زیرو اکاون


”کبیر بیٹا! تم بالکل بھی پریشان نہ ہونا۔“

ماں نے اپنے بیٹے کی بلائیں لیتے ہوئے کہا اور کھانسنے لگی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے محنت شاقہ نے اس کی حالت کو بد تر اور صحت کو گھن لگا دیا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے بیٹے کا چہرہ تھام کر بوسہ لیا۔

” جا بیٹا! خدا تمھارا حامی و ناصر ہو۔

کبیر بالکل چپ، نظریں جھکائے کھڑا تھا۔ اور اپنا روایتی بیگ اٹھا کر سڑک کی طرف بڑھنے لگا۔ ماں اسے نکڑ تک دیکھتی رہی مگر کبیر نے اک نظر بھی مڑ کے نہ دیکھا اور خیرات التفات سے محروم ماں آنکھوں کا دامن بھگو کر کچھ پڑھ کے پھونکتے ہوئے پھر صحن میں پڑی سلائی مشین پہ آ بیٹھی۔

کبیر امید و یاس آنکھوں میں سجائے گاڑی میں بیٹھا اسلام آباد کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔

گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ایک دم آنکھوں سے آنسو ٹپک کے دامن میں آ گرا اور دامن میں رکھے دونوں بازؤں میں محصور اسی روایتی بیگ نے اسے جذب کر لیا۔ یہ آنسو ماضی کی یاد کا سندیسہ تھا، جس نے کبیر کو ماضی کی غلام گردشوں میں پہنچا دیا۔ جہاں سوائے مہیب سایوں کے اور کچھ نہ تھا یا شاید چند تعبیر سے محروم خواب شکستہ۔

کبیر کو ایک ایک بات یاد آ رہی تھی کہ کس طرح والد کی وفات کے بعد ماں نے اپنا زیور فروخت کر کے مجھے پڑھایا لکھوایا اور ہمیشہ محنت کر کے مجھے احساس محرومی سے بچانے کے لیے ہر ضرورت کا خیال زمانے کے تقاضوں کے مطابق رکھا۔ ایم۔ اے کا داخلہ بھیجنے کے وقت تو گھر میں سجے وہ پیتل اور تانبے کے برتن بھی بیچ دیے جو ان کے مرحوم ماں، باپ کی نشانی تھی۔ میری اک اک خواہش کا خیال رکھا اور میری پرورش کی خاطر ساری جوانی تنہائی میں کاٹی اور والد صاحب کی وفات کے بعد ساری عمر میری دیکھ ریکھ میں گزار دی۔

کبیر ایک سمجھدار اور سلجھا ہوا لڑکا ہے جو ایک چھوٹے سے قصبے میں رہا، لیکن بی۔ اے میں بھی ہائی فرسٹ ڈویژن لے کر پاس ہوا اور اب ایم۔ اے میں بھی ڈسٹرکٹ ٹاپر ہے۔

بڑے شہر میں نوکری کے حصول کی خاطر کبیر اب اپنے قصبے کے ایک لڑکے وحید کے پاس اسلام آباد جا رہا ہے۔ جو وہاں ایم۔ بی۔ اے کر رہا ہے۔

کبیر نے فیض آباد اڈے پر پہنچتے ہی وحید سے رابطہ کیا، جو فوراً ہی اسے لینے کے لیے آ گیا۔ جیسے اسی کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھا تھا۔

” تم اتنی جلدی ہی مجھے لینے آ گئے؟“

کبیر نے پوچھا تو وحید کہنے لگا: ”نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں۔ بس! یہیں قریب کسی کام سے آیا ہوا تھا۔ باقی۔ سفر تو ٹھیک رہا نا۔“

”ہاں! ہاں! زبردست۔“
اب دونوں ٹیکسی میں گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ کبیر اک بچے کی نگاہوں سے عمارتوں کو دیکھتا رہا۔
وحید نے ٹیکسی والے کو ایک طرف رکنے کا کہا۔
وحید کی رہائش ایک بلند و بالا پلازے کے فلیٹ نمبر تین میں تھی اور ساتھ میں اک لڑکا اور تھا۔
کبیر نہا دھو کر فریش ہو گیا۔ پھر دونوں کھانا کھانے ہوٹل پہ چلے آئے۔
کھانے کے دوران ہی وحید نے کہا:

”کبیر! دیکھ، پریشان بالکل نہیں ہونا۔ ایک بات میں تمھیں سیدھی سیدھی بتا دوں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں نوکری ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لہٰذا صبح سے ہی ٹرائی شروع کر دے۔ بائے ہینڈ سی۔ وی ڈراپ کرنے کے ساتھ ساتھ آن لائن بھی جہاں جاب آتی ہے اپلائی کرتا جا۔ انشاء اللہ جلد ہی جاب مل جائے گی، اور تم تو ہے بھی ذہین۔ ٹیچنگ اکسپیرینس بھی ہے۔“

”ہاں! میں مختلف کلاسوں کو پڑھاتا رہا ہوں۔“
کھانا کھا نے کے بعد دونوں پھر فلیٹ پہ آ گئے۔
وحید نے کبیر کو ایک اچھی اور پروفیشنل سی۔ وی بنا کر دی اور کہا:

” صبح اس کی پندرہ، بیس کاپیاں کروا کے پورے پنڈی میں جہاں جہاں تم پیدل جا سکتے ہو جاؤ اور بائے ہینڈ سی۔ وی ڈراپ کرو۔ باقی باتیں کل ہوں گی۔“

سونے کے لیے دونوں بتیاں بجھا دی گئیں۔

کبیر بستر پہ نیم دراز امی کے بارے سوچ رہا تھا۔ حالانکہ دو دفعہ بات ہو چکی تھی۔ موبائل پہ امی کی تصویر دیکھتے دیکھتے ہی کبیر سو گیا۔

گھر تو امی نماز کے لیے جگا دیتی تھیں مگر یہاں کبیر دیر تک سوتا رہا۔ جب کبیر کی آنکھ کھلی تو اس نے وقت دیکھا، تقریباً دس بج رہے تھے۔ وحید سو رہا تھا اور دوسرا لڑکا شاید آفس چلا گیا تھا۔

کبیر نے وحید کو اٹھاتے ہوئے کہا: ”وحید! اٹھو، تم یونیورسٹی سے لیٹ ہو گئے ہو۔“
تو وحید سنی ان سنی کر کے پھر سو گیا۔

تقریباً دو بجے دونوں ناشتہ کر رہے تھے تو وحید بولا: ”یار! دیکھ، میرا ایم۔ بی۔ اے مکمل ہو چکا ہے مگر گھر والوں کو نہیں پتا۔ کیونکہ اس طرح گزارا نہیں ہو سکتا۔ اگر میں ان کو بتا دوں کہ پڑھائی مکمل ہو گئی ہے تو وہ مجھے فارغ بٹھا کے تو خرچہ نہیں دیں گے اور نہ ہی یہ برداشت کر سکیں گے کہ اتنا پڑھنے کے باوجود ہمارے بیٹے کو نوکری نہیں ملی۔ تم بھی میرے گھر مت بتانا۔“

” بھلا میں کیوں بتاؤں گا۔“
کبیر نے وحید کو تشفی دلائی، تو وحید کہنے لگا:

” آج تو سکول، کالجوں کو چھٹی ہو گئی ہو گی۔ مگر کل تم جلدی اٹھ جانا اور میرا انتظار کیے بغیر سی۔ ویز ڈراپ کر آنا۔“

اب دونوں فلیٹ پہ آ چکے تھے۔ وحید نے لیپ ٹاپ آن کیا اور کبیر کو سمجھانا شروع کر دیا۔

”دیکھو! آن لائن اخبار دیکھنا ہماری روز کی مشق ہے اور ہم ہر روز ہر اخبار اردو، انگریزی دیکھتے ہیں۔ جن میں اپنے متعلقہ جاب کا ایڈ ڈھونڈ کے اپلائی کرتے ہیں۔“

کبیر ہمہ تن گوش ہے۔ جیسے کوئی مذہبی درس سن رہا ہو۔
”کچھ آن لائن جاب کی ویب سائٹس بھی ہیں۔ ان کو بھی دیکھتے رہنا، انشاءاللہ جاب مل جائے گی۔“
کبیر اس دن شام تک اخبار دیکھتا رہا اور کچھ ویب سائٹس بھی دیکھیں۔

اگلے دن ایک بجے کے قریب، کبیر بائے ہینڈ سی۔ ویز ڈراپ کر کے فلیٹ پہ لوٹا تو وحید ابھی سو رہا تھا۔ کبیر نے زبر دستی اسے اٹھایا۔ وہ ابھی منھ ہاتھ دھو کر فریش ہی ہوا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لپک کے فون اٹھایا، تو حیرانی سے دیکھتے ہوئے کبیر کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔

کبیر ششدر رہ گیا اور سمجھا شاید محبوبہ کا فون ہو گا۔ مگر سر، سر اور جی سر کی تکرار نے کبیر کی حیرانی میں اضافہ کیا۔ جو اسے برابر ٹکٹکی باندھے متجسس نظروں سے دیکھے جا رہا تھا۔

وحید کال بند ہونے کے بعد اٹھ کر خوشی سے ناچنے لگا۔ جیسے اس کی لاٹری نکل آئی ہو۔

کبیر بیٹھا خوشی و حیرانی کے ملے جلے جذبات سے مسکرا مسکرا کر منھ اٹھائے اسے دیکھ رہا تھا۔ پھر اٹھ کر اسے پکڑتے ہوئے بولا :

”خیر تو ہے؟ کس کا فون تھا؟“
وحید نے کبیر کے گرد اپنے بازو حمائل کرتے ہوئے کہا :
”زیرو اکیاون۔“
زیرو اکیاون کہتے ہوئے وحید کی خوشی دیدنی تھی۔
” کیا، زیرو اکیاون؟“ کبیر نے پوچھا۔

وحید، کبیر کو لیے نیچے بیٹھ گیا اور موبائل سے آنے والی کال کا نمبر دکھایا۔ بار بار اسکرین پر انگلی رکھ رکھ کے دکھا رہا تھا۔

”یہ دیکھو! یہ“
” یہ تو کوئی لینڈ لائن کا نمبر ہے۔“
کبیر نے غیر سنجیدگی سے کہا۔
” ہاں! یہی تو خوشی کی بات ہے۔“
وحید نے بتا یا، تو کبیر نے تحیر سے کہا:
” یعنی؟“

”میرے بھائی دیکھ!“ وحید، کبیر کو بڑے آرام سے سمجھانے لگا ”یہ راولپنڈی اور اسلام آباد کا لینڈ لائن کوڈ ہے۔ اگر اس سے فون آئے گا تو کسی جاب کا ہی ہو گا نا۔“

”یعنی! انٹر ویو کی کال تھی۔“
” ہاں! بالکل، اور کل نو بجے پہنچنا ہے۔“
”مگر تم تو گیارہ بجے سے پہلے نہیں اٹھتے۔“
”او! میرے بھولے پنچھی۔ سوؤں گا، تو اٹھوں گا نا۔“
”اچھا! تم ساری رات انٹرویو کی تیاری کرو گے۔ اس لیے۔“

کبیر کے اس جملے پر تو وحید اتنا ہنسا، جیسے یہ اس کی زندگی کا آخری قہقہہ ہو۔ یا اس نے ابھی ابھی ہنسنا سیکھا ہو، کیونکہ ہنسی ملاوٹ سے بالکل پاک اور خالص تھی۔

” او! میرے بھائی“ وحید آنکھوں سے پانی صاف کرتے ہوئے ”میرا مطلب ہے کہ صبح کے انتظار میں سوئے گا کون؟“

کبیر نے مزید متجسس منھ بنا لیا۔
” جیسے غم والی رات نیند نہیں آتی، اسی طرح خوشی والی رات بھلا کون سوتا ہے؟“
شام، رات میں ڈھل چکی تھی۔
وحید، شیو اور بال بنوا کے آیا تھا اور اب نہانے کی تیاری میں تھا۔ کبیر اسے دیکھ کر بولا :
”اتنی تیاری جیسے کوئی محبوب سے ملنے جا رہا ہو۔“
وحید جو ٹاول کو ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا۔ تھوڑا سا قہقہہ لگانے کے بعد سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا :
” حقیقت تو یہ ہے میرے دوست ؛ بے روزگاری نے ہمیں عشق و محبت کا خیال ہی بھلا دیا ہے۔“

کبیر کو وحید کی اس بات سے بہت اچنبھا ہوا، اور وہ حیران ہوا کہ وحید بھی کسی سے۔ خیر، اگر وحید ادھر ایک منٹ بھی اور رکتا تو یقیناً رو پڑتا۔ اس لیے وہ جلدی جلدی غسل خانے میں گھس گیا۔

اگلے دن علی الصبح، وحید نے جلدی جلدی تیار ہو کے ٹیکسی پکڑی اور روانہ ہو گیا۔
کبیر نے پھر حسب معمول سی۔ وی کی پندرہ، بیس کاپیاں کروائیں اور پیدل ہی بائے ہینڈ ڈراپ کرنے نکل پڑا۔

کبیر آج جلد ہی کمرے میں لوٹ آیا۔ شاید اس سے بھوک برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ اس لیے فقط پانی پی کر ہی پڑا رہا۔ لیٹے لیٹے اسے بھی خیال آیا ؛کاش مجھے بھی زیرو اکیاون سے فون آ جائے۔

کبیر ابھی اسی سوچ میں تھا کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اس کی آنکھوں میں چمک آئی، چہرے پہ مسکان اور ماتھے پہ خوش بختی کی لہریں دوڑنے لگیں۔ وہ جھٹ سے موبائل کی طرف لپکا اور نمبر دیکھ کر افسردہ ہو گیا۔ حالانکہ، اس سے پہلے تمام عمر یہی نام اور نمبر اس کی زندگی تھا۔

” السلام علیکم! امی جان۔“

کبیر بوجھل لہجے میں آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔ جیسے بات کرنے کو اس کا دل نہ چاہ رہا ہو۔ دوسری طرف سے اس کی ماں کی لڑکھڑاتی آواز آ رہی تھی۔ جس میں لفظ کم اور کھانسی زیادہ تھی۔

”بیٹا! تم پریشان نہ ہونا، نوکری تو مل ہی جائے گی۔“
اس کے بعد مسلسل کھانسی۔
”امی! آپ دوائی لے رہی ہیں نا۔“

”مجھے چھوڑ بیٹا۔“ پھر کھانسی۔ ”میرا کیا ہے؟ میں نے تمھارے فون میں بیلنس کے لیے پیسے دے دیے ہیں۔ اور تو کھانا وغیرہ تو وقت پہ کھاتا ہے نا۔“

پھر کھانسی اور گلے کی خراشیں بلند ہوئیں۔
” جی امی!“
کبیر کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
” اچھا! ا چھا! پیٹ بھر کے کھانا۔ وہاں کے لوگوں کی طرح کم کم نہ کھانا۔ ٹھیک ہے؟“
”جی امی! ضرور۔“

کبیر یہ کہتے ہوئے ضبط نہ کر سکا، اس لیے فون بند کر کے اونچا اونچا رونے لگا۔ صرف رونے سے تسکین نہ ہوئی تو چیخنے لگا۔ مگر اس سے بھی اس کا دل ہلکا نہ ہوا۔

ادھر ماں فون کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی ہے :، لگتا ہے میرے پیسے ختم ہو گئے۔ جھوٹ جو بولتا ہے اور وہ بھی ماں سے۔ پھر ایسا تو ہو گا ہی۔ سمجھتا ہے کہ میں نہیں سمجھتی، کہہ رہا تھا کہ پیٹ بھر کے کھاتا ہوں۔ بھلا اس حالت میں کوئی پیٹ بھر کے کھا سکتا ہے؟ پگلا کہیں کا ۔ ”

ماں آسمان کی طرف منھ اٹھا کے ”اللہ! میرے بیٹے کی مشکلیں آسان فرما۔“
رات دس بجے کے قریب وحید فلیٹ پہ آیا تو کبیر نے فوراً تشویش سے پوچھا:
”ہاں! وحید کیا بنا؟“
”یار! انٹر ویو تو بہت اچھا ہو گیا ہے، بس! دعا کرو اللہ خیر کرے۔“
وحید نے شوز اتارتے ہوئے کہا۔
”اور اتنی دیر سے کیوں آئے ہو؟“

” یار! کیا بتاؤں تمھیں۔ دو سیٹیں اور دو ہزار امیدوار۔ ان میں سے پچاس انہوں نے بلوائے ہوئے تھے اور میرا نمبر تھا ستائیسواں۔“

”اور کھانا؟“
”کھانا تو میں نے کھا لیا تھا، اور تم نے؟“
”نہیں یار! میرے پاس پیسے نہیں تھے۔“
کبیر نے بتایا تو وحید چونک کر بولا:
” کمال کرتے ہو تم بھی۔ مجھے بتایا بھی نہیں؟“
”کیا بتاتا۔ ، کبیر رنجیدہ لہجے میں بولا“ تم صبح صبح جلدی میں تھے اور میرے پاس بیلنس بھی نہیں تھا۔ ”
”چلو! اٹھو اب، ابھی کھا کر آتے ہیں۔“
دونوں دوست کھانا کھانے ہوٹل چلے گئے۔
کھانا کھاتے ہوئے کبیر نے کہا :
” یار! آج امی کا فون آیا تھا۔“
” کیا کہتی تھیں؟“
”کچھ نہیں، مگر بیمار لگ رہی تھیں۔“
”تمھیں یہاں آئے ہوئے تقریباً دو ماہ ہو گئے ہیں۔ ایک دفعہ ہو ہی آؤ۔“
” وہ تو ٹھیک ہے مگر ! “
”مگر! کیا؟“
”مگر یہی کہ گھر جانے کے لیے بھی کرایہ چاہیے اور ادھر سے آتے ہوئے بھی۔“
”ہوں! “ وحید نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
” اور اصل پرابلم یہ ہے کہ اگر زیرو اکیاون سے فون آ گیا تو فوری کیسے پہنچوں گا؟“
” بالکل! یہ بات تو میرے ذہن میں آئی ہی نہیں۔ چلو، خیر! اللہ آسانی پیدا کرے۔“
وحید نے تاسف کے لہجے میں دعائیہ جملہ کہا تو کبیر نے آہستہ سے آمین بولا۔

اگلے دن کبیر غسل خانے سے نکلا تو اس کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے فوراً لپک کر فون اٹھایا تو نمبر دیکھ کر باغ باغ ہو گیا یعنی کال زیرو اکیاون سے تھی۔ اس کا چہرہ خوشی سے قدرے احمری ہو گیا۔

ساری بات لڑکھڑاتی آواز میں ہوئی۔
کبیر نے فوری وحید کو اٹھایا جو ابھی بھی خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔
کبیر نے بتایا کہ انہوں نے سکول بلایا ہے اور ارجنٹ ٹیچر چاہیے۔
وحید نے کہا کہ تم ابھی چلے جاؤ، صرف گیارہ ہی تو بجے ہیں۔ اور آج ہی مل آؤ۔
کبیر یہ سوچ کر اٹھا کہ بارہ تو پہلے ہی بجے ہوئے ہیں۔ اب مزید کیا دیکھنا باقی ہے۔
کبیر نے تیار ہو کے وحید سے کچھ پیسے لیے اور انٹر ویو کے لیے کالج پہنچ گیا۔
تقریباً چار بجے کبیر فلیٹ پہ واپس لوٹا۔
”کیا بنا؟“
وحید نے بے چینی میں پوچھا تو کبیر نے ٹائی اتارتے ہوئے کہا :
”یار نو ہزار تنخواہ کہہ رہے ہیں، میں نے کہا یہ بہت کم ہیں۔ کم از کم دس ہی کر لیں، لیکن نہیں مانے۔“
” تو تم نو پر ہی جوائن کر لو۔ آگے مزید ڈھونڈتے رہیں گے۔ “

” یہی تو مسئلہ ہے۔ پرنسپل کہہ رہا تھا کے دو سال کا کنٹریکٹ بھی کرنا ہو گا، اور میرے اوریجنل ڈاکومنٹس بھی انہی کے پاس رہیں گے۔“

”اچھا! واقعی، یہ توبڑا گمبھیر مسئلہ ہے۔“
وحید نے ذرا تشویش سے کہا

” اسی لیے میں نے“ ہاں ”نہیں کی اور نہ ہی“ ناں ”کی ہے۔ بلکہ کہا ہے کہ آپ کو کل تک سوچ کے بتاؤں گا۔ جب میں نے تنخواہ کے بڑھانے کی بات کی تو آگے سے کہنے لگے ؛ میرے پاس پہلے ایک ایم۔ فل پڑھاتا رہا ہے جو دس ہزار لیتا تھا، آپ نے تو صرف ایم۔ اے کیا ہوا ہے۔“

” حالات تو ایسے ہیں کہ جان تک گروی رکھ سکتے ہیں۔ مگر “
”مگر کیا؟“ کبیر نے پوچھا۔

”مگر یہی کہ جس کام میں آگے بڑھنے کی تحریک نہ ہو، اسے ترک کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ نہیں تو انسان بھی کھڑے پانی کی طرح بد بو دار اور غلیظ ہو جاتا ہے۔ ”
” میرا بھی یہی خیال ہے۔“

دونوں دوست اٹھے اور تقریباً شام پانچ بجے کے قریب ناشتہ کرنے چلے گئے۔ کیونکہ کبیر نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اور وحید ابھی بستر سے ہی نہیں نکلا تھا۔

وحید اور کبیر دونوں سنڈے کے اخبار دیکھ رہے ہیں۔ سب ایڈز دیکھنے کے باوجود انہیں ایک بھی اپنے متعلقہ جاب کا ایڈ نہ ملا۔

وحید کو فون آیا؛ ہیلو! جی جناب۔ ، حیرت سے، اچھا؟ ، خوشی سے، واؤ! میں ابھی دیکھتا ہوں۔ جناب ابھی کے ابھی۔ او کے، او کے۔ اللہ حافظ۔ ،

کبیر نے تجسس ختم کرنا چاہا : ”کس کا فون تھا؟“
وحید خوشی سے ڈان اخبار نکالتا ہے۔ اس میں جاب کے ایڈز دیکھنے لگا۔
”یار! یہ تو ہم دیکھ چکے ہیں۔“
کبیر نے کہا تو وحید بولا :

” نہیں! یہ آج کا نہیں بلکہ جمعے کا ہے۔ جو ہم نے نہیں دیکھا تھا اور اب ہمارے کولیگ صاحب جو گھر گئے ہوئے ہیں انہوں نے فون کیا تھا۔“

” اچھا! تو وہ بھی جاب کے ایڈز دیکھتے ہیں؟“
کبیر نے تحیر اور استفہام کے ملے جلے انداز میں کہا۔

” بس یار! یہ ہمارے ملک کی بد نصیبی ہے کہ بڑے سے بڑا جاب ہولڈر بھی، آگے نوکری کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اتنی توجہ کام کو نہیں دیتا، جتنی اگلی نوکری کے حصول میں صرف کرتا ہے۔“

وحید نے ایڈ ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ بات کی۔

وحید بڑی بے چینی سے تمام صفحات دیکھتا جا رہا ہے اور کبیر پیاسی عورت کی طرح کمپیوٹر کو نوجوان مرد سمجھ کر دیکھ رہا ہے۔ دیکھتے دیکھتے وحید کے ہاتھ پہ پانی گرا، تو اس نے چونکتے ہوئے کبیر سے کہا :

”یار! یہ کیا، تم رو رہے ہو؟“
”نہیں تو ۔“
کبیر نے آنکھیں صاف کیں، جن سے اب بھی پانی گرنے والا تھا۔
” تو پھر، یہ آنسو کیسے؟“
” او یار! آنکھ نہیں جھپکی شاید، اس لیے پانی آنکھ میں اکٹھا ہو گیا تھا۔“
آخر ایڈ مل گیا۔
دونوں بہت خوش تھے اور اسی خوشی میں رات ساتھ والے کمرے سے پانچ سو ادھار لے کر کڑاہی کھائی گئی۔

کبیر صبح صبح انٹر ویو کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ اس کے گھر سے فون آیا۔ موبائل دیکھتے ہی بولا: لگتا ہے آج نوکری مل جائے گی جو عین اس وقت ماں نے یاد کیا ہے جب ان کی دعاؤں کی ضرورت تھی۔

کبیر نے کال رسیو کی تو آگے سے اس کا ہمسایہ بولا:

”کبیر بھائی! آپ کی امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ ان کو وقفے وقفے سے دورے بھی پڑ رہے ہیں۔ کھانستی ہیں تو منھ سے خون بھی آ جاتا ہے۔ قصبے میں سب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ اب شہر لے جانا پڑے گا۔ مگر تمھاری ماں جب بھی ہوش میں آتی ہے تمھیں ہی پکارتی ہے۔“

کبیر نے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا:
”انشاء اللہ! میں شام تک آ جاؤں گا۔“
”کبیر بھائی! سچ بتاؤں، تو آپ کی ماں کے پاس وقت تھوڑا ہی ہے۔ آگے آپ بہتر سمجھتے ہیں۔“

کبیر نے اک نظر اپنے سوئے ہوئے دوست پہ ڈالی۔ پھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کے خود کو غور سے دیکھنے لگا۔ ایک دم والدہ کا چہرہ سامنے آ گیا، جو گویا ہوا:

” بیٹا! کن سوچوں میں گم ہو۔ جاؤ اپنے انٹر ویو کے لیے، مجھے کچھ نہیں ہونے والا۔ میری دعائیں تمھارے ساتھ ہیں، تم ضرور کامیاب ہو گے۔ جا بیٹا جا۔“

کبیر نے اپنے آنسو صاف کیے اور ڈاکومنٹس کی فائل لے کر فلیٹ سے باہر چلا گیا۔
کبیر پچھلے پہر فلیٹ میں واپس آیا، تو وحید نے آتے ہی پوچھا :
”ہاں! کیا رپورٹ ہے؟“
کبیر کی صورت اتری ہوئی تھی۔

” کیا بات ہے؟ نہیں نوکری ملی، تو کوئی بات نہیں مگر مایوس مت ہونا۔ یہ بہت بڑی نا انصافی ہے اپنے آپ سے، اپنی حیثیت سے، اپنے انسان ہونے سے۔“

کبیر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔ وحید نے چپ کرانے کی کوشش کی تو بپھرے ہوئے شیر کی طرح دھاڑنے لگا۔

”کون سی نا انصافی، جس نے انصاف ذات دیکھا ہی نہ ہو وہ کیا جانے گا ایسی بھول بھلیوں کو ۔ کون سا اپنا آپ، وہ اپنا آپ کہ جس سے اپنا ضمیر تک مطمئن نہ ہو سکا۔ یار! کون سی حیثیت، جس نے عمر بھر بغلیں جھانکیں ہوں، وہ اب حیثیت کا سوچے گا۔“

کبیر آپے سے باہر ہو گیا۔ وحید اس کو پکڑ کے بٹھانا چاہ رہا تھا مگر وہ اس کو پیچھے جھٹکتے ہوئے پھر دھاڑا:

”بھلا وہ شخص انسان ہونے کے معنی کیا جانے گا، جس کی ماں بستر مرگ پہ حالت نزع میں آخری دیدار کے لیے پکار رہی ہے مگر وہ۔ وہ دنیا داری کے احمقانہ گورکھ دھندے میں الجھ کے رہ گیا ہے۔ جیسے کسی نے بڑی ہوشیاری اور فراست سے الجھایا ہو۔“

وحید نے کبیر کو سینے سے لگا لیا اور دونوں دوست فلیٹ کے عین وسط میں کھڑے رو رہے تھے۔ جیسے خدائی، آپ اپنا تماشا دیکھ رہی ہو۔

دونوں دوست ہوٹل پہ رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ کبیر کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں۔
” اچھا! تو آج ٹیسٹ ہوا ہے۔“
وحید نے تصریحاً کہا تو کبیر بولا:
” اور اگر میں ٹیسٹ پاس کر گیا تو کل انٹر ویو کی کال آ جائے گی۔“
”انشاء اللہ! تو ضرور پاس کرے گا۔“
” انشاءاللہ۔“
”گھر امی سے بات ہو گئی تھی؟“

”ہاں! ہو گئی تھی۔ شہر ہسپتال میں ایڈمٹ ہیں۔ کل اگر انٹر ویو کی کال نہ آئی، تو پھر میں گھر روانہ ہو جاؤں گا۔“

” اللہ! خیر کرے گا۔“
دونوں نے ایک زبان ہو کے انشاء اللہ کہا۔

صبح کبیر غسل کر کے آئینے کے سامنے کھڑا بالوں کو تیل لگا رہا ہے۔ ساتھ ہی دیوا ر پہ لگی گھڑی پر نظر ڈالتا ہے۔

” دس بج رہے ہیں مگر ابھی تک کال نہیں آئی۔ پتا نہیں میں پاس بھی ہوا ہوں کہ نہیں۔“
اتنے میں فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ کبیر موبائل کی طرف لپکتا ہے جو پہلے ہی کال کا شدت سے منتظر تھا۔
نہ گھر کا نمبر اور نہ ہی زیرو اکیاون۔
پتا نہیں یہ کس کا نمبر ہے۔ کبیر نے بڑبڑاتے ہوئے کال رسیو کی:
”کبیر بھائی؟“
” جی! میں کبیر، مگر آپ کون؟“
”میں آپ کا ہمسایہ، ہسپتال سے بول رہا ہوں۔“
”جی! سب خیریت تو ہے نا۔“

”کبیر بھائی! میں بڑے افسوس سے کہہ رہا ہوں کہ آپ کی والدہ اب حیات نہیں رہیں۔ آخری لمحے تک وہ آپ کا نام لیتی رہی ہیں۔ جیسے آپ کا نام ان کے لیے کلمے سے بھی بڑھ کے تھا۔“

کبیر وہیں روتے ہوئے زمین پہ بیٹھ گیا۔ رونے کی آواز سن کے وحید بھی اٹھ بیٹھا، جس کے گلے لگ کے کبیر نے وقتی طور پر اپنا دل ہلکا کیا۔

وحید نے اسے فیض آباد سے اپنے قصبے کو جانے والی گاڑی پہ بٹھا یا اور ٹکٹ بھی کروا دی۔

تقریباً بارہ بجے گاڑی اڈے سے نکلی۔ خوشیوں کی سوغات کی خاطر آنے والا شخص، غم کی بارات لے کر واپس لوٹ رہا تھا۔

تین بجے کے قریب کبیر کے موبائل کی گھنٹی بجی، جو اسے پتا نہ چلی۔ کیونکہ وہ بازوؤں میں سر چھپائے رو رہا تھا۔

گھنٹی دوبارہ بجی، تو ساتھ ہی بیٹھے بزرگ نے کبیر کو مطلع کیا۔
کبیر نے پینٹ کی جیب سے موبائل نکال کے دیکھا تو فون زیرو اکیاون سے آیا تھا۔
کبیر نے کال رسیو کی تو آگے سے اک لڑکی اپنی نرم آواز میں بولی:

” مسٹر کبیر! آپ ٹیسٹ میں پاس ہو گئے ہیں۔ لہٰذا انٹر ویو کے لیے کل صبح پورے نو بجے پہنچ جائیے گا۔ شکریہ!“

کبیر نے کال سننے کے بعد تھوڑا تبسم کیا اور پھر بے ساختہ اونچی آواز میں چیخ ماری۔ تو ساتھ بیٹھے بزرگ نے پوچھا :

”بیٹا! خیریت تو ہے؟ جب سے تم گاڑی میں بیٹھے ہو اب سے رو رہے ہو۔ اپنی آنکھیں دیکھو، انگارہ لگ رہی ہیں۔ اور اب یہ چیخ۔“

”بزرگو! میری والدہ فوت ہو چکی ہے اور میں اسی کی تجہیز و تکفین کے لیے گھر جا رہا ہوں۔ مگر “
” مگر کیا بیٹا۔ ؟“
”مجھے جاب کے لیے انٹر ویو کال آ گئی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں، میں چیخوں نہ تو اور کیا کروں۔ کیا کروں؟“
کبیر نے روتے ہوئے بزرگ کو اپنی رام کہانی سنائی، جس کے تانے بانے بالکل سمجھ سے باہر تھے۔
”بیٹا! اک بات کہوں۔“
بزرگ نے کبیر کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”میری مانو تو واپس اسلام آباد چلے جاؤ۔ ماں تو پہلے ہی نہیں رہی اور اب جاب بھی گنوانا چاہتے ہو۔“
کبیر کے انگارے حیرت سے اور بھی دہکنے لگے۔

”ملکی حالات کا تقاضا تو یہی ہے بیٹا کہ تم جاب کے حصول کی کوشش کرو۔ نہ جانے پھر یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ ماں کا آخری دیدار بھی قربان کر کے جاب مل جائے، تو میں سمجھتا ہوں غنیمت ہے۔“

کبیر نے اک نظر بزرگ کے چہرے پہ ڈالی اور پھر اسے ایک بہت بڑا محسن سمجھتے ہوئے لپٹ گیا۔
کبیر اٹھا، اس نے گاڑی رکوائی اور اتر گیا۔
۔ ۔

عثمان غنی رعد
Latest posts by عثمان غنی رعد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments