شکریہ بھارتی غاصبو


1947 میں جہاں دو ملک، پاکستان اور ہندوستان معرض وجود میں آئے وہی ایک مسئلہ بھی پیدا ہوا جس کو دنیا مسئلہ کشمیر کے نام سے جانتی ہے۔ تقسیم برصغیر سے چند دن قبل، جولائی 1947 میں کشمیر اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کا متن تھا کہ کشمیریوں کا مستقبل، مستقبل قریب میں بننے والی اسلامی ریاست پاکستان کے ساتھ ہو گا۔ مگر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ اپنے لوگوں کی نادانیاں کہیں یا دشمن کی مکاریاں، کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

ایک حصہ آج آزاد کشمیر جبکہ دوسرا حصہ مقبوضہ کشمیر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک چیز جو پچھلے پچھہتر سالوں سے بغیر کسی وقفے سے جاری ہے وہ ہے کشمیریوں کی جہد مسلسل اور آزادی کی امنگ۔ 1947 سے لے کر آج کے دن تک مقبوضہ حصے میں کشمیریوں کو ہر طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا پر آزادی کا جذبہ ہے کہ ہر قربانی کے بعد پہلے سے زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ چھ لاکھ لوگوں نے اپنے جان و مال کی قربانی دے کر اس چمن کو جلا بخشی ہے جس میں آج بھی ہر کشمیری، کشمیر کی آزادی کا خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھا ہے۔

جب جب مسئلہ کشمیر دنیا کے منظر سے غائب ہوا تب تب مقبوضہ وادی میں غاصبوں نے اپنے اقدامات سے اس تحریک کو جلا بخشی ہے۔ 90 کی دہائی کے بعد مسئلہ کشمیر شاید اس طرح دنیا کے منظر نامے پر جگہ نہ بنا سکا جو اس کا حق تھا مگر 2010 کے بعد 2022 تک تین مواقعے ایسے آئے جس نے ہندوستانی حکومت کی دہشتگردی کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کیا۔ پہلا واقعہ، برہانی وانی کی شہادت کی شکل میں آیا جس نے تحریک کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا۔ شاید پہلی بار مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کو احساس ہوا کہ آزادی کی جنگ میدان کے ساتھ ساتھ اب سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لڑی کا سکتی ہے کیونکہ کم محنت و وسائل سے آپ اپنا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا سکتے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت نے جدوجہد آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونکی۔

دوسرا موقع، مودی حکومت کا اگست 2019 کا وہ قدم تھا جس میں کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی ایک ناکام کوشش کی گئی۔ 1927 میں اس وقت کے متحدہ کشمیر میں ایک قانون پاس کیا تھا جس کے تحت کوئی بھی غیر کشمیری نہ تو کشمیر کی شہریت حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے۔ مہاراجہ دور اندیش تھا اور جانتا تھا کہ کشمیر میں جتنے وسائل ہیں لازماً باہر سے لوگ اس میں آنے کی کوشش کریں گے۔ مودی حکومت نے 35 A اور 373 ( 3 ) کو کالے قانون کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی۔

مقبوضہ وادی میں گورنر راج لگا کر اپنے مقاصد حاصل کیے اور عوام کے ردعمل سے بچنے کے لیے کرفیو نافذ کیا جو آج تک قائم ہے۔ کشمیریوں کے بنیادی حقوق، آزادی اظہار رائے، جینے کی آزادی، آزادانہ تجارت، آزادانہ وسائل کا استعمال، تعلیم، صحت، انٹرنیٹ اور تمام انسانی حقوق کی پامالیاں کی جا رہی ہیں پر مودی حکومت کو روکنے والا شاید کوئی نہیں دنیا میں۔

مودی حکومت کے اس اقدام نے کشمیریوں کو پوری دنیا میں ایک دفعہ پھر جھنجھوڑا اور تحریک نے پھر ایک دفعہ سر اٹھایا، اس دفعہ خوش آئند بات یہ تھی کہ برطانیہ، امریکہ، گلف ممالک اور جہاں جہاں کشمیری تھے وہاں وہاں آزادی کا شور برپا ہوا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان سے زیادہ کشمیر کے جھنڈے نظر آئے جو کہ پاکستانی حکومت و عوام کی کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کا اظہار تھا۔

نتیجہ جو بھی ہوا ہو، اس وقت کی پاکستانی حکومت نے کشمیریوں کے جذبات کی بہترین ترجمانی کی اور اس وقت کے وزیر اعظم آزاد ریاست جموں و کشمیر راجہ فاروق حیدر خان، کشمیری لیڈرشپ بشمول حریت رہنماؤں کو باضابطہ دعوت دے کر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے مختلف ایونٹس کا انعقاد ہوا۔ شاید کشمیر ایشو جتنا 2019 والے مودی حکومت کے اقدام سے اجاگر ہوا، پہلے کبھی نہ ہوا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ ”بیوقوف دوست سے سمجھدار دشمن بہتر“ ۔

مودی حکومت کے دوستوں نے مقبوضہ وادی میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو اکٹھا کر دیا، حتی عبداللہ خاندان سے یہ آوازیں آئی کہ ہمارے آبا و اجداد نے 1947 میں ہندوستان کے ساتھ رکنے کا جو فیصلہ کیا آج وقت اور مودی حکومت کے اس قدم نے اسے غلط ثابت کر دیا، محبوبہ مفتی بھی مودی حکومت سے ناراض ہوئیں اور کہا ایسے اقدامات سے کشمیریوں کے دلوں میں نفرتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔

اب 2022 میں ایک بیوقوفی پھر کی گئی اور مودی حکومت نے مقبوضہ وادی میں جہد مسلسل کا استعارہ، یسین ملک کو سزا دے کر کشمیریوں کو پھر سے متحد کر دیا ہے۔

یہ بھول ہے کہ یسین ملک کو سزا ہو گی اور کشمیری قوم بیٹھی رہے گی، یسین ملک تحریک آزادی کشمیر کے لیے ایندھن ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے ایک بار پھر پوری دنیا میں کشمیریوں کو آزادی کشمیر اور مودی حکومت کے مظالم کے خلاف یکجا کرنے کی طرف سفر شروع کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر میں آل پارٹیز کانفرنس ہو یا نیشنلسٹ پارٹیوں کے اعلامیے، سب کا پیغام یہی ہے کہ یسین ملک کے لیے ہم سب ایک ہیں۔

تحریکیں قربانیاں مانگتی ہیں، پر یہ ہندوستانی غاصبوں کی بیوقوفی رہی ہے جس نے ہمیشہ کشمیری قوم کو یکجا کیا ہے پھر کیوں نہ کہا جائے ”شکریہ بھارتی غاصبو!“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments