ہو تو بیٹی کے نام کریں، داماد کے نام نہیں۔ کیونکہ اکثر گھٹیا لوگ پیسہ لے کر فرار ہو جاتے ہیں اور سب کچھ یا بہت کچھ لٹا دینے کے علاوہ بیٹی کو طلاق بھی ہو جاتی ہے۔ پتا نہیں لوگ یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ داماد کو سونے چاندی میں تول دینے سے وہ بیٹی کی خوشی کا ضامن بن جائے گا۔ آپ کا عطیہ کردہ سونا چاندی لے کر داماد آپ کی بیٹی کو طلاق کا پروانہ تھما دے تو پھر بیٹھ کر اپنی جہالت کو کوستے رہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لڑکی کی شادی ہی زندگی کا واحد مقصد نہیں جس میں ناکامی کے بعد زندگی کو ختم سمجھ لیا جائے۔

یہ ڈرامہ محض ڈرامہ نہیں، حقائق کی عکاسی کرتا ایک تازیانہ ہے۔ ہم لوگ ڈرامے یا فلم سے سبق سیکھنے کی بجائے اسے محض سکرین پر پیش کی گئی کہانی سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں والدین کو اس کہانی سے سبق سیکھنا چاہیے اور بیٹی کا رشتہ دیتے وقت محض لڑکے کی خوشحالی یا پیسہ نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس کا کردار اور اخلاق دیکھا جائے کہ وہ بیٹی کو کس حد تک خوش رکھ سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر لوگوں کی نیت کو جانچا اور پرکھا جائے کہ وہ لڑکی کا رشتہ کس غرض سے لینا چاہتے ہیں۔

جلد بازی میں بیٹی کو رخصت کر دینے کی بجائے مکمل اطمینان کریں کہ کیسے لوگ ہیں اور ان کا کیا پس منظر ہے۔ شادی دفتر اور سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ اعتبار بھی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ بیٹی کو کنویں میں دھکا مت دیں۔ اگر وہ اس کنویں میں مر گئی تو اس کا جنازہ آپ ہی کو اٹھانا ہو گا۔ اور اگر بچ کر زندہ واپس آ گئی، تو بھی اس کا بوجھ آپ ہی کے کندھوں پر ہو گا۔ حیرت انگیز طور پر رشتہ لیتے وقت لڑکی کو تو ناپ تول کر دیکھا جاتا ہے لیکن اپنی بیٹی دیتے وقت والدین اندھے ہو جاتے ہیں۔ جب تک بیٹیوں بیٹوں کے درمیان یہ تفریق رہے گی، بیٹیاں اسی طرح سولی پر چڑھتی رہیں گی۔ اور فراڈیے عیاشی کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments