ابو کی چند یادیں اور باتیں


آج چھ جولائی کا دن میری زندگی کا سب سے غمگین دن ہے۔ اسی دن کو میرے ابو مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ ہمارے ابو ہمارے لئے سب کچھ تھے دنیا کا ہر رشتہ دنیا کا ہر سکوں ہمیں اپنے ابو سے ہی ملتا تھا۔ دنیا کے ہر دکھ ہر پریشانی کا حل ہمیں اپنے ابو سے ہی ملتا تھا۔ پردیس میں رہ کر مجھے اپنے ابو سے دور رہنا پڑا۔ جس کا افسوس مجھے ساری زندگی رہے گا۔ پردیس کی مجبوری روزگار کی فکر ہمیں کیسے اپنوں سے جدا کر دیتی ہے اس کا اندازہ مجھے ابو سے بچھڑنے کے بعد ہوا۔

میں باہر نہیں آنا چاہتی تھی۔ مجھے میرے ابو نے زبردستی باہر بھیجا تھا۔ فون پر مجھ سے بات کرتے تھے کہتے تھے میں بالکل ٹھیک ہوں آپ میری فکر مت کی کریں۔ اپنے ملک میں رہتا ہوں اپنے پاتھوں سے اپنے بچے پال کر پڑھا ان کو، اپنے گھر بار کا کیا ہے۔

مجھ جیسا خوش نصیب شخص اور کون ہو گا ساری زندگی اپنی مرضی سے گزاری ہے۔ اپنے فیصلے خود کیے ہیں آج آپ لوگ باہر ہو تو میرے لئے سکون ہے۔ پاکستان میں ہوتے تو برادری کے زمینوں کے رشتے داروں کے جھگڑے ہوتے تو مجھے آپ لوگوں کی فکر ہوتی۔ اب میں آزاد ہوں مری روزے گزارنے آیا ہوا ہوں عید پر گھر چلا جاؤں گا۔ ہمارے ایک ہی بھائی تھے ان کو بھی باہر بھیج دیا اور ایسے لگتا جیسے ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہو ہم سب کو نکالنا۔

کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ ہم سے پیار نہیں کرتے جو سب کو اپنے ملک سے نکالنا چاہتے ہیں اور ویزہ ملنے پر خوش ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم پاکستان میں سیٹ تھے اور نہ وہ خود باہر ہمارے پاس آ کر رہنا چاہتے تھے۔ چھ جولائی کو صبح تین بجے میری بہن کی کال آئی اور اچانک سے اس آواز نے مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا۔ باجی ابو جی فوت ہو گئے ہیں۔ یہ الفاظ آج تک میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔

میرے پاس بہن بھائی بچے دوست گھر اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت ہے۔ مگر میرے ابو میرا سب کچھ تھے میرا یقین میرا اعتبار میرا بھروسا میرا سہار میری زندگی کی ایک گائیڈ لائن۔

جن کے بغیر ہر فیصلہ ہر خوشی ادھوری اور نامکمل ہوتی ہے۔ میرے ابو ہمیں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات سکھاتے ہوتے ایک دوست کی طرح۔ میری سہیلیوں سے پوچھتے ہوتے کہ میری بیٹی کی پسند ناپسند کیا ہے۔ جب کبھی میری کوئی دوست گھر آتی تو اتنے خوش ہوتے گھر کی چھت پر چلے جاتے تاکہ ہم فری ہو کر گپیں لگا سکیں۔ ان کا ایک رتبہ تھا گھر کے بڑے خاندان کے لوگ سب ان کے سامنے ادب سے بات کرتے تھے۔ کسی کو فروٹ لینے بھیجتے تو کبھی بھی صرف اپنے لئے فروٹ یا گوشت نہیں منگواتے تھے اس کو ہمیشہ ڈبل چیز لانے کا کہتے ہوتے۔

جب وہ لے آتا تو ایک حصہ چیز کا لے لیتے اور دوسرا اس کو کہتے یہ تم اپنے گھر لے جاؤ۔ گاؤں میں عید پر جاتے ہوتے تو محلے کے بچے بھاگ بھاگ کر آ جاتے کہ ملنے جائیں گے تو پیسے ملیں گے۔ کوئی خالی ہاتھ واپس دارے سے نہ اترتا اور اردگرد بہت سا مجمع لگ جاتا چارپائیاں کم پڑ جاتیں ساری رات رونق ہوتی سب کھانا وہیں کھاتے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی گاؤں میں گئے ہوں اور اکیلے کھانا کھایا ہو کسی نہ کسی کو دعوت دے دیتے ہوتے۔

شہر میں ہوتے تو کبھی اپنے یا فیملی کے کپڑے خریدنے جانا ہوتا تو ڈرائیور کے لئے بھی وہی خریدتے ہوتے جو خود کے لئے خریدتے تھے۔ گاڑی ڈرائیو کرنا نہیں جانتے تھے تو بھائی کہتے ابو آپ کو گاڑی چلانی آتی ہوتی تو داود کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔ آگے سے کہتے ہوتے بس شروع سے یہی سوچا تھا کہ اللہ گاڑی دے گا تو ساتھ ڈرائیور بھی دے گا اب اللہ نے گاڑی دی ہے تو داود صاحب بھی مل گئے۔ اس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے ہوتے ایک دن عید والے دن داود آیا تو سیدھا کچن میں آ گیا امی نے کہا آپ ڈرائینگ روم میں بیٹھیں کھانا بھجواتے ہیں۔

وہ آگے سے کہتا نہیں بھابی میں نے سمجھا آج ملک صاحب گھر پر نہیں ہوں گے تو سفید کلف لگے کپڑے پہن کر کہیں جا رہا تھا تو راستے میں مجھے مل گئے ان کو گھر چھوڑنے آیا ہوں مگر ان کے سامنے بن ٹھن کر بیٹھنے سے مجھے اپنے دل میں عجیب سا لگتا ہے۔ ابو باہر سے سن رہے تھے کون میں آ گئے تو کہنے لگے داود آج کتنے اچھے لگ رہے پو ایسے پی روز کپڑے پہنا کرو لباس ہی سے تو شخصیت بنتی ہے۔ بعد میں امی سے کہا اس کو جھجک ہو رہی تھی جو میں نے اس کے اعتماد میں بدل دی میں نے کبھی اس کو ڈرائیور سمجھا ہی نہیں اپنے گھر کا فرد سمجھتا ہوں۔ ان کی ایک ایک بات ایک ایک نصیحت سب ذہن میں جیسے نقش ہو چکی ہے۔

باپ سے محفوظ چھت ایک بیٹی کے لئے کوئی بھی نہیں ہوتی اس کا احساس مجھے ابو کے جانے کے بعد ہوا چھ جولائی مجھے میرے بچپن میں لے جاتی ہے اور ساری رات آنکھوں کے آگے ایک ایک پل گھومتا رہتا ہے۔ اللہ میرے ابو کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments