کلاس روم کی فضا اور مکالمہ


کل کچھ کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کا بیانیہ سننے کا ایک موقع ملا۔ جس بیانیے کی مجھے کماحقہ ہی امید نہ تھی۔ موضوع یہ تھا کہ ”معاشرے میں اجتماعی مکالمے کی زوال پذیری“ ۔ وہاں پر موجود اساتذہ کا تعلق ڈائریکٹ کلاس روم کے ساتھ تھا تو وہ لوگ اپنی سلطنت کے طور پر وہاں مکالمے کا گھمسان ڈلوانا چاہتے تھے۔ یہ معاملہ ایک بہت عجیب صورت حال اس وقت اختیار کر گیا جب تمام اساتذہ جو کہ یہ کام کرنے میں ناکام ہیں مستزاد اس کے مکالمے کا فروغ چاہتے ہی تھے۔

میرے نزدیک اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہے کہ مکالمہ کلاس روم کے اندر ناممکن ہے۔ معاشرے میں اس کی فضا پھر بھی کسی حد تک سازگار کی جا سکتی ہے۔ کچھ اساتذہ کرام کا خیال تھا کہ اردو کے چار افسانوں اور انگریزی کے چار ڈراموں کے ذریعے مکالمے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ کچھ کو لگتا تھا کہ انہوں نے اپنے سٹوڈنٹس کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جو مرضی پوچھیں، کچھ اس بات پر نالاں تھے کہ طلباء کے ساتھ دوستانہ ماحول نہیں بن پا رہا وغیرہ وغیرہ۔

جس چیز کا رواج یا تربیت ایک انسان کو کبھی دی ہی نہیں گئی وہ اس کا اظہار ایک کلاس روم کے ٹائم میں کیسے کرے گا؟ نہیں کر سکتا۔ سوال پوچھنا آتا نہیں، ذاتی عناد اور تعصب سب کے دماغوں پر سوار ہے۔ ذرا سی بات پر بلیم گیم شروع ہو جاتا ہے، لفاظی کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں، گالیاں ان کی زبانوں پر ایسے رواں ہیں جیسے ماں کی لوریاں، اپنی بات کرنی آتی نہیں اور دوسروں کے پوائنٹس اور موضوعات کو اٹھا اٹھا کر پٹخا جاتا ہے، وہاں بھی دوسروں کی عقل استعمال کرلی جاتی ہے۔ کتاب پڑھنا کوئی چاہتا نہیں کہ کہیں اپنا کوئی نظریہ نہ بن جائے، دوسروں سے تبصروں کی بھیک مانگی جاتی ہے۔ ایسے میں مکالمہ خاک پنپے گا۔

پہلے معاشرہ مکالمے کے قابل ہو جائے اس کے بعد اسے کسی مہذب طریقے کے تحت کلاس روم میں بھی داخل کیا جائے گا۔ طلباء کو کوئی بھی استاد یونیورسٹی یا کالج کی سطح پر کہے کہ جی سوال پوچھیں تو وہ ایسے ایسے سوالات پوچھنا شروع کرتے ہیں جن کا اس کلاس روم تو کیا اس خطۂ زمین پر بھی کوئی جواز نہیں بنتا۔ طلباء کو لگتا ہے کہ اگر سوال پوچھنے کو موقع ملا ہے اس کا مطلب ہے کہ اب ہم اس استاد کی علمیت اور اس کے پورے تعلیمی دور کی جراحی آج یہیں کر کے جائیں۔

لٹریچر کے طلباء استادوں سے جان بوجھ کر کسی غیر معروف ادیب کا پوچھتے ہیں جو اس نے نہ پڑھا ہو یا پھر سیدھا سیدھا مذہب کے بارے میں کوئی ایسا سوال کریں گے جس کا جواب ہاں یا نہ دونوں صورتوں میں اس استاد کو جان کے لالے ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سوالات کی نوعیت یہ ہوگی کہ بات اگر ہو رہی ہے ساختیات کی تو وہ اپنے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے شجر کاری پر سوالات کرنا چاہیں گے۔ ان حالات اور ایسے خطرناک واقعات کے ہوتے ہوئے ان لوگوں کو کولہو کے بیل کی طرح ہی ہانکنا پڑتا ہے جو کہ بہت اہم ہے۔

طلباء کو اس مکالمے کی تربیت دینے کی بہترین جگہ ”ڈیبیٹنگ سوسائٹیز“ ہیں یا پھر ”سٹڈی سرکلز“ ہیں۔ وہاں انہیں کنٹرولڈ ماحول میں کچھ اصول و ضوابط کے تحت ایک دوسرے سے بات چیت کرنا، سوال کرنا، جواب دینا، اعتراض اٹھانا، ان جوابات کے مہذب جوابات فراہم کرنا سکھایا جائے۔ بات دلیل سے کرنا اور پھر انسانی جذبات کو اس میں شامل کرنا، علت و معلول کا خیال رکھنا ہر ہر صورت میں مقدم رکھا جائے۔ بات کرنے کے مطلب کو سمجھا جائے ناکہ اس بات کو اپنے لیے شخصی طعنہ سمجھا جائے۔

کسی کی بات کو ہی اٹھا کر سوال کیوں کرنا آپ اپنا الگ سے کوئی نکتہ بیان کریں، اپنا نیا نظریہ پیش کریں، بلیم گیم سے حتیٰ الامکان بچیں، بات کرتے ہوئے موضوع پر رہیں ناکہ باتوں سے باتیں نکالنے کی مصداق پورا ماحول تباہ کر لیں۔ لہجہ اور بات کا طریقہ سیکھیں اور جہاں غلط ہوں اپنی غلطی کو دل میں مانیں ہو سکے تو اقرار کریں اور اپنی اصلاح بھی کریں۔ اس سب کے بعد ہی مکالمے کی تربیت مکمل ہوگی۔ پھر کلاس روم میں ہفتے میں کوئی ایک یا دو دن مکالمے کے لیے مختص کیے جا سکتے ہیں۔

اس طرح سے ہم لوگ کچھ مہذب افراد کا اس معاشرے اور ملک میں اضافہ کر سکتے ہیں جو کہ پطرس بخاری کی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی کسی موضوع اور گفتگو میں حصہ لینے سے نہیں چوکا کرتے۔ گورنمنٹ کالج کی ایک طالبہ ہونے کے ناتے میں اس سے بہتر مثال پیش نہیں کر سکتی تھی۔ تمام تعلیمی اداروں میں اس قسم کی فضا کی ساز گاری اب ناگزیر ہو چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments