ساریہ کی کہانی: کیا مائیں ایسی ہوتی ہیں؟


”مما آپ کہاں ہیں“ ۔
”مما“
”مما مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“

ساریہ کی چیخوں سے نانی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ساریہ کو ساتھ لگا کر اس پر کچھ پڑھ کر پھونکنے لگی۔ وہ جب سے یہاں آئی تھی۔ آج پہلی بار یوں ڈری تھی۔ اور ماں کو نیند میں آوازیں دے رہی تھی۔

نانی کو کچھ نہ سوجھا تو جھٹ بیٹی کا نمبر ملایا۔

”اماں خیریت؟ وہ بے وقت کی کال سے پریشان ہو گئی۔“ ہاں سب خیریت ہے۔ وہ ساریہ نیند میں ڈر گئی تھی۔ تمہیں بلا رہی تھی۔ لو بیٹی سے بات کر لو۔

وہ جھنجھلائی ہوئی بولی۔
”اوہو اماں آپ بھی نا۔ بچے نیند میں ڈر جاتے ہیں۔ میں اورحان کا ڈائپر چینج کر لوں۔“
خدا حافظ
۔ ۔

ساریہ تین سال کی تھی جب اس کا گول مٹول سا تیسرا بھائی اورحان پیدا ہوا۔ اورحان کی خوشخبری سننے کے بعد جو تھوڑی بہت توجہ ساریہ کو ملتی تھی۔ وہ بھی جاتی رہی۔ اس کی ماں سارا دن کاموں میں الجھی رہتی۔ وہ کام کم اور بکھیڑا زیادہ ڈالتی۔ اس کا شوہر اس کے پھوہڑ پن سا پہلے دن سے واقف تھا۔ وہ اس کے کاموں میں نہ مداخلت کرتا نہ مدد کرتا۔ اسے بس دفتر واپسی سے ٹائم پر کھانے چاہیے ہوتا تھا۔ جو اسے مل جاتا۔ بچے کیا کر رہے ہیں۔

کیا نہیں اسے پرواہ نہیں تھی۔ بڑے دونوں اپنی لڑائی میں چھوٹی بہن کو دھکا دیتے۔ وہ رو رو کے سارا گھر سر پر اٹھا لیتی۔ اس کے رونے سے سب تنگ تھے۔ بہت مشکل سے چپ ہوتی۔ وہ بھی ماں سے ایک تھپڑ کھا کر۔ ماں بھی سارا دن بچوں اور گھر کے کاموں میں الجھی ہوتی۔ اسے مار کے علاوہ کچھ اور نہ سوجھتا۔ اورحان کے بعد اس کا چڑچڑا پن بڑھنے لگا۔ وہ عید پر بچوں سمیت پاکستان آئی۔ تو ماں سے بیٹی کی گرتی صحت اور الجھی بکھری حالت دیکھی نہ گئی۔ اس سے اور کچھ نہ ہو سکا۔ تو ایک بچہ اپنے پاس رکھ کر بیٹی کا بوجھ بٹانے کا خیال سوجھا۔

ساریہ کی ماں کو چاروں بچوں میں سے بیٹی کو جدا کرنا بہتر لگا۔ مغرب کی رنگینیوں سے لڑکی ذات پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ کہیں وہ بگڑ نہ جائے۔ یہاں اپنوں میں رہ کر مشرقی روایات اور خالص مذہبی ماحول میں پرورش ہو گی۔ لڑکیوں کی تربیت نازک معاملہ ہوتا ہے۔ بہت سی باتوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ ساریہ کی ماں عظیم ماں تھی۔ جس نے تربیت پر دھیان کے ساتھ ممتا بھی قربان کی۔ وہ ننھی ساریہ کو چھوڑ کر چلی گئی۔ وہ شروع شروع میں ماں کو یاد کر کے روتی۔ کسی کونے میں چھپ جاتی۔ جب کوئی اسے منانے اور ڈھونڈنے نہ آتا تو وہ خود ہی سب میں آ کر بیٹھ جاتی۔

وہ بہت معصوم اور پیاری بچی تھی۔

اس کی ماں ویڈیو کال کرتی تو زیادہ وقت ماں اور بھاوج سے باتیں کرتے گزار دیتی۔ بیٹی سے ہیلو ہائے اور حال چال پوچھنے کے بعد مطمئن ہو جاتی کہ وہ ٹھیک اور خوش ہے۔ وہ رنگ برنگے فراک اور کچھ ہیئر بینڈز بھیجتی۔ جو ممانی سنبھال کے رکھ لیتی۔ اور ساریہ کو ماں کو کہتی۔ یہاں گرم موسم ہے۔ ہلکے پھلکے لان کے کپڑے ٹھیک رہتے ہیں۔ یہ ریڈی میڈ فراک میں بچی کو گرمی لگے گی۔ وہ بھاوج کے صدقے واری جاتی۔ جو

اس کی بیٹی کا اتنا خیال رکھتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی بھیجی سب چیزیں وہ تحفے تحائف میں بانٹ دیتی ہے۔ ساریہ کے لیے ایک دو فراک رکھ لیتی۔ جو کہیں آنے جانے وقت کام آتے۔ اس کی اپنی کوئی لڑکی نہیں تھی۔ تین لڑکے تھے۔ جن کے کام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ ورنہ وہ اپنے بچوں کے لیے رکھ لیتی۔

ساریہ دن بدن مرجھاتی جا رہی تھی۔ اس کے چہرہ پر کوئی رونق و شوخی نظر نہ آتی۔ جو اتنی چھوٹی بچیوں کے چہرے پر ہوتی ہے۔ نانی نے نجانے کب سے ٹرنک میں سنبھالا ہوا اسکارف نکال کر اس کے سر پر لپیٹ دیا۔ وہ سفید رنگ کے اسکارف میں کملائی کملائی پھرتی۔ ایک دن نانی اسے باجی کے گھر لے گئی۔ باجی کے پاس ہمسائے کہیں جاتے تو اپنے بچے چھوڑ جاتے۔ باجی کا اصل نام کیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا۔ سب اسے باجی کہتے۔ وہ بے اولاد تھی۔ بچوں کو خوشی خوشی سنبھالتی۔ باجی ساریہ کی کہانی سن کر بہت حیران ہوئی۔

کیسی ماں ہے؟ کس دل سے اپنے جگر کا ٹکڑا خود سے الگ کیا؟ ماں کو نیند کیسے آتی ہو گی؟ سب بچوں میں یہی بھیجنے کو ملی تھی؟ وہ حیرت کی تفسیر بنی ساریہ کا معصوم چہرے دیکھے جا رہی تھی۔

اب وہ روز ساریہ کے آنے کی منتظر ہوتی۔ اس کا بس چلتا۔ وہ اسے اپنے پاس رکھ لیتی۔ اپنی بیٹی بنا لیتی۔ خدا نے اسے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ پہلے کبھی اسے کسی بچے پر اتنا پیار نہیں آیا تھا۔ نہ ہی کسی کو اولاد بنانے کا سوچا۔ وہ دونوں میاں بیوی خدا کی رضا میں راضی تھے۔ لیکن جب سے ساریہ آئی تھی۔ اس کی ممتا جاگ گئی تھی۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتی۔ یہی کوشش ہوتی۔ وہ ہر وقت اس کے سینے سے لگی رہے۔ ساریہ بھی یہاں خوش رہتی۔ جو سکون اسے یہاں ملتا وہ نانی کی آغوش میں نہیں تھا۔ وہ خود ہی نانی کی گود میں سر رکھتی۔ تو نانی کو اس پر پیار آتا۔ ورنہ اسے آس پڑوس اور رشتے داروں کی باتوں اور مسائل پر روشنی ڈالنے سے فرصت نہیں تھی۔

وہ کچھ دن سے سر پر بہت خارش کر رہی تھی۔ باجی نے نوٹ کیا تو اسے پاس بلا کر سر دیکھا۔ جہاں جوؤں کے ڈھیر لگے تھے۔

”بدبخت ماں نے اپنی بچی کیسے پھینک رکھی ہے“ ۔

وہ اکیلی جی بھر کر ساریہ کی ماں کو کوستی۔ اور ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے اس کی جوئیں کھینچ کر اس کے ہاتھ پر رکھتی۔ وہ اپنی ننھی ہتھیلی پر رکھ کر ناخن پر جو رکھ کر مارتی تو خوشی سے دوہری ہوئے چلے جاتی۔ جیسے بہت بڑا کام کیا ہو۔

اپنی نانی سے کہنا۔
”جوؤں والا شیمپو لگایا کرے۔“

وہ سر ہلاتی تھوڑی دیر کھیل کر اور باجی کو کچن میں کھانا پکاتے ہوئے چیزیں پکڑاتی نانی کے گھر کو بھولی ہوتی۔ کہ اچانک دروازہ کھٹکنے پر نانی کی آواز سنتے ڈھیلی چال چلتی گھر چلی جاتی۔ باجی بھی اس کے جانے کے بعد اداس ہو جاتی۔

”میاں جی ساریہ کی نانی سے بات کر کے دیکھیں۔ وہ بچی ہمیں دے دیں۔ میں اسے اپنی اولاد کی طرح چاہتی ہوں۔ ہماری کوئی بیٹی ہوتی تو بالکل ساریہ جیسی ہوتی۔“

”وہ بھلا اپنی بچی ہمیں کیوں دیں گے۔ کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ بیٹی سے زیادہ بچے نہیں سنبھالے گئے تو ماں نے بچی پاس بلا لی۔ انہوں نے کسی کو بچی گود نہیں دی۔ اگر بچی گود دیتے بھی تو ہم غریبوں کو کبھی نہ دیتے۔ ہمارے ایسے غریب بے اولاد جوڑوں کے لیے بچوں سے دل بہلا لینا کافی ہوتا ہے۔ بچہ گود لینا بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جو غریب کے بس کی بات نہیں“ ۔

وہ میاں کی بات سے اتفاق کرتے سر ہلا کر چپ ہو گئی۔ ساریہ کو ان کی طرف نہ آئے چار دن ہو گئے تھے۔ باجی کی بے چینی بڑھنی لگی۔ وہ بار بار دروازے کی طرف دیکھتی۔ کہیں ساریہ دروازے سے بھاگتی تو نہیں آ رہی۔ پانچویں روز وہ خود اس کی خیریت دریافت کرنے چلی آئی۔

ان کے گھر گہرا سناٹا چھایا تھا۔ حبس بھری دوپہر میں درختوں کی شاخوں پر چڑیوں کی چہکار بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ اس نے برآمدے کا جالی والا دروازہ ہلکا سا کھٹکھٹایا تو اندر سے شور کی آوازیں سن کر رک گئی۔

”اماں آپ کو میرے بیٹے پر ایسا گھٹیا الزام نہیں لگانا چاہیے تھا۔ وہ معصوم بچہ ایسی نازیبا حرکت نہیں کر سکتا۔“

”ارے چھوڑیں آپ! اماں کو پوتوں سے کوئی پیار نہیں۔ نواسی کی محبت میں اندھی ہو گئی ہیں۔“

”میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ ساریہ کے۔ نانی سے آگے کچھ بولا نہ گیا اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔

باہر باجی دل تھام کے رہ گئی۔

”ہائے میری بچی، کم بخت ماں کو رتی بھر اپنی معصوم بیٹی کا خیال نہیں۔ اسے نیند کیسی آتی ہو گی۔ وہ آنکھوں کی نمی چھپاتے گھر واپس لوٹ آئی۔

اس کے بعد نانی نے باہر گھومنا پھرنا ختم کر دیا۔ وہ گھر کی ہو کے رہ گئی۔ ہر وقت ساریہ کو ساتھ لگائے رکھتی۔ اور بیٹی کو بار بار کال کر کے اس کو پاس بلانے پر زور دیتی۔ وہ ماں کی ضد پر خفا ہوتی۔ جو اچانک ساریہ کے معاملے میں بدل گئی تھی۔ آخرکار کچھ دن بعد وہ واپس اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔ یہاں سب نے سکون کی سانس لی اور وہاں ماں اس پر ناراض ہونے لگی۔

”اگر تم تمیز سے اچھے بچوں کی طرح رہتی تو نانی تمہیں کبھی واپس نہ بھیجتی۔
ساریہ حیران پریشان خالی نظروں سے ماں کو دیکھنے لگی۔ کیا مائیں ایسی ہوتی ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments