اشرافیائی ریاست اور سرکاری ہسپتال


کل مورخہ 30 / 06 / 2022 کو مجھے گوجرانوالہ ہسپتال جانا تھا۔ کالج سے فارغ ہو کر میں ہسپتال کے لئے چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد میں ہسپتال پہنچ چکا تھا۔ ٹراما سینٹر کے سامنے پہنچ کر میں نے اپنے بہنوئی کو فون کیا کہ کس وارڈ میں ہیں آپ۔ انہوں نے کہا کہ آپ وہاں ہی رکیں میں آ رہا ہوں۔ وہ ٹراما سینٹر سے باہر آئے اور ہم اوپر ای۔ این۔ ٹی وارڈ میں چلے گئے۔ مریض کو تھوڑی دیر پہلے آپریشن تھیٹر سے وارڈ میں شفٹ کیا گیا تھا۔

مریض ابھی بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ میں اور میرا بہنوئی قریب خالی بینچ پر بیٹھ گئے۔ اتنی دیر میں درمیانے قد کی ایک نرس وارڈ میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں دوائیوں والی ٹرے تھی۔ اس نے وہ ٹرے وہاں پر پاس پڑے ٹیبل پر رکھی اور مریض کو بوتل لگانے کی تیاری کرنے لگی۔ اسی اثناء میں اس نے دیکھا کہ بیڈ کے پاس تو سٹینڈ ہی نہیں ہے۔ نرس نے ایک حکم جاری کیا۔ سٹینڈ لے کے آئیں۔ میں نے کہا کہاں سے لے کے آئیں۔ ہمارے مریض والے بیڈ کے پاس ہی ایک بیڈ پر سٹینڈ تھا۔ میں نے کہا یہ لے آئیں کہتی ہے یہ تو مصروف ہے۔ میں نے پھر استفسار کیا کہ پھر کہاں سے لے کے آئیں یہ بھی بتا دیں۔ پھر اس نے کمرے میں نظر دوڑائی اور کہا کہ وہ لے آئیں۔ ایک بیڈ کے پاس سٹینڈ پڑا تھا۔ وہاں اس بیڈ پر ایک بچی مریض تھی۔

خیر نرس نے اپنا کام مکمل کرنے کے لئے مریض کو ایک چھوٹی بوتل لگائی۔ نرس کچھ جلدی میں تھی بوتل لگانے کے بعد وہ اس بیڈ پر گئی جہاں سے اس نے یہ سٹینڈ منگوایا تھا۔ وہاں پر اس بچی کو ایک چھوٹی بوتل لگائی اور اس مریضہ بچی کی ماں کے ہاتھ میں وہ بوتل تھما دی۔ بوتل ختم ہونے میں کچھ دیر تو لگتی ہے۔ ماں بیچاری کیا کرتی اس نے وہ بوتل اس وقت تک اٹھائے رکھی جب تک وہ ختم نہ ہو گئی۔ میں یہ سارا سین دیکھ رہا تھا۔ نرس دوبارہ ہمارے بیڈ پر آئی اس نے لگی ہوئی بوتل کو سپیڈ اپ کر دیا۔

جو جلد ہی ختم ہو گئی۔ پھر اس نے مریض کو بڑی بوتل لگا دی اور اپنا سامان سمیٹ کر وہاں سے چلی گئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے جس بیڈ پر وہ مریضہ بچی تھی اور اس کی ماں بوتل ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھی اس کی ایک تصویر بنا لی۔ دنیا کی ایک نیو کلئیر، اسلامی اور لمبڑ ون فوج رکھنے والی اشرافیائی ریاست کے پاس اپنے عوام کو دینے کے لئے بنیادی سہولتیں نہیں ہیں۔ لیکن اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لئے روز نئے نئے میزائلوں کے تجربات کرنے کے لئے اربوں اور کروڑوں ضرور کہیں نہ کہیں سے کاسہ لیسی کر کے مل ہی جاتے ہیں۔

اسی اثناء میں ایک اور مریضہ اس کمرے میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کے لواحقین اور مریضہ کو سٹریچر پر ڈال کر لانے والے دوسرے سرکاری کارندے بھی تھے۔ مریضہ کو ایک بیڈ پر ڈال دیا گیا۔ اس کا خاوند بھی ساتھ تھا۔ یہ سب کام وہ خود بھی ساتھ مل کر کر رہا تھا۔ کام ختم ہونے کے بعد سرکاری کارندوں نے کندھے اچکتے ہوئے۔ لو جی باؤ جی فیر اسی ہون چلنے آں (باؤ جی اب ہم جا رہے ہیں ) وہ باؤ جی کو اپنی بات سمجھا چکے تھے کہ کوئی مال پانی لگاؤ ہمیں۔

سرکار ہسپتال میں کام کرنے والے یہ کارندے کسی میراثی سے کم نہیں ہوتے ہیں۔ جس طرح میراثی ایک بارات میں ڈھیٹ سے ڈھیٹ باراتی کی جیب سے بھی پیسے نکلوا لیتے ہیں اسی طرح سرکاری ہسپتال میں بھی ایسا ہی ہو تا ہے۔ یہ کارندے، وارڈ بوائے، صفائی والے اور دیگر چھوٹا عملہ سب اس کام میں ملوث ہوتا ہے کہ ان کی کچھ نہ کچھ جیب گرم کی جائے۔ خیر یہ سرکاری کارندے ایک میراثی کی طرح باؤ جی کی جیب سے پیسے نکلوانے میں کامیاب ہو گئے۔

وہ اپنا سامان لے کر باہر کے دروازے تک پہنچ چکے تھے۔ باؤ جی نے کچھ پیسے اپنے بٹوے سے نکال کر ان کو دے دیے۔ سرکار کے ہر ادارے میں ایسے میراثی آپ کو ضرور ملیں گے جو آپ کو اپنا جائز کام کروانے کے لئے بھی اتنا ذلیل کریں گے کہ آپ ان کے قدموں میں گر کر نہ صرف معافی مانگیں گے بلکہ جیب بھی گرم کریں گے تاکہ آپ اپنا جائز کام کروا سکیں۔

میں اور میرا بہنوئی باتوں میں مشغول تھے۔ اتنی دیر میں نرس نے ایک دفعہ بھی مریضوں کو دوبارہ چیک نہیں کیا۔ چھوٹی بچی کی والدہ بوتل کو تھامے کھڑی تھی۔ بوتل ختم ہو جانے پر انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس بوتل کو بند کیا۔ بچی کے ہاتھ سے اس بوتل کو اتارا لیکن نرس وہاں پر نہیں آئی۔ یہ نرس کا اخلاقی فرض بھی تھا پیشہ وارانہ تقاضا بھی کہ جس جس مریض کو وہ بوتل لگا کر گئی ہے ان کو دوبارہ بھی چیک کرے۔ خیر اس نے ایسا نہیں کیا۔

میرے بہنوئی کہتے ہیں یار بہت ہی برا حال ہے۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے؟ کہنے لگے ڈاکٹر بالکل کوئی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ پھر ان کا عملہ بہت بدتمیز ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ جب آپریشن ہو گیا تو اندر سے ایک بندہ آیا کہتا سانوں مبارک دیو۔ ہسپتال میں مبارک سے مراد کوئی مال پانی لگاؤ۔ پیسے دو۔ کہتے ہیں اس کو دیے۔ پھر ایک گارڈ آ دھمکا۔ کہتا باؤ جی آپریشن ٹھیک ہو گیا ہے مبارک ہو۔ اس کو کچھ دیے۔ پھر آخر میں جو لوگ مریض کو سٹریچر پر ڈال کے وارڈ میں شفٹ کرتے ہیں ان بھکاریوں کی باری آتی ہے۔

بندہ اس قدر زچ ہو جاتا ہے کہ میں کہاں پھنس گیا۔ گدھ نما انسانوں کے اس معاشرے میں ایک غریب آدمی کا جینا محال ہو چکا ہے۔ مریض کو وارڈ میں شفٹ کرتے ہی وہ اپنا لاگ ایسے مانگتے ہیں جیسے ان کی بہن کا رشتہ پکا ہو گیا ہو۔ خیر چار و ناچار لواحقین کو ان کی جیب گرم کرنا پڑتی ہے۔ میں نے اپنے بہنوئی سے کہا کہ آپ نے کیوں دیے ان کو پیسے۔ کہتے ہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی غلط کام ہی نہ کر دیں۔ میں نے کہا ایسا نہیں ہوتا ہے۔

خیر یہ سب کچھ روز اول سے اس ملک میں ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یہ تب تک ہوتا رہے گا جب تک عوام اشرافیائی ریاست کی بنیادیں رکھنے والی اشرافیہ کے حلق سے اپنے حصے کا نوالہ نہیں چھینے گے۔ یہ کب ہو گا یہ عوام کو ہی پتا ہے۔ عوام اس قدر سادہ لوح ہیں کہ سرکاری ہسپتال جہاں پر علاج تو فری کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن وہاں پر بھی عوام کی جیب پر طرح طرح سے ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ کبھی وارڈ بوائے تو کبھی چوکیدار۔

ویسے چوکیدار ہونا بھی کتنا مزے کا کام ہے۔ پاکستان میں چوکیدار بہت فائدے میں ہیں۔ چوکیدار خود چوریوں میں ملوث ہیں تو پکڑنا کس نے ہے ان کو۔ اگر کوئی ایسا اقدام کرے بھی تو اس کو غائب ہی کر دیا جاتا ہے۔ لہذا آپ بھی پاکستان کے چوکیدار بننے کی کوشش کریں اور دنیا بھر میں پاپا جونز کی برانچیں کھول کر دنیا بھر کی سیر کریں اور آنے والی نسلوں کے لئے خزانوں کے منہ کھول جائیں۔

پاکستان ایک ملک نہیں یہ دو دنیائیں ہیں، دو انتہائیں ہیں۔ ایک دنیا وہ ہے جہاں پر غریب غرباء، نشہ کرنے والے، چوری چکاری، ریڑھی بان، رکشا چلانے والے، نان بائی، نائی کی دکان چلانے والے لوگ رہتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں اشرافیائی ریاست کے دلالوں نے یہ بات ڈال دی ہے کہ غربت میں جتنی بھی مشکلات اٹھائیں گے اس کا اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا اور ساتھ ہی ساتھ انعام و کرام بھی۔ سکھ چین بھی ہو گا۔ دودھ اور شہد کی نہروں میں نہلا یا جائے گا۔ پھر آپ کو کوئی دکھ اور تکلیف بھی نہیں ہو گی۔ گند گی، بے چارگی، بے بسی اور غربت ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جہاں پر حب الوطنی اور مذہب کا دارو بہت بکتا ہے اور بکتا رہے گا اور اس کے سہارے ان کے سب غم اور مشکلات دور کی جاتی ہیں۔ تعلیم، علاج و معالجہ کی سہولتیں ان کے لئے ناپید ہیں۔

دوسری دنیا وہ ہے جہاں پر عیش و عشرت ہے۔ آسائش و آرام ہے، بے فکری ہے۔ اس آسائش و آرام کا سارا بوجھ پہلی دنیا برداشت کرتی ہے کیوں کہ ان کو دوسری دنیا سے بہت زیادہ محبت ہے اور وہ اپنا سب کچھ اس دنیا پر قربان کرنے کو تیار ہیں۔ پہلی دنیا کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا سب کچھ ان لوگوں کے لئے ہی تو ہے۔ یہ ہی تو ہمارے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں۔ اس دنیا میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں جس میں جج، جرنیل۔ جاگیر دار، ملاں اور رسہ گیر شامل ہیں۔ یہ ہی دنیا اصل میں پاکستان کی اصل دنیا ہے۔ ان کے لئے سب کچھ میسر ہے۔ پہلی دنیا کے لوگ ہمیشہ کی طرح اپنا سکھ دکھ سب کچھ دوسری دنیا کے لوگوں پر قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments