پشاور میں کمسن بچی ماہ نور کا قتل: لواحقین کا لاش پریس کلب کے سامنے رکھ کر احتجاج، پولیس سے انصاف کا مطالبہ

بلال احمد - بی بی سی اردو، پشاور


ماہ نور کے قتل پر احتجاج
’شام ساڑھے چھ بجے ماہ نور آئی کہ بابا مجھے چیزیں لینے جانا ہے دکان پر، دکان تو قریب ہی تھی تو میں نے ماہ نور کو جانے دیا اگر یہ پتا ہوتا کہ اس کا جانا آخری ہو گا تو میں اسے بالکل بھی نہ چھوڑتا۔‘

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کمسن بچی ماہ نور کے تشدد کے بعد کیے گئے قتل کے باعث ان کے اہلخانہ سمیت دیگر علاقہ مکین بھی سراپا احتجاج ہیں جبکہ اس بچی کے والد نذیر احمد غم سے نڈھال ہیں اور انصاف کی امید باندھے ہوئے ہیں۔

ماہ نور کے لواحقین کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی جا چکی ہے جبکہ پولیس نے لواحقین کو یقین دلایا ہے کہ وہ ہر زاویے سے تحقیقات کر رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق اتوار کی شب ریلوے کواٹرز تھانہ شرقی کی حدود میں ماہ نور کو قتل کیا گیا جس کے بعد ان پولیس نے ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوائی جس کی رپورٹ تاحال نہیں آئی۔

لواحقین کا دعویٰ ہے کہ ماہ نور کا قتل کرنے سے قبل مبینہ طور پر ریپ بھی کیا گیا تھا تاہم ایس ایس پی آپریشنز لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) کاشف آفتاب عباسی نے پشاور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’حتمی طور پر پوسٹ مارٹم رپورٹ کے آنے کے بعد ہی کہا جا سکے گا کا ریپ ہوا یا نہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر بچی کے سر پر گہری چوٹ اور گلے پر نشانات دکھائی دے رہے ہیں۔‘

گذشتہ روز ماہ نور کے لواحقین نے لاش پریس کلب کے سامنے رکھ کر سڑک بھی بلاک کی اور مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔

مغرب کی نماز کا ٹائم ہوا تو دل مزید ڈوبتا رہا کہ کہاں چلی گئی میری بیٹی

ماہ نور کے والد نذیر احمد نے جب بی بی سی سے بات کی تو وہ غم سے نڈھال تھے۔ انھوں نے ماہ نور کی گمشدگی کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جب ماہ نور کو دکان سے چیز لینے روانہ ہوئے پندرہ منٹ گزرے تو ان کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگا۔

ماہ نور کے قتل پر احتجاج

وہ بتاتے ہیں کہ ’باہر گلی میں بھتیجے کو بھیجا کہ جاؤ ماہ نور نے اتنی دیر لگا دی پتا کرو، بھتیجا جب دکان پر گیا تو دکاندار نے کہا کہ وہ تو اپنی چیزیں لے کر کب کی جا چکی ہے۔‘

’اس دوران مغرب کی نماز کا ٹائم ہوا تو دل مزید ڈوبتا رہا کہ کہاں چلی گئی میری بیٹی۔ پھر ہر گلی اور گھر گھر جا کر پتہ کیا مگر کچھ پتہ نہ چل سکا۔‘

نذیر احمد کے مطابق ’ساڑھے دس بجے کے قریب جو لوگ ڈھونڈنے میں مصروف تھے ان کو ماہ نور کا چپل ملا اور پاس ہی چیونگم جو دکان سے لی تھی وہ بھی پڑی ملی۔‘

’پھر ادھر ہی کچھ ہی فاصلے پر ماہ نور کی لاش پڑی ملی۔ اس کے سر پر چوٹ کا تازہ نشان تھا اور گلے میں اسی کے دوپٹے سے پھانسی دی گئی تھی۔‘

نذیر احمد بتاتے ہیں کہ ان کے چھ بچے ہیں، دو بیٹے اور چار بیٹیاں۔ ماہ نور بیٹیوں میں سب سے چھوٹی تھی اور تیسری کلاس کی طالبہ تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

جاوید اقبال: ’100 بچوں‘ کا سفاک قاتل کیا شہرت کا بھوکا ذہنی مریض تھا؟

مردان: پانچ سالہ بچی کے قتل کا معمہ حل نہیں ہو سکا

مردان: بچی کو ریپ اور قتل کرنے کے کم عمر مجرم کو مجموعی طور پر 88 برس قید کی سزا

آٹھ سالہ بچی کے قاتل کو سزائے موت، سہولت کار کو عمر قید

’میں تو سڑک کنارے گرمیوں میں شربت اور سردیوں میں پاپڑ بیچتا ہوں، ماہ نور اکثر گھر میں میرا ہاتھ بٹاتی تھی۔ وہ چھوٹی تھی مگر کام اس کے بڑوں جیسے تھے۔ میرا انتظار کرتی تھی کہ بابا گھر کب واپس آئیں گے، دن میں ایک دو بار باہر میرے پاس آتی تھی میں شربت پلوا دیا کرتا تھا پھر واپس چلی جاتی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جس بندے نے بھی کیا اسے بالکل ترس بھی نہیں آیا کہ اس پھول جیسی بچی کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ ہماری کسی کے ساتھ دشمنی بھی نہیں تھی۔‘

نذیر احمد اپنے بھائی اور والدہ کے ساتھ پشاور میں مقیم ہیں۔ واقعے کے بعد میت آبائی علاقے میانوالی لے جائے گئی جہاں انھیں سپرد خاک کر دیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان تک پہنچنے کے لیے جدید سائنسی خطوط پر تفتیش کے دوران جیو فینسنگ اور موبائل ڈیٹا بھی جمع کیا جا رہا ہے جبکہ اطراف کے علاقوں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کی جا رہی ہے جبکہ ہیومن انٹیلیجنس کو فعال کر دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments