زندگی تماشا! زندگی


زندگی! جو کہ خواہشوں، حسرتوں، خوابوں، اور بے شمار آرزوؤں کے باغیچوں کے بیچوں بیچ ایک سفر ہے۔ اک ایسی پگڈنڈی ہے جو حسین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ جڑی پرخطر اندوہناک ناگہانیوں کی وجہ سے خوفناک بھی ہے اور جس کی خوبصورتی اور بد صورتی، آسانی اور دشواری کا دار و مدار ہمارے ہمسفر کے انتخاب پر ہے۔ اس انتخاب کا بلا شبہ اختیار تو ہم رکھتے ہیں مگر اس اختیار کا استعمال ہماری دانست سے بہت بلند ہے۔ ہم کسی بھی سوشل کلاس سے تعلق رکھنے والے ہوں، ہمارا آغاز بہت سادہ اور عام سا ہوتا ہے۔

ہر ذی روح کو مکمل طور پر پیدا ہونے سے پہلے بھی بہت ساری تخلیقاتی پیچیدگیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر انسان کی تخلیق سپرم اور ایگ کے ملاپ سے ہوتی ہے اور اس ملاپ میں جہاں بہت سارے ایگز میں سے کوئی ایک خاص جینیات کا ایگ فرٹیلائزیشن کی جگہ پہ اپنے مقرر کردہ وقت پہ پہنچتا ہے ایسے ہی ایک سپرم بھی اپنے جیسے مگر مختلف جینیاتی سیلز سے لڑتا بھڑتا اپنے مقام تک پہنچ پاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سائنس بھی اس میں کوئی حتمی رائے نہیں قائم کر سکی کہ وہ کون سے ایسے خاص عوامل ہیں یا خصوصیات ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ کروڑوں سپرمز میں سے کوئی ایک وہ کون سا خوش قسمت سپرم ہو گا جو اس ایگ کے ساتھ ملاپ کرے گا۔

یعنی زندگی کا آغاز معجزات، اتفاقات اور حادثات کی چھتر چھایا میں نمو پاتا ہے۔ میں یہ قطعی نہیں کہہ رہا ہے کہ زندگی اتفاق یا معجزے کے دائرے میں سفر کرتی ہے اور اس دائرے سے ذرا باہر نکل آئے تو حادثہ پیش آ جاتا ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ زندگی پہلے سے متعین کردہ ایک دائرہ کار میں گردش کرتی رہتی ہے اور اس میں رونما ہونے والی تمام تر طبیعیاتی، مادی، کیمیائی اور سماجی تبدیلیاں مقرر کردہ وقت پہ ہوتی رہتی ہیں۔ ہاں مگر اس دائرے میں گردش کرنے کے دوران راستے اور ہمراہ کا انتخاب بلا شبہ ایک حد تک ہمارے اختیار میں ہے اور اس کا بھی وقت متعین ہے۔

خیر آج کی گھڑی میں انسانی زندگی کو درپیش مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ نتائج تک پہنچنا ضروری ہے۔ آج سوشل انٹریکشن بے حد پیچیدہ نوعیت کے حامل ہیں۔ انسان انتہائی سادہ معاملات کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ انسانوں کی بستی باقاعدہ سڑتے ہوئے بدبودار جذبات اور احساسات کا قبرستان بن چکی ہے۔ ہر شخص اپنی روحوں کو اپنے اندر دفن کر کے لاش بنا پھرتا ہے۔ ہر دوسرا شخص کسی ہم سوز کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ ہر کسی کو کوئی ہم درد چاہیے۔

ہر سو سے انسانی جسم بدبو کے ہولے بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل کو ان بدبودار سوشل انٹریکشن کے مسائل نے زومبی بنا دیا ہے۔ ذہنی طور پر ناکارہ، احساس سے اپاہج اور ناقابل برداشت مخلوق بن چکے ہیں اور اس میں سب سے بڑی وجہ ہے صنف مخالف سے منسلک قدرتی صنفی اور واجبی جذبات کے تناظر میں پیدا ہوئے جذبات اور احساسات کا ناقابل حل مثبت ذرائع۔ مطلب آج کل نوجوان نسل دیواروں میں سر پیٹ رہے ہیں، چوبیس گھنٹوں موبائل۔ فون کے اندر بے شمار خبائث میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انھیں سمجھ آ رہی ہے اور نہ کوئی سمجھانے والا کہ ان نفسانی خواہشات پہ بند کیسے باندھنے ہیں اور مثبت رویوں میں ڈھال کر زندگی کے سفر کو سمت کیسے دینی ہے۔

بھلا ہو سوشل میڈیا کا اور اس پہ بھی سونے پہ سہاگہ اس موبائل۔ فون جیسی آفت کا جس نے جذبات اور احساسات کو تیز رفتار اور بے حد عارضی بنا دیا ہے۔ یہ بچے ایک وقت میں اپنی حسرتوں کی تسکین کے لیے چار چار صنف مخالف سے انٹریکشن کر رہے ہوتے ہیں اور بہت سارے تو جسمانی انٹریکشن سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ اب اس میں سب سے بڑی خباثت یہ ہے کہ اس انٹریکشن کے نتیجے میں وہ ایک ایسے سرور میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا توڑ نہ ان کے بس میں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اس مادی لت کا نتیجہ پھر ہیجان، ڈپریشن اور ذہنی مفلوجیت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اوپر سے مغربی کلچر کی مادی روایات نے اس میں وہ دو رس گند گھولا ہے کہ رہی سہی کسر بھی جاتی رہی ہے۔

ہم بطور انسان اپنے جذبات، رویوں اور احساسات کو تعین کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ ہمیں بالکل سمجھ نہیں ہے کہ دائرے میں گردش کرتی اس زندگی کو، جس کی ہر شے وقت کی فصیلوں میں مقید ہے، کس طرح گزارنا ہے۔ وقت کا احترام تو درکنار ہم اپنے مادی وجود کی ضروریات سے نابلد ہو چکے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے طبقات بھی اپنے معاملات میں انتہائی حد احمق واقع ہوتے ہیں۔ اپنی صنف مخالف کو ضرورت کی ہوس زدہ نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنی جنسی ضرورت کو تشدد زدہ راستوں سے پورا کرنے کے خواہاں رہتے ہیں۔

ہمارے شعراء اور ادباء نے صنف نازک کو ناز اور نرخوں کے ایسے محل میں مقید کر دیا ہوا ہے کہ جس تک عام بندے کی رسائی ممکن نہیں نظر آتی ہے۔ اوپر سے مادیت زدہ معاشرت نے صنف نازک کو ایسی ایسی بلاؤں سے زیب تن کر دیا ہے کہ انسان کے اوسان خطا ہو جائیں۔ مادیت زدگی نے ایک جو بم ہمارے سر پھوڑا وہ یہ کہ انتہائی خوبصورت اور پاک جذبوں کو بھی بھاری بھرکم مادے کے حصار میں لپیٹ کر ایک ایسا غلیظ سسٹم متعارف کرایا ہے کہ دو انسان بے چارے ایک ساتھ دو پل سکوں کے گزارنے کو ترستے ہی رہیں۔ اس پر یہ بھی کہ ہم انسانوں نے عدم برداشت کے ساتھ ساتھ توقعات کا وہ ناچ شروع کیا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کی توقعات پہ پورا اترتے اترتے پل صراط پار کر جائیں۔

ہم انسانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ زندگی ہماری مرضی کے مطابق ہمیں عطا نہیں کی گئی نہ ہی ہمیں ہماری منشاء کے مطابق ماحول میں پیدا کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی کہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی اگر کوئی خواہش پوری نہیں ہو پاتی یا کوئی توقع باقی رہ جائے تو اس میں کوئی لازم نہیں کہ اس کو وبال جان بنا لیا جائے۔ نہ ہی زندگی صرف ناچنے، ٹاپ نے، خوشیاں منانے اور ہر لمحہ حاصل کرتے رہنے کا نام ہے۔ زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ کوئی بہت نایاب منزل حاصل کر لی جائے اور باقی عمر اسی کے نشے میں گزرے۔

زندگی ایک سفر ہے جو تکالیف دشواریوں، ناکامیوں اور دکھوں کے ساتھ خوشگوار لمحوں میں اپنے ہمسفر اور ہمدرد کی ہمراہی میں گزارنے کا نام ہے۔ لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے کسی کو ایسا ساتھی چاہیے جو بہت عالی شان محل میں رہتا ہو، کسی کو کوئی کچی عمر کی حور پری چاہیے مطلب یہ ہے کہ ہم انسانوں نے صنف مخالف کو عیاشی کا سامان بنا لیا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ذہنی سکون اور اطمینان ہمارے سے چھن چکا ہے۔ ہم لوگ دکھ درد کا ساتھی بننے کے لئے تیار نہیں۔ ہمیں ہر شے مادیت سے بھرپور اور تیار شدہ چاہیے۔ ہم مل جل کر آگے بڑھنے کے حق میں نہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کے انسانی رویوں سے بدبودار معاشرے ہی تشکیل پایا کرتے ہیں اور آج ہم اس کی جھلکیاں اپنے اردگرد دیکھ بھی رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments