سوشل میڈیا کا بے محابا استعمال


جب سے سوشل میڈیا تک ہر خاص و عام کی رسائی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا آ گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اس کا استعمال، منفی مقاصد کے لئے، کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔ اپنے مخالفین پر بلکہ کسی بھی شخص پر ، اسے بدنام کرنے کے لئے، کوئی الزام لگا دینا اب بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ قلم ہاتھ میں آ جانے سے، لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا مباح نہیں ہو جاتا، دوسروں کا احترام بہرحال اسی طرح واجب رہتا ہے جیسے عام زندگی میں۔ اس تغیر پذیر دنیا میں نئی نئی ایجادات کی سہولیات سے استفادہ کرنا، ہر شخص کا حق ہے، لیکن ہر نئی ایجاد کے استعمال کے ساتھ ذمہ داری میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہم سہولیات سے بہرہ مند تو ہونا چاہتے ہیں لیکن اس سے منسلک ذمہ داری کا احساس نہیں کرتے۔

بر صغیر پاک و ہند کے لوگ بالعموم اور پاکستان کے بالخصوص بہت جذباتی ہیں۔ ہم جب کسی بات کو منوانے پہ آ جائیں تو ہمارے لئے سچ اور جھوٹ کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ تو ممکن ہے کہ زیب داستاں کے لئے جعل سازی یا مبالغہ آمیزی کا سہارا لے کر کوئی وقتی مفاد حاصل کر لے لیکن سچ کے عیاں ہونے پر وہ اپنا اعتبار کھو بیٹھتا ہے۔ آج پاکستان کا المیہ یہی ہے اور اسی وجہ سے ہم تنہائی اور جگ ہنسائی کا شکار ہو رہے ہیں۔

میرے نزدیک کسی ظلم یا نا انصافی پر استغاثہ کے لئے اپنے دعوے میں سنسنی خیزی پیدا کرنے کے لئے مبالغہ آمیزی کا سہارا لینا اپنے دعوے کو کمزور کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ میں یہاں ایک مثال دوں گا: سر نگر، کشمیر میں 13 جولائی 1931ء کو پیش آنے واقعے میں 22 افراد شہید ہوئے تھے۔ شیخ راشد عالم کے نوائے وقت کے شمارے 17 جولائی 2020ء میں لکھے گئے مضمون ’علی الاعلان‘ کا ایک اقتباس دیکھیے :

’چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ سنٹرل جیل سری نگر کے باہر موجود عوام کے جم غفیر نے ظہر کی نماز کی ادائیگی کے لیے اذان دینا چاہی تو اس وقت کے ظالم ڈوگرہ حکمران کی فوج نے ظلم کی انتہا کردی۔ مسلمان مجمع میں سے ایک نوجوان نے اذان دینے کے لیے جیسے ہی اللہ اکبر کہا ڈوگرہ فوج کے سپاہی کی بندوق سے نکلنے والی گولی نے اس کی آواز خاموش کرا دی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایمان کی حرارت نے لہو گرما دیا ایک اور نوجوان آگے بڑھا اور اس نے بھی اللہ اکبر کی صدا دی۔

پھر گولی چلی اور ایک اور نوجوان اللہ کے نام پر قربان ہو گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے مجمع میں سے نوجوان اذان کی تکمیل کے لیے اٹھتے رہے اور ایک ایک کر کے قربان ہوتے رہے۔ اس وقت اذان کے 15 کلمات کی ادائیگی کے لیے 22 نوجوانوں نے اپنی شہادت کا نذرانہ پیش کیا اور اذان مکمل کر کے فسطائیت اور بربریت کے علم برداروں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ مسلمان ہر چیز پر سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اسلام پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔ اذان کی ادائیگی کے لئے 22 نوجوانوں کی شہادت فسطائیت کا تابوت بن گئی‘

سید شبیر احمد نے ’ہم سب میں‘ ’13 جولائی۔ یوم شہدائے کشمیر‘ کے عنوان سے 13 جولائی 2020ء کو اس واقعے کے بارے میں لکھا اور اسے وہی رنگ دیا جو اوپر بیان ہوا ہے۔ پھر تو لوگ اس واقعے کی اسی تاویل کو برحق سمجھتے ہوئے لے اڑے اور وٹس ایپ کے ذریعے دوسروں تک پہنچانے لگے۔

میری تحقیق کے مطابق13جولائی1931ء کو لوگ ہزاروں کی تعداد میں جیل کے باہر جمع ہو گئے (اندازہً تعداد چار سے پانچ ہزار تھی) ۔ وہ عبداللہ قدیر، جس پر ڈوگرہ راج کے خلاف تقریر کرنے پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا، کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے اس کی رہائی کا اور جیل کے اندر جا کراس کے مقدمے کی کارروائی دیکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے جیل کے اندر جانے کی کوشش بھی کی۔ ایک بجے کے قریب سب لوگ ظہر کی نماز ادا کرنے کے لئے صفیں باندھنے لگے۔ اس دوران گورنر، ترلوک چند، نے آ کر پولیس کو ان لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا، جنہوں نے جیل کے اندر جانے کی کوشش کی تھی۔ پولیس نے پانچ افراد کو گرفتار کر لیا۔ جس سے لوگوں کے جذبات میں مزید اشتعال پیدا ہوا اور انہوں نے جیل کے گیٹ پر چڑھائی کر دی اور

اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ گورنر اپنے حواس برقرار نہ رکھ سکا اور پولیس کو فائرنگ کا حکم دے دیا۔ پولیس نے پندرہ منٹ میں ایک سو اسی راؤنڈ فائر کیے ( بحوالہ دلال انکوائری کمیشن۔ برجور دلال، چیف جسٹس ہائی کورٹ سری نگر) ۔ پولیس کی فائرنگ سے 17 افراد موقعہ پر اور 5 زخمی ہونے کے بعد ، جامعہ مسجد میں شہید ہو گئے (یوسف صراف، چیف جسٹس، آزاد کشمیر ہائی کورٹ۔ کشمیریز فائٹ فار فریڈم) اور چالیس افراد شدید زخمی ہوئے۔ میں یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ محض داستان طرازی کے لئے اس واقعہ میں مبالغہ آمیزی کا عنصر شامل کر کے اذان کی جو کہانی گھڑی گئی ہے، وہ خود ساختہ ہے۔ میں اس بے سرو پا بیان کی تائید، کسی بھی حوالے سے، کرنے سے قاصر ہوں۔ کسی کو پر امن احتجاج کرنے پر جان سے مار دینا انتہائی گھناؤنا جرم ہے۔ مسلمانوں کا یہ قتل عام بہیمانہ اقدام تھا، جو قابل مذمت ہے۔ لیکن یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ سے مذہبی جذبات کو تو ابھارا جا سکتا ہے لیکن اس سے اصل مقدمہ مضبوط نہیں، کمزور ہو جاتا ہے۔

اسی طرح شیخ عبداللہ سے نفرت کی بنا پر اس کی اہلیہ بیگم اکبر جہاں کے بارے میں کچھ لوگوں نے اپنی ہی کہانیاں گھڑ رکھی ہیں۔ شیخ عبداللہ کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس اختلاف کو نفرت کی سان پر چڑھا کر اس کے خاندان کو بھی اس کی لپیٹ میں لے لینا دانش مندی نہیں ہے۔ شیخ عبداللہ نے کبھی بھی پاکستان کے قیام کی مخالفت نہیں کی تھی۔ جب کہ اس دور کے بہت سے مسلمان مشاہیر، جو صاحب علم و عقل و دانش تھے، نے بوجوہ ایسا کیا تھا۔ ان میں مولانا عبدالکلام آزاد سر فہرست ہیں۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، علامہ عنایت اللہ مشرقی، خان غفار خان اور عبدالصمد اچکزئی سبھی اس گروہ میں شامل تھے۔ عامۃ المسلمین سے ہٹ کر ، یہ روش اختیار کرنے پر ، ان سب کی اپنی اپنی توجیہات و توضیحات تھیں۔ آج کے دور میں اس دور کی سیاست کا ادراک کرنا ذرا مشکل ہے۔

ڈاکٹر صفدر محمود نے 27 اگست 2019ء کو جنگ میں ایک کالم لکھا ’لاہور کا شعبدہ باز پیر اور شیخ عبداللہ کی شادی، ۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا سال بھر پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ االلہ ان کی مغفرت فرمائے۔ اگرچہ انہوں نے نادانستہ یا کچھ غیر ارادی غلطیوں کے سوا حقائق لکھے ہیں لیکن ان کا انداز استہزایہ تھا۔ ان کی تحریر سے شیخ عبداللہ سے رنجش اور آزردگی اور مخاصمت کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ اب وٹس ایپ پرایک سٹوری گردش میں ہے، جس میں اس داستاں کو بالکل ایک نئے رنگ میں بیان کیا گیا ہے۔ میں اصل داستان کو ، حوالہ جات کے ساتھ، حقیقی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے حقائق تک پہنچنے کے لئے، یوسف صراف، چیف جسٹس، کی کتاب کشمیریز فائٹ فار فریڈم، اور نائلہ علی خان، وزیٹنگ پروفیسر آف یونیورسٹی آف اوکلا ہوما، کی کتاب‘ دی لائف آف اے کشمیری وومن ’سے اکتساب کیا ہے۔

بیگم اکبر جہاں عبداللہ

مائیکل ایڈم نیڈو (Michael Adam Nedou) ، جو آرکیٹیکٹ تھا، کروایشیا (Croatia) کے شہر ڈبرواونک (Dubrovnik) سے نقل مکانی کر کے 1862ء میں ممبئی آیا۔ وہیں اس نے ایک برطانوی عورت جیسی ماریا (Jesse Maria) سے شادی کی۔ چھے بیٹیوں کے بعد ان کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوئے۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام مائیکل ہنری نیڈو تھا جو 1877ء میں پونا میں پیدا ہوا۔ مائیکل ہنری نیڈو بعد میں ہیری نیڈو کے نام سے مشہور ہوا۔ مائیکل ایڈم نیڈو نے ہوٹل کا کاروبار کراچی میں ’سندھ پنجاب ہوٹل‘ خرید کر شروع کیا۔

بعد میں 1870ء پنجاب کے ایک بہت بڑے ٹھیکیدار، رائے بہادر میلا رام، کی وساطت سے لاہور میں موجودہ مال روڈ پر ’نیڈو ہوٹل‘ تعمیر کروایا (یہی ہوٹل اب اواری ہو ٹل کہلاتا ہے ) ۔ مائیکل ایڈم کو 1887ء میں پچیس سال برطانوی ہند میں رہنے کے بعد برطانوی شہریت دے دی گئی۔ اس وقت اس کی عمر پچاس سال تھی۔ اسے شہریت کی سند لیفٹیننٹ گورنر پنجاب چارلس امفرسٹن ایچنسن (C U Aitchinson) نے دی تھی۔ مائیکل ایڈم نیڈو اور اس کے وارثین نے 1888ء میں گلمرگ اور 1900ء میں سری نگر، کشمیر میں دو مزید ہوٹل تعمیر کروائے۔

گلمرگ کے ہوٹل کا انتظام مائیکل ہیری نیڈو کے سپرد تھا۔ ایک دن وہ ہوٹل کے لان میں بیٹھا تھا کہ ایک مقامی لڑکی، میر جان، ہوٹل میں دودھ دینے کے لئے آئی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ آج وہ اپنے باپ کی جگہ یہ کام کرنے آئی تھی۔ ہیری اس لڑکی کے حسن سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے شادی کی پیش کش کردی۔ لڑکی نے برہمی کا اظہار کیا۔ اس کے اصرار پر لڑکی نے اسے اپنے ماں باپ سے رابطہ کرنے کا کہا۔

مائیکل ہیری نیڈو نے جب لڑکی کے ماں باپ، جو راجپوت خاندان سے تھے، سے بات کی تو انہوں نے اپنی بیٹی سے اس کی شادی کے لئے ایک ہی شرط رکھی، کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ ہیری نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا اسلامی نام آقا شیخ احمد حسین رکھا گیا۔ لڑکی کا نام میر جان تھا اور شادی کے بعد، وہ رانی جی کے نام سے پکاری جانے لگی۔ کئی سالوں تک ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوا تووہ نہال پورہ، پتن، کشمیر میں مولوی محی الدین سے دعا کے خواست گار ہوئے۔ انہیں اللہ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی دی۔ بیٹی کا نام اکبر جہاں رکھا گیا۔ اس نے سری نگر کے کانونٹ سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اسے اسلامی، یعنی قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم بھی دلوائی گئی۔ وہ قرآن کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھی۔ جوان ہونے پر اس کی شادی ایک ایسے وجیہ شخص سے کر دی گئی، جو پیر ہونے کا دعوے دار تھا۔

کچھ روایات کے مطابق اس شخص کا نام پیر کرم شاہ تھا اور اس کا تعلق ہزارہ سے تھا۔ یہ پھرتا پھراتا کشمیر پہنچا تھا۔ اکبر جہاں کا باپ اس سے بہت متاثر ہوا اور اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے دی۔ اس شخص نے ممبئی میں جا کر اپنا ٹھکانہ بنایا اور پیری مریدی شروع کر دی۔ یہ کوئی زاہد و عابد شخص نہیں تھا، اس نے محض پیری مریدی کا ڈھونگ رچا رکھا تھا۔ اس کا یہ کاروبار ممبئی میں زیادہ دیر نہ چل سکا۔ کسی محفل میں اس کے کردار کی اصلیت ظاہر ہونے پر اسے ممبئی سے نکلنا پڑا۔ اب یہ لاہور میں راوی روڈ کے علاقے میں آ کر آباد ہو گیا۔ یہ 1929ء کی بات ہے۔ اس کی بیوی، اکبر جہاں، اس کی اصلیت سے واقف ہو چکی تھی اور اس سے نالاں رہنے لگی تھی۔

اس زمانے میں انگریزوں کا ایک جادوئی کردار، کرنل لارنس آف عریبیہ، جس نے عربوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف صف آرا کیا تھا، خاصا مشہور ہوا تھا۔ اتفاق سے اس شخص کی شکل لارنس آف عریبیہ سے ملتی جلتی تھی۔ اسی وجہ سے لاہور کے کچھ لوگوں نے غلط فہمی میں کرم شاہ کو لارنس آف عریبیہ سمجھتے ہوئے زد و کوب کیا تھا۔ لاہور میں اس کا پیری مریدی کا کاروبار خوب چلا۔ خوب صورت ہونے کے باعث، اس کے حسن کی کشش میں بہت سی عورتیں بھی اس کی گرویدہ ہونے لگیں اور اس کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

پہلے اس کی نا پسندیدہ سرگرمیاں گھر سے باہر تک محدود تھیں لیکن آہستہ آہستہ اس نے کھل کھیلنا شروع کر دیا۔ خبث باطن کا اظہار، جب عورتوں سے اختلاط کی صورت میں گھر میں کھلے بندوں ہونے لگا تو نتیجتاً اپنی بیوی سے اس کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو گئے۔ اور آخر حالت بیوی کے ساتھ بد کلامی اور تشدد تک جا پہنچی۔ اکبر جہاں سخت پریشان تھی کہ وہ اس نوسر باز سے کس طرح رہائی حاصل کرے۔

میاں علیم الدین جو لاہور سیکریٹیریٹ میں کام کرتے تھے (انہوں نے یہ واقعہ شورش کاشمیری کے جریدے چٹان میں 1950 کی دہائی میں چھپوایا تھا) بیان کیا ہے کہ ایک دن انہوں نے کرم شاہ کی بیوی کو کھڑکی میں کھڑے زار و قطار روتے دیکھا۔ اس نے ہاتھ باندھ کر اپنی رہائی کے لئے مدد کی درخواست کی۔ شام کو یہ اپنے چار دوستوں اور پولیس کے سپاہی کے ساتھ کرم شاہ کے گھر جا دھمکے۔ کرم شاہ وہاں قالین پر نشے میں دھت پڑا تھا۔ پولیس کو دیکھ کر سہم گیا۔

اسے بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک کمرے میں بند کر رکھا ہے اور اسے مارتا پیٹتا بھی ہے۔ اسے گرفتار کرنے کے لئے پولیس کی اور نفری بھی آ رہی ہے۔ علیم الدین کے دوسرے ساتھی آغا نے اسے گھونسہ دے مارا۔ اس کا سر ایسا چکرایا کہ وہ قالین پر ڈھیر ہو گیا۔ علیم الدین نے چاقو اور ان کے تیسرے ساتھی، منوہر لعل، نے ایک ٹامی پستول نکال لیا اور اسے کہا کہ اگر اس نے شور شرابا کرنے کی کوشش کی تو اسے فوراً ہلاک کر دیا جائے گا۔

اب کرم شاہ ہوش میں آ گیا اور پوچھا کہ وہ اس سے کیا چاہتے ہیں؟ اسے کہا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو ان کے سامنے لائے۔ وہ اسے ایک کمرے کا تالا کھول کر لے آیا۔ دو دن کے فاقے سے تھی اور اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اسے کچھ کھلایا پلایا گیا، جس پر اس کے ہوش بحال ہوئے۔ اس خاتون نے اس نوسر باز کی ایسی ایسی باتیں سنائیں کہ سب کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آخر میں اس نے التجا کی کہ اسے طلاق دلائی جائے۔

کرم شاہ کو اب اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ اسے یقین ہو چلا تھا کہ اسے واقعی جان سے مار دیا جائے گا سو وہ زار و قطار رونے لگا اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ خدا کے لئے اس کی جان بخشی کر دی جائے۔ جب اسے آخری مرتبہ انتباہ کیا گیا تو کچھ دیر سوچ کر اس نے تین بار کلمہ پڑھا اور اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس پر وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں گیا، وہاں سے بیوی کے زیورات کی صندوقچی اٹھا لایا اور اسے اپنی بیوی کے حوالے کر دیا۔

تین چار ہزار روپے نقد بھی دیے۔ وہ خاتون دوسرے دن کشمیر روانہ ہو گئی۔ اس طرح یہ معاملہ بخوبی طے پا گیا۔ یہی خاتون بعد میں اپنے والدین کی رضامندی سے شیخ عبداللہ کی اہلیہ بنی۔ شیخ عبداللہ آزادی کشمیر کے سلسلے میں جو جلوس سری نگر سے نکالا کرتے تھے، ان کی قیادت یہ خاتون کیا کرتی تھی۔ وہ صحیح معنوں میں شیخ صاحب کی رفیقہ حیات ثابت ہوئی۔ 1953ء میں جب استصواب رائے کی مہم جاری تھی تو اس خاتون نے اس سلسلے میں بہت کام کیا۔ اس کا رجحان پاکستان کی طرف تھا۔ اسی وجہ سے اس پر بعد میں پاکستان نواز ہونے اور پاکستان کے خفیہ اداروں سے فنڈ وصول کرنے کے الزامات لگے اور اس پر مقدمات بنائے گئے۔ اسی خاتون کو کشمیریوں نے ’مادر مہربان‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments