یہ کہانی ہم نے سُن رکھی ہے


سال 1943 ء میں لارڈ ویول نے وائسرائے کا عہدہ سنبھالا تو خیال یہی تھا کہ برطانیہ اگلے تیس سال تک ہندوستان کو اپنے زیر تسلط رکھے گا۔ پرل ہاربر پر جاپانی حملے نے مگر ساری صورت حال ہی بدل ڈالی۔ امریکہ جنگ کے بعد عالمی سٹیج پر ایک بڑے کھلاڑی کا کردار ادا کرتے ہوئے کمیونسٹ خطرے سے نبرد آزما ہو نے کو بے چین تھا۔ مارشل پلان کے ذریعے اقتصادی اور بعد ازاں نیٹو اتحاد کے نام پر عسکری بندوبست کے ذریعے یورپی سرحدوں کو تو محفوظ بنا لیا گیا مگر قدیم شاہراہ ریشم پر سرخ آندھی کی پیش قدمی روکنے کے لئے امریکہ کو برطانوی ہندوستان کی ضرورت تھی۔ تاہم سقوط سنگا پور کے بعد امریکیوں کا اس باب میں برطانیہ پرسے اعتماد اٹھ گیا۔

فیصلہ ہوا کہ جاپانی پیش قدمی روکنے کے لئے ہندوستانیوں کو آزادی دے کر ان کے دل جیتنا لازم ہے۔ برطانیہ اقتصادی طور پر کمزور ہو کر امریکی امداد کا محتاج ہو چکا تھا۔ دوسری طرف متحدہ ہندوستان پر بھی اس کے لئے فیصلے مسلط کرنا اور اس باب میں اشتراکی رجحانات رکھنے والے نہرو پر بھروسا کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ چنانچہ تاج برطانیہ پر ہندوستان کو آزادی دیے جانے کے لئے امریکی دباؤ بڑھتا چلا گیا۔

سال 1947 ء کا آغاز ہوا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اچانک جون 1948 ء کی بجائے ایک سال قبل ہی ہندوستان کو آزادی دیے جانے کا مشن سونپ کر دہلی روانہ کر دیا گیا۔ برٹش انڈین آرمی خطے میں تباہ حال جاپانی فوج کے بعد اب سب سے بڑی عسکری قوت تھی۔ کمانڈر انچیف آکنلک دو آزاد ریاستوں کے قیام کے باوجود فوج کی تقسیم کے خلاف تھے۔ 3 جون 1947 ء کے تقسیم ہند منصوبے میں مگر اچانک برٹش انڈین آرمی کو بھی تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

سلامتی کو لاحق خطرات سمیت گونا گوں مسائل میں گھری نوزائیدہ مسلم ریاست کو دولت مشترکہ میں شمولیت کے باوجود زوال پذیر برطانیہ سے کسی امداد کی امید نہیں تھی۔ چنانچہ اپنے قیام کے فوراً بعد اقتصادی اور عسکری تعاون کی خاطر امریکیوں کا دامن تھام لیا گیا۔ الجیریا، صحرائے عرب، ترکی، ایران اور پاکستان کی صورت میں جو اسلامی کریسنٹ تاج برطانیہ نے تخلیق کیا تھا، امریکیوں کے زیراثر چلا گیا۔

فوجی حکومت قائم ہوئی تو ہنگامی بنیادوں پر پاکستانی افواج کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرتے ہوئے ایک موثر اور قابل بھروسا عسکری قوت بنانے کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ نئی چھاؤنیاں تعمیر اور ٹینکوں، جدید اسلحہ اور ساز و سامان سے لیس فارمیشنز کھڑی ہونے لگیں۔ ایلیٹ کمانڈو فورس کی بنیاد بھی امریکیوں نے رکھی۔ پاکستانی افسروں کو تربیت کے لئے امریکہ میں کورسز پر بلایا جانے لگا۔ بجا طور پر اس دور میں پروان چڑھنے والے پاکستانی فوجی افسروں کو برطانوی نہیں بلکہ ’امریکی جنریشن‘ کہا جاتا ہے۔

صرف فوجی امداد نہیں، پاک امریکی تعاون کے ان ’سنہری برسوں‘ میں گندم تک امریکہ سے آتی تھی۔ تاہم جہاں امریکی کیمپ کا حصہ بننے کے باوجود پاکستانی قیادت کی اپنی ترجیحات تھیں، تو وہیں امریکی کے پیش نظر مقصد مشرق وسطیٰ میں سوویت مداخلت کو روکنے کے لئے پاکستانی دستوں کا استعمال تھا۔ سال 1965 ء میں پاک بھارت جنگ چھڑی تو امریکیوں نے یہ کہہ کر اپنے اتحادی کی امداد روک لی کہ اسے کمیونسٹ خطرے سے نپٹنے کے لئے دیا جانے والا اسلحہ اور دیگر ساز و سامان بھارت کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اچانک ہمیں یاد آیا کہ ہمیں غلامی نہیں امریکہ کے ساتھ دوستی کے رشتے پر استوار تعلقات کی ضرورت ہے۔

چین سے تعلقات استوار کرنے اور افغانستان میں بڑھتے ہوئے سوویت اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کو پاکستان کی اب بھی ضرورت تھی۔ چنانچہ سال 1971 ء میں ہم ایک بار پھر اتحادی تھے۔ تاہم بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہوئی تو ملک دو لخت ہونے تک ہم ایڑیاں اٹھا اٹھا کر ساتویں بحری بیڑے کی راہ تکتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی صدر بھارتی وزیر اعظم کو ذاتی طور پر نا پسند کرتے تھے، تاہم جب انہوں نے مس گاندھی کو مغربی پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی سے باز رہنے کی سخت تنبیہ کی تو اس کے پس پشت کسی سے نفرت یا کسی اور سے محبت نہیں بلکہ افغان سرحد پر سرخ آندھی کو روکنے کے لئے بچے کھچے پاکستان کی ضرورت کار فرما تھی۔

بھٹو صاحب حکومت میں آئے تو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کچھ سرد مہری دیکھنے کو ملی۔ کچھ دھمکیاں بھی سننے کو ملیں۔ سال 1974 ء تک سی آئی اے کے ایجنٹ افغان یونیورسٹیوں میں کمیونسٹوں سے نمٹنے کے لئے مذہب پسند طلباء سے روابط قائم کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر جنرل ضیا ء الحق اقتدار میں آئے تو ابتدائی سرد مہری کے بعد پاک امریکہ تعلقات کا ایک اور ’درخشاں‘ باب شروع ہو گیا۔ افغان جنگ میں تعاون کے بدلے میں امریکی خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔

پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ تاہم سوویت یونین شکست و ریخت کے بعد سمٹا تو امریکیوں نے بھی سامان اٹھایا اور اپنی راہ لی۔ راتوں رات پاکستان پر پریسلر ترمیم کے نام پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ پاکستان دہشت گردی کی تاریک طویل رات میں ڈوب گیا۔ ہم ایک بار پھر امریکی بے وفائی پر آہ و زاری کرتے رہ گئے۔

سال 1999 ء میں چین کے خلاف امریکہ اور بھارت کے درمیان تزویراتی تعاون کے دور کا آغاز ہوا تو پاکستان ایک بار پھر امریکی کاسہ لیسی کے لئے تیار تھا۔ تاہم چند ہی برسوں میں حالات نے پلٹا کھایا۔ نواز شریف کی جگہ لینے والے فوجی حکمران نے اپنے اقتدار کے دوام کے بدلے امریکہ کو ہر وہ سہولت دینے کو آمادگی ظاہر کر دی کہ جس کا تقاضا بھی نہیں کیا گیا تھا۔ چنانچہ آسمان سے امریکی ڈالروں کی صورت ہن ایک بار پھر برسنے لگا۔

جنرل مشرف کا اقتدار سمٹا تو دو اتحادی ملکوں کی افواج میں بدگمانی اپنے زوروں پر تھی۔ افواج پاکستان کے خلاف چلنے والی منظم مہم کے ہائبرڈ جنگ میں بدلنے سے لے کر حال ہی میں عمران خان کی حکومت کے خلاف ہونے والی مبینہ سازش تک کی تفصیلات یہاں دہرائے جانے کی محتاج نہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے زندہ رہنے کی تمام امیدیں ایک بار پھر امریکی سر پرستی سے وابستہ کر لی گئی ہیں۔ چند ہی دنوں میں امید کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر ہمارے وزیر اعظم کو ٹیلی فون پر یاد فرمائیں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اگرچہ مانگنے کے روادار ہرگز نہیں تاہم کچھ مدد امداد کی بات تو ضرور ہو گی۔ امریکہ سے تعلقات کی 75 سالہ تاریخ مگر گواہ ہے کہ امریکی امداد پر انحصار کرتے ہوئے پائیدار ملکی ترقی کی بنیادیں کبھی استوار نہ کی جا سکیں۔ تاہم اس سے بھی بڑھ کر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں امریکیوں کے ایماء پر حکومتیں گرائے جانے کی مثالوں سے تو تاریخ بھری پڑی ہے، وہیں محض امریکی بیساکھیوں کے سہارے کسی فرد یا کسی ٹولے کو کسی قوم کے اوپر تادیر مسلط رکھے جانے کی کوئی مثال ڈھونڈنا اگرنا ممکن نہیں تو کٹھن ضرور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments