ایف سی کا ادبی منظر نامہ


ادب کا تعلق بڑا ہی گہرا اور پر تاثیر انسانی زندگی سے ہے۔ اس کو ابتدائی کائنات سے ہی بڑا معتبر قرار دیا گیا اور حقیقت میں یہ ہے بھی۔ وہ ادب ہی تھا جس نے مٹی کے پتلے میں دم پھونکا اور جیتی جان قرار دیا۔ وہ ادب ہی تھا جس نے چیزوں کے نام رکھے اور وہی نام قرار پائے۔ وہ ادب ہی تھا جس نے کہا ہو جا تو وہ چیز تخلیق ہو کر سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اس ادب کا چرچا ہر طرف، ہر لہر، ہر خوشی اور ہر سانس میں سما کر اپنی پہچان کروانے لگا۔

اسی ادب کی بدولت پوری کائنات وجود میں آئی آہستہ آہستہ یہ زمین کے کونے کونے میں اپنی شناخت کروانے میں مگن ہوا۔ پھر جس نے ادب کا پلہ پکڑا وہ با ادب اور با نصیب بن گیا۔ اسی انسان نے آسمانوں کی سیر، زمین کی تہہ میں چھپی لاتعداد نعمتیں تلاش کرنے کا ہنر بھی سیکھ لیا۔ اس ادب کی بدولت ہوا کو قید کر کے رکھ دیا جو آج باتیں اور پیغامات پہنچانے کا سبب بن گیا۔ پھر کئی ایسی ایجادات جو حیران کن تاثرات لیے لمحہ بہ لمحہ اس کائنات کا حصہ بنتی گئیں۔

جو سب کے سب اسی ادب کی مرہون منت ہیں۔ اس ادب کی روشنی پھیلتی پھیلتی 1864 میں لاہور (ایف سی) کی سرزمین میں آ کھڑی ہوئی۔ جس نے فارمن کرسچن کالج کی صورت میں اپنے نین نقش ظاہر کیے۔ چراغ سے چراغ جلنے والا سلسلہ شروع ہوا جو ہوتا ہوتا آج 2022 تک آن پہنچا۔ اس ادبی چراغ کی روشنی کا اثر جیسے جیسے مجھ تک پہنچا اس نے کئی سنگ تراش اور مجسمہ ساز بھی عطا کیے جنہوں نے اس بدصورت پتھر کو ہتھوڑی، کلہاڑی، تیشہ، آبیاری اور نہ جانے کئی اوزاروں سے لبریز اپنی تحویل میں لے لیا۔

یہ وہ لمحہ تھا کہ سنگ تراش اس پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر سکتا تھے، اس کو گمنام بھی کر سکتا تھے۔ اس کو کوئی بھی آروپ دے سکتے تھے ان سب باتوں کے پس منظر میں ایک تاثیر موجود تھی۔ وہ ادب تھا، ایک طرز زندگی اور سلیقہ تھا۔ پھر دکھایا انہوں نے اسی ادب کی تاثیر کا اثر اس پتھر پر اور اس کو ایک شکل میں نمودار کر دیا۔ اس سے قبل اس پتھر کی پہچان نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے متعلق لوگوں کے ذہن میں تصور بھی نہ تھا جیسے ہی اوزاروں کے استعمال کے عوض ایک روپ اور شکل ملی ارد گرد کے لوگ سبھی نام سے واقف ہو گئے۔

اخباروں میں، اداروں میں، بازاروں میں نام آ گیا۔ وہی پتھر جن سے لوگ کتراتے تھے وہ خراش تراش کے بعد ان کی آنکھوں کی زینت بن گیا۔ یہ سب اس ادب کی بدولت ہے جو تمام ہنر مندوں نے اپنے اوزاروں اور ہتھیاروں کے ذریعے اس پتھر میں مورتی کا چہرہ، احساس کا پہرہ، دھن کی گرج، آواز کی لہر، جادو کا سماں، پیار کی خوشبو اور وفا کا نغمہ متعارف کروایا۔ سستی اور جہالت کے ماروں کو یہ بتا دیا کہ سب محنت اور کوشش سے ممکن ہے مقدر پر الزام لگا کر خود کو بری کرنا جہالت سے کم نہ ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمدہ خیال ہو تو عمدہ ادب جنم لیتا ہے۔ جب عمدہ ادب ہو تو عمدہ معاشرہ تخلیق ہوتا ہے جو چراغ سے چراغ جلاتے جاتے ہیں۔ ان چراغ جلانے والوں میں ڈاکٹر اختر شمار، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر شاہد اشرف، ڈاکٹر طاہر شہیر، ڈاکٹر نورین کھوکھر اور ڈاکٹر عتیق انور موجود ہیں۔ اس پتھر کو جس نے بھی کسی لمحہ ہاتھ لیا ایک سے بڑھ کر ایک فن اس پر ظاہر کیا۔

ان کی کاریگری کا عالم یہی کافی ہے کہ اس سے تراشی ہوئی مورت کو لوگ غائبانہ جانتے ہیں۔ کچھ شکل سے واقف ہیں نام کی گرج ہے کہ فلاں ادارہ اور استاد کا شاگرد ہے۔ ہمت کا اثر، ہنر کا جادو، خیال کی وسعت، قلم کی تاثیر، گفتگو کا نگر، لکھنے کا فن، احساس کا ولولہ اور ادب کا محور نمایاں ہیں۔ قدرت کا قانون بھی تو یہی بتاتا ہے جو بیج بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔ 15 نومبر 2021 کی شب کلاس میں بیٹھے تھے ڈاکٹر اختر شمار صاحب سے مکالمہ ہوا:

” خیال کیا ہے؟“
جواب بڑا ہی لاجواب اور جاندار ملتا ہے جو ان کی ہنرمندی کا ثبوت ہے۔ وہ بولے :

”خیال ہوا تو چیز تخلیق میں آ گئی، یہ کائنات خیالات کا مجموعہ ہے، جب سب کچھ ختم ہوجاتا ہے تو صرف خیال ہی باقی رہتا ہے۔“

ان باتوں کا اثر اور تاثیر اس پتھر کی مورتی میں منتقل ہوئی یہی اصل تخلیق، تحقیق، اور ہنر مندی ہے۔ دیگر استادوں کا تذکرہ کروں تو ڈاکٹر اشفاق احمد ورک سے تحقیق کی کلاس دسمبر کی سردی جا رہی تھی۔ وہ اپنے اوزاروں سے لبریز تھیلا لیے کلاس میں نمودار ہوئے۔ تحقیق لفظ سے بات شروع ہوئی تو انہوں نے میز پر اپنے اوزاروں کو ترتیب دی۔

سوال ہوا : ”یہ اوقات کیا ہے؟“
آج کل اردگرد ماحول میں دیکھیں تو ہر دوسرا بندہ دوسرے کو یہ طعنہ دے رہا ہے کہ تیری اوقات کیا ہے۔
اوزاروں کو چھوتے ہوئے جواب وارد ہوا:
” 21 گرام آکسیجن اور ایک مٹھی بھر مٹی یہ اوقات ہے۔“
اس کے ساتھ ہی ایک دم تیشہ اور ہتھوڑی کو ہاتھ پکڑ لیا اور کہا:
” یہی وجہ ہے کہ پاکستان زمینوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کمینوں کی وجہ سے غریب ہے۔“

ہر انسان کے پاس تین اضافی حس موجود ہوتی ہیں۔ جن کو متعارف کروانا بڑا ہی ضروری ہوتا ہے۔ ان میں مشترک حس، جمالیاتی حس اور مزاح کی حس شامل ہیں جو ابھی تک ہمارے ملک میں متعارف نہیں ہو سکیں۔

اگر بات ہو تنقید کے میدان کی تو ڈاکٹر نجیب جمال کا عکس ہی کافی کمال کا ہے۔ وہ اپنے خیالات اور اوزاروں کی مدد سے ترتیب وار تنقید کے میدان میں ایسے قدم رکھتے ہیں کے اوزاروں کی آوازیں چاروں طرف گونجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ میڈیکل کے ڈاکٹر کی طرح نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور بیماری بتا دیتے ہیں۔ 21 دسمبر 2021 کا دن کلاس میں موجود تھے محترم استاد بھی اوزاروں کا بیگ لیے کلاس میں وارد ہوئے۔ آتے ہی اوزاروں سے تراش خراش کا کام شروع کر دیا۔ بیانیہ انداز، ماتھے پر بل، لہجہ سخت نہ جانے کس زاویہ میں، اس کے باوجود ادب کا اثر ادبی انداز میں ایسے ہوتا ہے جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کشش کرتا ہے۔

سوال ہوا:
” زبان کیسے اثر انداز ہو کر ادب کو متاثر کرتی ہے؟“
بیگ سے اوزار نکالتے ہوئے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور بائیں طرف اس کا رخ کیا :

” زبان کے لیے چار شرائط ہوتی ہیں جو ادب اور قاری کا دامن یکجا کرتی ہیں۔ ممتاز، قدیم و جدید، شاستہ، مجلسی۔“

یہ چار عناصر مل کر ادب کا اثر براہ راست قاری پر اثر انداز کرتی ہیں۔ انہوں نے تنقید کے تمام مغالطے ایسے دور کیے جیسے مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ یہ چاروں عناصر مل کر کسی بھی ادبی معاشرے کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

جدید شاعری کے میدان میں اترو تو مجھے ڈاکٹر شاہد اشرف صاحب کی مایہ ناز شخصیت اوزاروں سے لبریز تھیلا ایک طرف جس میں چھوٹے موٹے سارے اوزار مہذب لہجہ اور قہوہ کا کپ اپنے اپنے فن کی مہارت ظاہر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف روانی کے ساتھ تمام ڈنٹر ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں اوزار دوسرے ہاتھ میں قہوہ کا کپ پکڑے بیان فرماتے ہیں :

” اگر سو سال پہلے کا انسان آج آ جائے تو لمحہ حیرت میں گم ہو جائے۔“

4 مارچ 2022 کا دن کلاس رواں دواں تھی سوال ”خود شناسی“ کا وارد ہوا۔ تب اوزار نکالتے ہوئے دائیں، بائیں ہاتھ کر کے مجسمہ سازی شروع کی۔

” پتھر میں تصویر ہوتی ہے مجسم ساز اس کو منظر عام پر کرتا ہے۔ اسی طرح میرے اور آپ کے اندر ایک فنکار موجود ہے جو خودی کے ذریعے سامنے آتا ہے۔“

اگر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کا تذکرہ ہو تو سب میں تقریباً عمر رسیدہ بھی ہیں مگر تجربہ ان کا بھی بڑھ چڑھ کر خود بولتا ہے۔ ان کی مجسمہ سازی ترجمہ نگاری کے میدان میں اپنی مثال آپ ہے۔ ان کا بنیادی مقصد اس فعل کو جو ان کے پاس موجود ہے آنے والی نسل میں منتقل کرنا ایک اپنا ہی ہے۔ تھیلا میں موجود اوزاروں کی کھٹک اور آہستہ آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان اوزاروں کے ساتھ راستے میں، سڑک کنارے، کلاس روم، آفس کسی بھی جگہ ملیں مجسمہ سازی کا فریضہ بھرپور طریقے سے سرانجام دیتے ہیں۔

جہاں تک ڈاکٹر عتیق انور صاحب کا احوال بیان کرو تو مجسمہ سازی میں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ معاشرے کے خدوخال، ماضی اور حال کی عکاسی ناول نگاری کے میدان میں وہ بھی اپنے ہتھیاروں سے لبریز خوب بیان کرتے ہیں۔ مجسمہ سازی کے ساتھ ساتھ ہلکی سی مسکراہٹ فن مہارت کا عمدہ نمونہ ہے۔ مارچ 2022 کی بات کلاس میں بیٹھے تو میدان میں ”تعصب“ آن کھڑا ہوا۔ پھر اس ’تعصب ”کے ساتھ جو حال ہوا ہم دیکھتے ہیں۔

جیسے اس لفظ نے کمرہ میں قدم رکھے ڈاکٹر عتیق انور صاحب نے بیگ کو میز پر رکھتے ہوئے ”تعصب“ کو گردن سے پکڑا اور اور بیگ میں سے ہتھوڑی نکالتے ہوئے کہا:

” تم ہمارے ہاں حقیقت اور جدیدیت کو قبول کروانے میں رکاوٹ ہو۔ تم نے ماضی کے ہندوستان میں بھی ہمارے لوگوں اور بچوں کو اپنا شکار بنایا اور تعلیم سے باغی کروایا یہاں سے بھاگ جا نہیں تو گلا کاٹ کر رکھ دوں گا۔“

یہ شکر سر کی نظر پڑ گئی ورنہ وہ ہم پر حملہ کر کے اپنا مقید کر لیتا۔ دوسری جانب ان کی مسز اور شعبہ اردو کے مایہ ناز استاد ڈاکٹر نورین کھوکھر جو عرصہ دراز سے اس یونیورسٹی میں تدریسی عمل کو تقویت دینے میں نمایاں ہیں۔ افسانہ نگاری کے شعبہ میں خدمات سنہرے حروف میں لکھنے والی ہیں۔ جیسے ہی کلاس میں داخل ہو کسی نہ کسی رنگ اور لہجہ میں ان کا تجزیہ براہ راست طالب علم اور اس کی داخلی کیفیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

ڈاکٹر نورین کھوکھر کا لیکچر ایک بوسٹر ڈوز کی طرح ہے۔ احساس کمتری کا شکار انسان بھی اگر ان کا لیکچر سن لے تو ایک با ہمت انسان بن جاتا ہے۔ وہ زندگی گزارنے کے اصول اپنے شاگردوں کی عملی زندگی میں شامل کر دیتی ہیں۔ بالخصوص آداب گفتگو اور آداب محفل سے لبریز تھیلا بات کو موقع محل کے مطابق کرنا اور الفاظ کا چناوٴ ان کے مزاج کا خاصہ ہے۔ تحمل سے بات سنتی اور نرم گو ہیں۔ ان کی مجسمہ سازی ادب برائے زندگی کی قائل ہیں۔ زندگی کے تمام تر پہلووٴں کو ایک حساس نگاہ سے دیکھتی ہیں اور یہی فراست اپنے اوزاروں سے مزاج کا حصہ بنا دیتی ہیں۔

ڈاکٹر محمد طاہر شہیر ظریفانہ مزاج میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اپنے شاگردوں میں تخلیقی صلاحیتوں کی بیداری کی بات کی جائے تو طاہر شہیر ایسے مجسمہ ساز ہیں کہ جو شخص ( پتھر) ایک جملہ بھی نہ لکھنے پا رہا ہو اس سے بہترین قسم کی تخلیق کاری کروا سکتے ہیں۔ ان کا تجزیہ مزاح اور علم سے بھرپور ہوتا ہے۔ پریشان کن باتوں اور جملوں سے بھی وہ مزاح نکال لیتے ہیں۔ نرم گو اور شفیق مزاج ہیں۔ اپنے اوزاروں کی سریلی آوازوں سے ہمیشہ موٹیویٹ کرتے ہیں۔ جو ان کی ہنرمندی کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ شخصیت کا اندازہ بے جان لفظوں کو جاندار بنا کر سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔

یہی وہ بنیادی ادب ہے جو ابتدائے کائنات سے چلتا آ رہا ہے جو داخلی اور خارجی دونوں اعتبار سے اپنا عکس اس دنیا پر واضح کرتا دکھائی دیتا ہے اور ایف۔ سی کالج یونیورسٹی کا منظرنامہ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments