ایاز امیر پر حملہ: تصویر کا دوسرا رخ


بلاشبہ ایاز امیر پاکستان کے چند اچھے لکھاریوں میں سے ایک ہیں۔ ان پر ہونے والے حملہ کو کسی بھی طرح مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا اور یقیناً اس کی مذمت ہی ہونی چاہیے اور ہو رہی ہے۔ میں ایاز امیر کو گزشتہ 25 سال سے فالو کر رہا ہوں۔ شاید ہی ان کا کوئی ایسا کالم ہو جو میری نظر سے نہ گزرا ہو۔ ان کے والد چوہدری امیر خان مرحوم 1970 کے قومی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ اپنے گاؤں بھگوال کی وجہ سے امیر بھگھوالیہ کہلاتے تھے۔

اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے حوالے سے تھوڑا نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر صوبائی ممبر اور پھر قومی اسمبلی ممبر منتخب ہوئے مگر ان پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جب قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے تو ان دنوں میں نے اپنے اخبار میں سرخی لگائی تھی اگر پارٹی ٹکٹ نہ ہو تو ایاز میر کونسلر بھی نہیں بن سکتے۔ اسی اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر لگائی تھی کہ ایاز امیر لوگوں کو پوٹوں سے ہاتھ ملاتے ہیں۔

یہ عوامی آدمی نہیں ہیں۔ اس بات کو ایاز امیر نے محسوس کیا اور انہی دنوں میری ان سے ملاقات ایک یوتھ ونگ کے کارکن کی شادی میں ہوگی وہ مجھے گرم جوشی سے ملے مگر ساتھ پوٹوں والی بات کا شکوہ بھی کر ڈالا۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ جناب میں عوام کی بات کر رہا تھا مجھے تو ملنے کا کبھی شوق نہیں رہا۔ ابھی جس سیمینار سے وہ خطاب کر رہے تھے۔ میں نے ان کا سارا خطاب سنا عمران خان سامنے بیٹھے تھے۔ ان کی بھرپور تعریفیں کیں ان سے کہا کہ آپ نے طاقتور حلقوں کے خلاف جس طرحResistance یعنی مزاحمت دکھائی ہے۔ آج تک کوئی نہیں دکھا سکا۔

جس شخص کے سامنے مزاحمت کے حوالے سے تعریف کے پل باندھ رہے تھے وہ خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے۔ یعنی قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف جلسے جلوسوں میں پروپیگنڈا کرنے کو مزاحمت قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ ان کو میاں محمد نواز شریف میاں محمد شہباز شریف حمزہ شہباز اور مریم نواز شریف کی قید و بند کی صعوبتیں بھول گئی ہیں۔ عمران خان سے ملاقات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے ان سے تین گزارشات کیں کہ پولی بیگ پر پابندی لگائی جائے سیمنٹ فیکٹریاں علاقے کا حسن تباہ کر رہی ہیں اور میرا جو شوق ہے، اس کے لئے آسانی پیدا کریں۔ یہ جو تیسری گزارش کی ہے یہ آپ ان کے اکثر کالم اور یہاں تک کہ ٹی وی پروگراموں میں بھی سنیں گے۔ کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اس لیے بات کو تھوڑا گول مول کرتے ہیں مگر سمجھنے والوں کو باآسانی سمجھ آجاتی ہے۔ اسی وجہ سے میں نے دس سال قبل ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ایاز امیر اور شراب اس میں بھی ان سے درخواست کی تھی کہ آپ ایک نامور لکھاری ہیں آپ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ آپ قومی میڈیا پر آ کر اس طرح کی بات کریں لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں ہر انسان میں عیب موجود ہوتے ہیں مگر ان پر ان پر سرعام بات کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔

اسی سیمینار میں انہوں نے قومی سلامتی کے اداروں پر کھل کر تنقید کی جو کہ میرے لیے باعث حیرت تھی۔ کیونکہ ایاز امیر کے کیریئر کا آغاز اسی ادارے سے ہوا اور یہ ہمیشہ ان اداروں کا دفاع کرتے نظر آئے مگر اس دن انہوں نے ایسی باتیں کیں۔ جیسے وہ ہوش میں نہ تھے۔ میں جب ان کی باتیں سن رہا تھا تو دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہمارے پڑوسی ممالک چین اور بھارت میں اگر کوئی اس طرح کی کھل کر تنقید کرے تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہو۔

مجھے بھی قومی سلامتی کے اداروں سے اختلافات ہو سکتے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں ہم رات کو پرسکون نیند ان ہی کی وجہ سے سوتے ہیں۔ ہمارے جوان اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر چاروں طرف سرحدوں پر چوکس نظر آتے ہیں۔ اگر ہم اپنے قومی سلامتی کے اداروں کو بی سپورٹ نہیں کریں گے تو پھر کس طرح ملک کا نظام چلے گا قومی سلامتی کے اداروں کو پراپرٹی ڈیلر کہنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ اس وقت ہمارا ملک جن مسائل سے دوچار ہے اور ہمیں اپنی سرحدوں پر جس طرح کے خطرات موجود ہیں۔

یہ قومی سلامتی کے ادارے ہیں جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تحفظ دے رکھا ہے۔ ائرکنڈیشن آڈیٹوریم میں باتیں کرنا بڑا آسان ہے مگر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو سعودی عرب نے اپنا سب سے بڑا اعزاز ایسے ہی ہمارے سپہ سالار کو نہیں دے دیا۔ آج کل کچھ لوگوں سے یہ کہتے سنتا ہوں کہ ایسے تو مارشل لاء دور میں بھی نہیں ہوتا تھا تو ان سے گزارش ہے کہ شاید آپ نے جنرل ضیاء الحق کے کوڑے کھائے نہیں ہیں یا پھر آپ بھول گئے ہیں۔ اس دور میں جس طرح سوشل میڈیا پر قومی سلامتی کے اداروں پر آپ تنقید کر رہے ہیں اس دور میں ایک خبر لگانا بھی مشکل تھا۔ قوم قومی سلامتی کے اداروں کی تکریم کرنا چاہتی ہے لیکن بدقسمتی سے چند طالع آزماؤں نے ان اداروں کو متنازع بنا دیا ہے۔

ایاز امیر کی قومی سلامتی کے اداروں کی نظر میں بڑی عزت تھی مگر سیانے کہتے ہیں عزت بنانے کے لیے سالہاسال چاہیے ہوتے ہیں اور ختم کرنے کے لئے چند سیکنڈ بھی کافی ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایاز امیر کو اس طرح بے عزت کیا جائے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے آپ کی زبان کے پیچھے پہاڑ جب آپ بولتے ہیں تو یہ پہاڑ ختم ہو جاتا ہے اور ایسے ہی ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments