( 1 ) جولائی 5۔ یوم سیاہ اور یوم وفات مسعود اشعر
مسعود اشعر اور سید فخرالدین بلے داستان رفاقت
(مسعود اشعر : ولادت: 10 فروری 1930 ء۔ وفات: 5 جولائی 2021 ء)
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری
جب ضیاء الحق ملتان کے کور کمانڈر تھے تو مسعود اشعر فیملی اور ضیاء الحق فیملی دونوں فیملیز کی بہت قربت تھی۔ ضیاء الحق کا ملتان میں تعیناتی کے دوران ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ سید فخرالدین بلے صاحب اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ امروز مسعود اشعر صاحب کے دفاتر میں آنا جانا تھا۔ البتہ بروز جمعہ ضیاء الحق فیملی کا ظہرانہ جناب مسعود اشعر صاحب کے گھر پر ہی ہوا کرتا تھا اور یہی معمول رہا۔ پانچ جولائی 1977 کو ضیاءالحق کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ضیا الحق کا عہد آمریت سخت ترین اور بد ترین بلکہ گھناوٴنے ترین سینسر شپ کا زمانہ تھا اور پاکستان پریس ٹرسٹ کے تینوں روزناموں یعنی کہ روزنامہ امروز۔ روزنامہ مشرق اور دی پاکستان ٹائمز اور دیگر اخبارات میں چیف ایڈیٹرز۔ ریزیڈنٹ ایڈیٹرز۔ نیوز ایڈیٹرز اور میگزین ایڈیٹرز کی جان عذاب میں تھی۔ اس پر انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹس نے ایک اور مصیبت کھڑی کر رکھی تھی۔ روزنامہ امروز ملتان کے سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر جناب مسعود اشعر اور دیگر کا انجام مثال دینے کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔ جب ضیا الحق کی مجلس شوری نے حلف اٹھا یا تو اس روز سید سلطان احمد اجمیری پر عجیب کیفیت طاری تھی وہ اقبال کی نظم ابلیس کی مجلس شوری نہایت عمدہ تحت اللفظ میں پیش فرما رہے تھے۔
گو کہ ہم نے مسعود اشعر انکل کو کبھی بھی کسی کی بھی غیبت کرتے یا کسی کے حوالے سے کوی بھی منفی بات کرتے نہیں سنا۔ لیکن ہمارے والد کی طرح بلکہ بہت سوں کی طرح مسعود اشعر بھی جنرل ضیا الحق اور اس کے تمام تر اقدامات سے نالاں تھے۔ جاوید احمد قریشی۔ فیض احمد فیض۔ مسعود اشعر۔ حاجی کھوکھر۔ غنی چوہدری سید اظہر امام زیدی شیخ حفیظ الرحمن کی طرح سید سلطان احمد اجمیری بھی بخوبی واقف تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور سید فخرالدین بلے کے بہت قریبی مراسم اور حد درجہ اعتماد کی تعلق داری کا رشتہ تھا۔
جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان تھے اور ضیا الحق ملتان کے کور کمانڈر تھے تو اکثر و بیشتر کورکمانڈر صاحب قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے دفتر میں آئے بیٹھے ہوتے تھے۔ لیکن جب ابوالمنافقین نے ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو اس کا پہلا نشانہ مسعود اشعر تھے۔ فیض احمد فیض، سید فخرالدین بلے، پروفیسر صلاح الدین حیدر اور ڈاکٹر اصغر ندیم سید جیسے اللہ جانے کتنے ہی ترقی پسند ذہن کے حامل اور جمہوریت پسند عناصر ہوں گے کہ جو ابوالمنافقین کی آمرانہ اور منتقمانہ سوچ کا نشانہ بنے ہوں گے۔ پاکستان پریس ٹرسٹ کے چیر مین جناب ضیا الاسلام انصاری کے قبلہ سید فخرالدین بلے سے تو دیرینہ مراسم تھے ہی لیکن سید سلطان احمد اجمیری اور مسعود اشعر صاحب سے بھی ان کے اچھے مراسم تھے۔ جناب ضیا الاسلام انصاری اور ابوالمنافقین ضیا الحق کے بہت قریبی مراسم اور حد درجہ اعتماد کی تعلق داری کا رشتہ تھا۔
اپنی پاک دھرتی کا اب خدا ہی حافظ ہے
مسندوں پہ آ بیٹھے سرحدوں کے رکھوالے
سید فخرالدین بلے
پانچ جولائی 1977 کو ضیاءالحق کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد پروفیسر صلاح الدین حیدر، سید فخرالدین بلے، ڈاکٹر اصغر ندیم سید اور دیگر محبان وطن اور دیش بھگتوں کی طرح جناب مسعود اشعر صاحب کو بھی حد درجہ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
5th July …………… Black Day
ہم یوں نہ ہو سکے کبھی جمہوریت شعار
ہوتی رہی ہے فوج مشرف بہ اقتدار
سید فخرالدین بلے
اور اتفاق دیکھیے کہ جب ملک بھر میں 5 جولائی کی یاد میں یوم سیاہ منایا جا رہا تھا تو اسی دن ایک عظیم تخلیق کار اور ایک بے باک اور فرض شناس اور محب وطن صحافی کہ جنھیں قلم کی حرمت کا پاسبان کہا جاتا تھا جی ہاں جناب مسعود اشعر صاحب اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ مسعود اشعر صاحب نظم۔ ڈسپلن۔ اور نظم۔ پتنگ۔ کو سید فخرالدین بلے کی شاہکار آزاد نظموں میں شمار فرمایا کرتے تھے
سید فخرالدین بلے کی آزاد نظم۔ ڈسپلن
بینک کی یونین کے عہدے دار
بینک کے منیجر سے بدظن تھے
روز لڑتے جھگڑتے رہتے تھے
ایک دن بینک میں بہت زیادہ
ہاتھا پائی ہوئی، فساد ہوا
بات حد سے بڑھی تو بالآخر
منیجر اور یونین والے
ایک ٹیبل پہ آ کے بیٹھ گئے
پہلے ہوتے رہے گلے شکوے
پھر مسائل پہ بات چیت ہوئی
ہو گیا ان میں ایک سمجھوتہ
دیکھ کر یہ عجیب تبدیلی
بینک کا ایک مستند گن مین
یونین سے جو تھا بہت بیزار
اور، سبھی افسروں سے نالاں تھا
بینک کی آبرو کے پیش نظر
ہو گیا سارے بینک پر قابض
للہ الحمد ایک مدت سے
گاہکوں کو سکون حاصل ہے
داد دیتے ہیں اب تو افسر بھی
اپنے گن مین کی فراست کی
جس کے ایثار اور حکمت سے
کوئی ہنگامہ اب نہیں ہوتا
اور، فضا پر سکوت طاری ہے
بینک کا کاروبار چلتا ہے
ارتقاء کا سفر بھی جاری ہے
ارتقاء کا سفر نہ رک جائے
اس لئے بینک کا نیا گن مین
یہ سمجھتا ہے میری باری ہے
- استاذالاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا - 24/03/2024
- صدیقہ بیگم پاکستانی اور صدیقہ بیگم ہندوستانی ( 1 ) - 09/12/2023
- ڈاکٹر توصیف تبسم : ایک روشن چراغ تھا، نہ رہا - 07/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).