عیش زندگی کا بہترین تصور!


سوشل میڈیا پر بے لگام تبصرے ’تضحیک‘ تنقید برائے تنقید ’شخصیت پرستی‘ انا نے ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے لا کھڑا کر دیا۔ انسان ہی انسان کے خون کا پیاسا ہوتا جا رہا ہے ’اخلاقی قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم ترقی کے بجائے تنزلی کا سفر کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند عشروں بالخصوص جب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ارتقاء ہوا اور سوشل میڈیا کا رجحان بڑھا تو انسان نے کتاب سے استفادہ کرنا چھوڑ دیا اور اس کا ذوق و شوق کم ہوتا چلا گیا۔

کتاب اور انسان کا باہمی تعلق بہت قدیم ہے۔ ہم نے کتاب سے قطع تعلق کرتے ہوئے اپنے صدیوں پرانے تہذیبی ورثے کو پس پشت ڈال دیا۔ با الفاظ دیگر ڈیجیٹل انقلاب نے انسان کے دل سے احساس مروت کا عنصر کچل ڈالا اور وہ جدید آلات کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ ان آلات نے جہاں انسان سے حسن اخلاق و احترام کا عنصر چھین لیا وہیں تسہل پسندی و تن آسانی کے بھنور میں انسان کو اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث سے کوسوں دور دھکیل دیا۔ جس کی مثال عصر حاضر میں ذوق علم اور مطالعہ کتاب سے دوری ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس معاشرے میں علم و تحقیق اور مطالعہ کا عمل رک جائے وہ معاشرہ ذہنی و فکری طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔ علم دوست معاشرے میں علم کی قدر کی جاتی ہے جہاں لوگوں میں مطالعہ کتاب کا ذوق و شوق کثرت سے پایا جاتا ہے۔ جاپان کی ہی مثال لیجیے۔ ”پورے ایشیاء میں جاپانی سب سے زیادہ پڑھا کو قوم ہے اور دنیا بھر میں ان کے اشاعتی کاروبار کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ جہاں جائیں لوگ کتاب خریدنے اور پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

ٹوکیو میں ایک محلہ ہے کندا جو شہنشاہ جاپان کے محل سے متصل ہے اس میں ہر طرف کتابیں فروخت ہوتی ہیں کتابوں کی اتنی بڑی دکانیں ہم نے کہیں نہیں دیکھیں۔ ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں بھی کتابوں کی فروخت کا انتظام موجود ہے۔ چار پانچ سال کے کم عمر بچے بھی بڑے ذوق و شوق سے کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ جاپان کی آبادی تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ہے اور سال بھر میں تقریباً 80 کروڑ کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ گویا ہر جاپانی سال میں ساڑھے چھ کتابیں ضرور خریدتا ہے“ ۔

اس کے برعکس ہم مشین ہی کی طرح کاموں کی انجام دہی میں لگے ہوئے ہیں۔ کتب سے لگاؤ ’خوش طبعی‘ رنگارنگی اور دلچسپی کی جگہ اب مصنوعی اور ظاہری بے کیف زندگی نے لے لی ہے۔ مطالعہ اور کتب بینی کا جو ذوق ماضی میں تھا اب وہ رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے بلکہ اس خوبصورت دنیا میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ پہلے لوگ جہاں کتابوں کے مطالعہ اور شعر و ادب کے چسکے سے اپنے اوقات کو یادگار بناتے اور ایام فراغت کو قیمتی بنا کر گزارتے تھے اب اس کی جگہ انٹر نیٹ ’موبائل کے کھیلوں اور لایعنی مشغلوں نے اپنا سکہ بٹھا دیا ہے‘ بچہ بچہ پڑھنے کے بجائے کھیلنے میں لگا ہوا ہے ’اور نوجوان علم و تحقیق کے بجائے فضول چیزوں میں بہار عمر کو کھپارہے ہیں۔

کسی دور میں کتابوں سے الماریوں کو سجائے رکھنا اور نئی نئی کتابوں سے اپنے ذوق کی تسکین کرنا باعث فخر سمجھا جاتا تھا اب ایسے باذوق ڈھونڈنے سے بھی مشکل سے ملیں گے‘ کسی کا چشم کشا قول ہے کہ ”جب کتابیں سڑک کے کنارے رکھ کر بکیں گی اور جوتے کانچ کے شو روم میں تو سمجھ لینا کہ لوگوں کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔“

جہاں ڈیجیٹل انقلاب کے ذریعہ بہت ساری سہولتیں پیدا ہوئی ہیں وہیں کتابوں کے مطبوعہ جلدیں ہاتھوں میں اٹھائے پڑھنے کے بجائے پی ’ڈی‘ ایف کی شکل میں پڑھی جا رہی ہیں ’اس سے یقیناً بڑی آسانی ہو گئی‘ اور نادر و نایاب کتابیں بھی دستیاب ہونے لگیں ہیں اور بغیر خرچ کے مفت میں کتابوں کو حاصل کر لیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے مطالعہ کا جو حقیقی لطف اور مزہ تھا وہ نہیں رہا ’اس کی افادیت سے انکار نہیں‘ لیکن علم اور کتابوں کی خوبصورت دنیا کی ویرانی کا گلہ شکوہ بھی بجا ہے۔ کتب خانے خالی ہوتے جا رہے ہیں ’طبع شدہ کتابیں صرف چند افراد کے علاوہ کوئی لینے کے لئے تیار نہیں‘ ہر کوئی مفت کی کتاب کو کمپیوٹر یا موبائل میں ڈال کر پڑھ لینے کی فکر میں ہے۔

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

مطالعہ کا حقیقی مزہ اس کی اصل شکل یعنی کتاب میں ہی ملتا ہے ’انسان کو بوقت ضرورت تو مطالعہ کے لئے موجودہ سہولت بخش طریقہ کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ بھی باضابطہ مطالعہ کے لئے سابقہ طرز کو باقی رکھنا اور اسی انداز میں کتابوں سے لطف اندوز ہونا بھی چاہیے‘ یہ صرف ایک روایت کی پاسداری نہیں ہے بلکہ حقیقی لطف و مزہ کے حاصل کرنے کا ایک وسیلہ بھی ہے۔ کتاب سفر و حضر کی بہترین رفیق ہے ’کتاب کے ذریعہ علم و معلومات کی دنیا میں رونق ہے‘ کتاب کے ذریعے عزت و عظمت ہے ’انسان کبھی کتاب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسے ان گنت لوگ گزرے ہیں جنہیں کتابوں سے عشق تھا اور اپنی زندگی کا سب سے حسین تصور اس کو قرار دیتے کہ وہ گوش تنہائی میں بیٹھے کتاب کی مطالعہ میں غرق ہوں۔

علامہ ابن جوزی ؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ:میں اپنا حال عرض کرتا ہوں کہ میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی بھی طرح بھی سیر نہیں ہوتی ’جب بھی کوئی نئی کتاب نظر آجاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ میں نے زمانہ طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو بہت سے زیادہ معلوم ہو گا۔ میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتابوں کا مطالعہ کیا‘ جس میں چھ ہزار کتابیں ہیں۔

فتح بن خاقان اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب سرکاری کاموں سے ذرا فرصت انہیں ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے لگ جاتے۔ علامہ ابن رشد ؒ کے بارے میں ہے کہ:وہ اپنی شعوری زندگی میں صرف دو راتوں کو مطالعہ نہیں کرسکے۔ جاحظ کے بارے میں ہے کہ: وہ کتاب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے لیتے اور ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے۔

جاحظ کے بارے میں ہے کہ:کتابوں کے جھمگٹے میں پڑے رہتے کہ ایک دن آس پاس رکھی ہوئی کتابیں آ گریں ’مفلوج و بیمار جسم اٹھنے کی تاب کہاں لاسکتا تھا‘ اس طرح اپنی محبوب کتابوں میں ہی دب کر جان جان آفریں کے حوالہ کردی۔ مولانا ابوالکلام آزاد اپنے ذوق کے بارے میں فرماتے ہیں :میں آپ کو بتلاؤں میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہترین تصور کیا ہو سکتا ہے؟ جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا ’رات کا وقت ہو‘ آتشدان سے اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔

علامہ انور شاہ کشمیری جب بیماری کے ایام میں تھے ’اور غلط خبر افواہ بھی انتقال کی اڑ گئی تھی‘ اس موقع پر آپ کے شاگردوں علامہ شبیر عثمانی وغیرہ کا ایک وفد ملاقات کے لئے آیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ نماز کی چوکی پر بیٹھے سامنے تکیے پر رکھی ہوئی کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہیں ’اور اندھیرے کی وجہ سے کتاب کی طرف جھکے ہوئے ہیں‘ یہ منظر دیکھ سب حیران رہ گئے شاگردوں نے اس وقت مشقت نہ اٹھانے کی درخواست کی تو انہیں جواب دیا:بھائی ٹھیک کہتے ’لیکن کتاب بھی ایک روگ ہے‘ اس روگ کا کیا کروں؟

ہمارے اسلاف کا کتابوں سے پیار ’لگاؤ ان کی ترقی کا راز رہا‘ آج ہم تنزلی ’مغرب ترقی کر رہا‘ مغربی سماج کی ترقی و خوشحالی میں ایک اہم کردار کتاب بینی و کتاب دوستی کا ہے۔ کتاب بھولی بھٹکی قوموں کی زندگی میں روشن قندیل کا کام کرتی ہے۔ اس لئے ہمیں کتاب کو عزت دینا ہو گی۔ کتاب عیش زندگی کا سب سے بہترین تصور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments