کیا آپ اس غلام بچے کو جانتے ہیں؟


’ تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے‘ کے سلسلے کا تیسرا مضمون

ایک عیسائی بچے کی کہانی جس کی وجہ سے پاکستان کے بندھوا مزدوروں (بونڈڈ لیبر) کی حالت زار ملک کے اندر اور ملک کے باہر توجہ کا مرکز بنی۔

اقبال مسیح 1983 میں پاکستان کے شہر پنجاب میں لاہور سے قریب ایک تجارتی شہر مریدکے میں ایک غریب کیتھولک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا۔ چار سال کی عمر میں اس بچے کو اس کے خاندان نے قرضوں کی ادائیگی میں مدد کے لئے کام پر بھیج دیا۔ اقبال کے خاندان نے ایک مقامی آجر سے 600 روپے (اس وقت کے 12 امریکی ڈالر سے بھی کم) قرض لیا تھا جو قالین بننے کے کاروبار کا مالک تھا۔

چار سال کا بچہ جسے نشو نماء کے لئے کھیلنے کودنے محبت و شفقت اور اچھی غذا کی ضرورت تھی، اس معصوم جان کو غلامی کی بھٹی میں دھکیل دیا گیا۔

اس کے خاندان کے قرض کے بدلے میں اقبال کو اس وقت تک قالین بننے کا کام کرنا تھا جب تک کہ قرض ادا نہیں ہو جاتا۔ ہر روز وہ فیکٹری میں کام شروع کرنے کے لئے صبح ہونے سے پہلے اٹھتا تھا۔ وہ اور دیگر بچے قالین کی کھڈیاں چلاتے تھے۔ اقبال جانتا تھا کہ اس کے خاندان کا قرض کبھی بھی ادا نہ ہو پائے گا۔ ایک دن اس نے انتہائی مایوسی کے عالم میں آ کر ایک قالین پھاڑ دیا جس کی وجہ اسے شدید سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔

اقبال نے دس سال کی عمر میں اپنے پہلے فرار کی منصوبہ بندی کی کیونکہ اس نے غلامی کی زنجیروں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی، بھوکا رکھا جاتا، شدید گرمی میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا اور انہیں بہت کم پیسوں کے عوض اوور ٹائم کام کرنا پڑتا۔ یہ رقم بمشکل انہیں دو وقت کا کھانا فراہم کرنے کے لئے کافی تھی، اور بعض اوقات اس سے کم معاوضہ دیا جاتا۔ اقبال کی بہادری نے اسے ایک جوا کھیلنے کی ترغیب دی جس میں ناکام ہونے کی صورت میں اس کی جان ضائع ہو جاتی۔

اس کے باوجود اقبال نے بھاگنے کا منصوبہ تیار کیا۔ اقبال نے اپنے ساتھ کئی دیگر بچوں کو اس پلاٹ میں شامل کیا اور وہ سب بھاگ گئے اور ایک پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔ قانون کے محافظوں کو موقع ملا تھا کہ وہ بقیہ غلاموں کو بھی آزاد کرواتے اور فیکٹری کے مالک کو گرفتار کرتے لیکن اس کے برعکس اقبال اور دیگر بچوں کو پیسوں کے بدلے وردی پوش بدعنوانوں نے ان کے آجر کے حوالے کر دیا۔

اقبال کے فرار ہونے کی سزا شدید بھوک اور بھیانک مار پیٹ کے سیشن تھے اور اس دس سال کے بہادر چھوٹے بچے کو ایسا لگتا تھا کہ وقت ہمیشہ کے لئے ٹھہر گیا تھا اور وہ اپنی بقیہ زندگی کے دن اور رات اسی بد حالی میں گزار دے گا۔

اقبال نے دس سال کی عمر میں فرار ہونے کی ایک اور کوشش کی۔ اس بار وہ کسی طرح برک لیئر یونین کنونشن میں پہنچ گیا۔ اقبال کی ملاقات وہاں احسان اللہ خان نامی ایک کارکن سے ہوئی جس نے کارپٹ فیکٹری کے مالک ارشد سے اقبال اور دیگر بچوں کو رہا کروایا۔

اپنی آزادی حاصل کرنے کے بعد اقبال مسیح نے کارپٹ مافیا کو بے نقاب کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا کہ وہ غلام بچوں کے بنائے ہوئے قالین نہ خریدیں۔ اگرچہ وہ غیر انسانی حالات میں 6 سال کی غذائی قلت اور غلامی سے دو چاری کی وجہ سے جسمانی مسائل کا شکار تھا لیکن اس کے باوجود اقبال نے 3000 سے زائد پاکستانی بچوں کو ان کی بندھوا غلامی سے نجات دلانے میں مدد کی۔

اقبال تعلیم یافتہ نہیں تھا لیکن وہ ہوشیار بچہ تھا۔ اس نے 2 سال میں 4 سالہ بنیادی تعلیمی کورس مکمل کیا اور چائلڈ لیبر کے خلاف جنگ کی علامت بن گیا۔ اس نے دنیا بھر کا سفر کرتے ہوئے دنیا کو پاکستان کی کئی صنعتوں میں کام کرنے والے لاکھوں بچوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ بعض مراعات یافتہ لوگوں کے نزدیک اقبال پاکستان کے ماتھے پہ کلنک کا ٹیکہ تھا۔ اگر ان کا ضمیر زندہ ہوتا تو وہ خود ہی ملک سے غلامی کے خاتمے کے لئے مہم چلاتے۔ پھر کسی کو ملک سے باہر جا کر پاکستان کی انتظامیہ پہ دباؤ ڈالنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

1995 کو ایسٹر سنڈے کے موقع پر مریدکے میں اقبال کو ”قالین مافیا“ نے گولی مار دی اور اس کی بیباک زبان کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ اس وقت اقبال کی عمر صرف 12 سال تھی۔ اس بہیمانہ واقعہ پہ فیض احمد فیض کا یہ مصرعہ یاد آ جاتا ہے۔ ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

اقبال کے قاتل کا تعلق ایک ایسے گروہ سے تھا جو بھاگنے والے غلاموں کو قتل کر دیتا تھا۔ اس کی والدہ نے کہا کہ اسے یقین نہیں ہے کہ اس کا بیٹا ”قالین مافیا“ کے پلاٹ کا شکار ہوا ہے۔ اس کا خاندان خوفزدہ تھا، لہذا انہوں نے پولیس رپورٹ درج نہیں کرائی۔ تاہم بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ (بی ایل ایل ایف) پاکستان نے اس سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ اقبال کو پاکستانی کارپٹ انڈسٹری سے منسلک افراد کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔ اس کے جنازہ میں تقریباً 800 سوگواروں نے شرکت کی۔

اقبال مسیح کی موت کے بعد پاکستانی معاشی ’اشرافیہ‘ نے قالینوں کی فروخت میں کمی کا رد عمل کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ وہ اپنی فیکٹریوں میں بندھوا چائلڈ لیبر استعمال کر رہے تھے اور انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کو بی ایل ایل ایف کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کو شدید ہراساں کرنے اور گرفتار کرنے کے لئے استعمال کیا۔ ایک بار پھر قانون کے محافظوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو قوانین کے ناجائز اطلاق کے ذریعے نشانہ بنایا۔

پاکستانی پریس میں کچھ لوگوں نے بی ایل ایل ایف کے خلاف ایک مہم چلائی اور یہ دلیل دی کہ مزدور بچوں کو اچھی اجرت ملتی ہے اور ان کے کام کے حالات سازگار ہیں۔ کیا ان صحافیوں کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس بارے میں خود جاکر ان غلاموں کا حال دیکھتے اور میڈیا پہ آ کر انتظامیہ اور عوام کو اس سے آگاہ کرتے؟

اقبال مسیح نے دنیا کو پاکستان میں بندھوا بچوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔ اس مقصد میں مدد کے لئے کینیڈا میں ایک خیراتی ادارہ ’فری دی چلڈرن‘ شروع کیا گیا۔ ایک اور تنظیم ’اقبال مسیح شہید چلڈرن فاؤنڈیشن‘ کے اب پاکستان میں 20 سے زائد اسکول ہیں۔

بوسٹن میں ایک اسکول نے جس کا اقبال نے 1994 میں دورہ کیا تھا، پیسہ اکٹھا کیا اور پاکستان کے شہر قصور میں ایک اسکول شروع کیا۔ فرانسسکو ڈی ایڈمو نے اقبال کی زندگی پر مبنی ’اقبال‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ 1998 میں اٹلی کے شہر ٹریسٹ میں بہت سے اسکولوں کا نام اقبال کے نام پر رکھا گیا۔ 2000 ء میں اٹلی کے شہر جنیوا میں اقبال مسیح کی ایک یادگار کا افتتاح کیا گیا۔ اسی دن اسے ’بچوں کے حقوق کے لیے دنیا کا بچوں کا انعام‘ دیا گیا۔

دنیا اس ننھے ہیرو کو نہیں بھولی۔ 2006 ء میں ان کی کہانی پر مبنی ایک کتاب بعنوان ’دی لٹل ہیرو: ون بوائز فائیٹ فار فریڈم‘ لکھی گئی۔ 2014 میں نوبل امن انعام یافتہ کیلاش ستیارتھ، ایک بھارتی سماجی مصلح جنہوں نے بھارت میں چائلڈ لیبر کے خلاف مہم چلائی تھی، نے اپنا ایوارڈ اقبال مسیح کو وقف کیا۔ لیکن اقبال مسیح کے آبائی ملک میں اس کو شاید ہی ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور میری معلومات کے مطابق اسکول کے کسی نصاب میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کوئی سڑک یا چوک یا کوئی اور یادگار اس کے نام پہ وقف ہے! لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس شمع کو پاکستان میں بجھنے نہیں دینا چاہتے۔

2008 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے بندھوا مزدوری کے استعمال کو غیر آئینی قرار دے دیا اور قومی اسمبلی نے اس کے خلاف اور اس نحوست کے خاتمے کے لئے قوانین بنائے جو محض کاغذوں کی زینت بن کر رہ گئے۔

2011 میں پاکستانی لال بینڈ نے اپنے نغمے انقلاب کا انتساب جنوبی ایشیاء کے بندھوا مزدوروں پہ کیا۔ مئی 2019 میں، شرمین عبید چنائے نے ’اقبال کا بچن‘ کے عنوان سے ایک اردو اینیمیٹڈ مختصر فلم ریلیز کی جس میں اقبال کی کہانی کو
’Shattering The Silence

کی سیریز کے تحت تیار کیا گیا۔ ‘

2021 میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ بندھوا مزدوروں کا استعمال اب بھی جاری ہے اور ریاستی ادارے اس جرم کو ختم کرنے کی آئینی ذمہ داریوں میں ناکام ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیشگی (مزدور کو قبل از وقت) ادائیگی کا نظام واضح طور پہ مزدوروں کو غلام بنا رکھتا ہے اور یہ طریقہ کار غیر آئینی ہے۔

مزید برآں، دیر آید سہی لیکن پھر بھی قابل ستائش ہے کہ 23 مارچ 2022 کو صدر پاکستان عارف علوی نے اقبال مسیح کو بعد از مرگ ستارہ شجاعت (بہادری کا ایوارڈ) سے نوازا۔

سول سوسائٹی کی کچھ تنظیموں نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان میں اب بھی اسی لاکھ بچوں کو بانڈڈ لیبر کے طور پر غلام بنا کر رکھا ہوا ہے لیکن یہ اعداد و شمار پرانے ہیں اور بندھوا مزدوری کے طور پر کام کرنے والے بچوں کی تعداد کا تعین کرنے کے لئے کوئی حالیہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ بہت سے اداروں اور انجمنوں کو اتنا یقین ضرور ہے کہ پاک سر زمین پہ اب بھی لاکھوں بچے اور بڑے غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن بے حسی کا یہ عالم ہے کہ پورا معاشرہ اس ناسور پہ خاموش نظر آتا ہے۔

یہ مضمون ’تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے‘ کی تیسری قسط ہے۔ اس سلسلے کی پچھلی اقساط کے لئے رجوع کریں

https://www.humsub.com.pk/452488/habeeb-sheikh-70

حوالہ جات:

https://en.wikipedia.org/wiki/Iqbal_Masih

https://www.dawn.com/news/1619549/ihc-asks-officials-to-curb-bonded-labour-in-islamabad
https://www.youtube.com/watch?v=qtrV6o2fCpI


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments