مشترکہ گھریلو رہائش کے معمول کے مسائل اور گھر کے ذمہ داران کا کردار


گھر وہ واحد جگہ ہے جہاں پر صورتحال باقی ہر جگہ سے مختلف ہوتی ہے وہاں ماحول بنانا ہوتا ہے بلکہ گھر کے باہر ماحول میسر ہوتا ہے۔ ہر گھر میں مختلف نوعیت کے مسائل ہوتے ہیں ساس اور بہوؤں کے ہر گھر میں ایک جیسے ہوتے ہیں مگر باقی مسائل بڑے درمیانے چھوٹے گھر کے مختلف ہوتے ہیں بلکہ مشترکہ خاندان میں حیرت انگیز مسائل ہوتے ہیں جن میں بیشتر بتانے کے قابل بھی نہیں ہوتے مگر برداشت کرنا لازمی امر ہوتا ہے بشرطیکہ آپ یہ طے کر لیں کہ رہنا اسی گھر میں ہے تو۔

میرے آج کے موضوع میں ہر گھر کی چھوٹی موٹی کہانیاں ملے گی مگر وضاحت کے ساتھ نہیں ہوگی کیونکہ ہر کہانی کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے ہزاروں مضامین یا کئی کتابیں لکھنی پڑھیں گی بالخصوص مشترکہ گھرانے میں ایسے مناظر معمول کی بات ہوگی۔ دوستوں گھر خالی بھی اچھا نہیں لگتا گھر بھرا ہوا بھی اچھا نہیں لگتا کبھی انسان سکون حاصل کرنے کے لیے گھر میں رہنا پسند کرتا ہے تو کبھی اسی سکون کے لیے گھر سے باہر رہنا پسند کرتا ہے۔ بہرحال دیگر امور کے علاوہ انسان گھر کے معاملے میں زیادہ اسٹریس کی زد میں رہتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ گھر کے مسائل جو معمول ہوتا ہے۔ جیسے بیماریوں میں شوگر کا مسئلہ بھی معمول ہوتا ہے بس دونوں کو مینیج یا ہینڈل کیا جاسکتا ہے ختم نہیں ہوتے اور دونوں میں احتیاطی تدابیر کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

دوستوں کچھ ایسے اقدامات جو مزید پریشانی کا سبب بنتے ہیں جس کی وجہ سے گھر کے آنگن میں تفتیش کے لیے کھوجی اقدام کرنا میں سمجھتا ہوں احمقانہ اقدام ہے کیوں کہ جہاں برتن زیادہ ہوتے ہیں وہاں ٹکراؤ واجب ہوتا ہے تو وہ آواز سننے کی سکت مزید تشویش میں ڈالتی ہے کیونکہ ٹکراؤ عارضی ہوتا ہے مگر اس کی گہرائی میں جانے کے بعد یہ مستقل اذیت کا سامان بن جاتی ہے۔ تو اس عمل سے بچنے کے لیے موقع پر گھر پر موجود نہ ہونا بھی غنیمت ہے اور موجود ہو کر تماشا دیکھتے ہی اگر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں تو گھر سے باہر جانا عقل مندی کیونکہ گھر میں عورتیں بالخصوص ماں اور بیوی کی شکل میں کسی مسئلے پر یک طرفہ فیصلہ پر مطمئن نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ عورتیں ہیں ان کا دوران لڑائی بات کو سمجھنے یا تسلیم کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ کیونکہ لڑائی کسی بھی معاملے پر ہو قصور وار آخر میں بیٹے کی شکل میں یا شوہر کی شکل میں مرد کو ہی ہونا ہے۔

میرا ماننا ہے مرد حضرات کو مڈل یا لور کلاس گھرانوں میں جہاں بہوؤں کی مقدار زیادہ ہو اور بچوں کی تعداد بھی وہاں اپنے اندر ایسا رباب رکھنا ہوتا ہے جان بوجھ کر کہ انتہائی قریبی شخص بھی اپنے حکم کے تابع رکھنے کی حماقت نہ کرسکے جس کو آپ بیوی تشبیہ دے سکتے ہیں۔ کیوں کہ جوائنٹ فیملیز میں گھر کے کام بچوں کی لڑائی بیوی کو زیادہ ٹائم دینے یا ماں کو زیادہ ٹائم دینے وغیرہ جیسے روز کے مسائل پر بھڑک جانا یا مردانگی دکھانا کسی خطرہ سے کم نہیں ہوتی اس موقع پر ہر مرد اپنے حساب سے ڈیل کرتا ہے کچھ مسئلہ حل کرلیتے ہیں کچھ مسئلے کو مزید طول دینے کا سبب بنتے ہیں بالخصوص جن میں چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے یا جن کے اندر جذباتی پن زیادہ ہوتا ہے۔ ماں اور بیوی دونوں قریبی ہوتیں ہیں اور جب دونوں ایک ساتھ ہوں تو ساتھ رہنا غنیمت اگر سمجھوتہ برداشت کا مادہ کم ہوا تو سمجھو قیامت۔

آپ عورتوں کے معاملے میں کتنے بھی سنجیدہ ہیں مگر گھر کے معاملے میں عورت اور مرد کے معیار میں تفریق لازمی ہے جبکہ ہر جگہ محبت کا مطلب جھکاؤ نہیں ہوتا اپنی حیثیت میں مزید اضافے کا ابلاغ ہوتا ہے۔ اور اس کو اگر آپ سمجھ کر بھی کر لیں تو مشترکہ رہائشی گھرانے میں یہ مینیج کرنے کا بہترین فارمولا ثابت ہوتا ہے کافی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے کم از کم لڑنے والی صورتحال مرد کی موجودگی میں ظاہر نہیں ہوگی یا اس کی موجودگی میں ایسی کسی بات سے گھر کی عورتیں کترائیں گی جس سے تکرار یا تضاد ہونے کا خطرہ پیدا ہو اس عمل سے وہ واحد مرد کسی حد تک سخت مزاج تو تصور ہوتا ہے۔ مگر کم ازکم اس کی وجہ سے گھر کا ماحول نرم رہتا ہے بعض اوقات شوق سے ایسے مرد نہیں بنتے بلکہ وہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے یہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔

مرد کے گھر میں داخل ہوتے ہیں خاموشی کا منظر اس کے مرد ہونے کا احساس ہوتا ہے اور اگر کوئی مسئلہ گھر میں پیدا ہو جائے کوئی ناچاقی یا لڑائی تو آپ کو ہجوم میں کسی کے اچھے یا برے ہونے کا اندازہ نہیں لگ سکتا نا ہی آپ کسی ایک کو کم تر یا کسی ایک کو برتر تسلیم کر سکتے ہیں۔ اسی لیے اس صورتحال کا جائزہ اکیلے رہنے سے ہو سکتا ہے آزمائش شرط ہے مگر مشترکہ گھرانے میں کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا مزید مسائل کو جنم دینے کی نوید ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ عورتوں سے نہ لڑا جاسکتا ہے نہ جیتا جاسکتا ہے اور نہ ہی عورت کے معاملے میں کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کو اہمیت دی جاتی ہے۔

عورت سے گھر کے کسی معاملے پر ایک بات سننے کی جسارت کرو تو وہ دس باتیں مزید بتانے کی حماقت کرے گی جن میں وہ تمام باتیں شامل ہوں گی جو آپ سننا نہیں چاہتے ہوں گے ۔ اسی طرح مشترکہ گھرانوں میں عورتوں کی تعداد کے حساب سے مقابلہ بھی سخت ہوتا ہے جس میں ’میں صحیح ہوں وہ غلط ہے‘ یا وہ دنوں درست نہیں صرف مین درست ہوں کی کمپیٹیشن ہوتی ہے جس میں حسد تعاقب بے بنیاد ذرائع منفی پروپیگنڈوں والے سارے ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments