الٹ پلٹ


ہمارے ملک کی حکومت اور سیاست ستم ظریفی کے مترادف ہیں۔ جو ہو رہا ہے اور نظر اس کے الٹ آئے، جو ہمارے سامنے ہو مگر حقیقت اس کے بر عکس ہو اسے پاکستان کی سیاست یا ستم ظریفی کہتے ہیں۔ ستم ظریفی صورتحال کی بھی ہوتی ہے کردار کی بھی پلاٹ کی (یہ پلاٹ کی ستم ظریفی ملک ریاض کے پلاٹوں والی بھی ہے کہ جنہوں نے لئے انہوں نے ستم ظریفی کی) بھی اور کہانی کی بھی۔ سب سے بڑھ کر تاریخ کے حوالے سے ستم ظریفی ہوتی ہے ایسی ستم ظریفی کا استعمال ادب اور پاکستان میں یکساں طور پر رائج ہے۔

جو ہوتا نہیں وہ دکھایا جاتا ہے اور جو اصل میں ہوتا ہے وہ پنہاں رہتا ہے۔ حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کو دیکھ لیں عوام کو کچھ بتایا جاتا ہے ہوتا کچھ ہے جس کا پتہ سکرپٹ رائٹر اپنے ایپی لاگ میں خود بتاتا ہے مگر کافی وقت گزرنے کے بعد اور نئی حکومت کی افزائش کے واسطے۔ ہم پاکستانیوں کی گھٹی گھٹی سی زندگی اس اصطلاح میں نظر آتی ہے۔ ہماری زندگی کی داستان ستم ظریفی کی مثال ہی تو ہے۔ ہمیں باغ سبز دکھائے جاتے ہیں مگر حقیقت میں ان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ بس بلین ٹری سونامی ہی ہوتی ہے جسے پھر آگ لگانا پڑتی ہے کہ پاکستانی زیادہ سبز باغ ہی نہ دیکھ لیں اور ان میں رہنے کا تقاًضا کرنے لگیں!

ہم اس دیس کے باسی ہیں جس میں ایک صاحب نے چور چور کی رٹ لگا کے زمین آسمان ایک کر رکھے تھے اور ایک سو چھبیس دن دھرنا دیا تھا چوروں کو پکڑنے کا چانس لینے کے لئے، جونہی عنان حکومت سنبھالی حواس باختہ کی طرح ہو گیا کہ تھا کیا اور ہے کیا؟ جس پارٹی کے سربراہان کو اس موصوف نے پاکستان کے سب سے بڑے ڈاکو قرار دیا ہوا تھا انہی کے بغیر اس کی حکومت قائم نہ ہو سکی! جس آدمی کو وہ چپڑاسی بھی نہیں لگانا پسند کرتا تھا اسے وزارت کا قلمدان تھمانا پڑا۔

پتہ نہیں یہ اس کی ستم ظریفی تھی یا بے بسی؟ جس پارٹی کو وہ کہتا تھا کہ کبھی اس سے اتحاد نہیں بنائے گا وہی اس کی حکومت میں ایک ستون تھی اور جونہی وہ ستون سرکا اس کی حکومت دھڑن تختہ ہو گئی۔ جس آئی ایم ایف کے پاس جانا اس کے لئے خو کشی تھی اس نے شوق سے کر لی مگر ماتھے پر چند قطرے بھی نمودار نہ ہوئے۔ اسے کہتے ہیں پاکستانی سیاست! وہ جو اپنی پارٹی کو حقیقی جمہوری پارٹی کہتا تھا بوقت الیکشن الیکٹیبل مطلب لوٹے اکٹھے کر کے اکثریت حاصل کر سکا۔ مگر ستم ظریفی یہ کہ وہ ایسی کسی دلیل کو ماننے کو تیار نہیں۔ اب حالات کی ستم ظریفی کہ اس کی حکومت کو گرا دیا گیا اور اسی کو سب سے بڑا چور کہا جانے لگا اور جنہیں وہ چور کہتا تھا وہ اس کی جگہ حکومت میں آ گئے

وہ جن شخصیات کو گھریلو اور غیر سیاسی کہتا تھا وہی سوشل میڈیا کو ہدایات دیتی رہی ہیں۔ وہ اور اس کے اندھے فالوورز اسی بات کو لکھ پڑھ اور سن رہے ہیں جو انہیں ہدایت کی جاتی ہے۔ سچ کیا ہے یہ ایک ستم ظریفی ہے۔

چار سال ایک شخص نے احتساب کا واویلا کیے رکھا مگر اس احتساب سے سیاسی کردار کشی کا کام تو لیا مگر کسی بھی سیاست دان کو عدالت میں کرپٹ ثابت نہ کر سکا۔ آج کل وہی سیاستدان اس کی در بھی بنا رہے ہیں اور گت بھی اور اس پر سرکاری املاک سے چیزیں چرانے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ تاریخی بد عنوانی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اس کے خلاف آڈیو ویڈیو لیک کر کے اسے سب سے بڑا قومی مجرم قرار دیے جانے کی سعی جمیلہ کی جا رہی ہے!

اب جمہوریت کی نئی قسم متعارف کروا دی گئی ہے مگر ستم ظریفانہ! جان کی دشمن سیاسی جماعتیں مل کر حکومت کر رہی ہیں اور ایک ہی سوئی کے نکے سے گزر رہی ہیں، ! قوم واضح طور پر دو قطبین کی طرف نقل مکانی کر چکی ہے۔ ایک قطب کے لوگ دوسرے قطب کے لوگوں کو انسان ہی ماننے سے انکاری ہیں۔ کوئی جیالا کوئی پٹواری اور کوئی یوتھیا ہے انسانیت معدوم ہے۔ رواداری اور وضع داری کا جنازہ نکل چکا ہے۔ سوشل میڈیا تو سوشل میڈیا تھا اب ایک ٹی وی چینلز نے بھی واضح طور پر جھوٹ پھیلانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ پاکستان کا درد کہیں نظر نہیں آتا۔ اپنی کرسی چھن جانے کا غم اور دوبارہ حصول کی کوشش اور خواہش ہی نمایاں ہے۔ اے کاش کوئی میرے ملک کا بھی سوچے۔ اس میں بسنے والے کیڑے مکوڑوں کا بھی سوچے کہ یہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے چوبیس گھنٹے مصروف ہیں مگر افسوس پھر بھی بھوکے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments