چنیوٹ شیخ برادری۔ تلاش معاش، تقسیم ملک سے قبل


امرتسر سے بمبئی، مدراس، کلکتہ، رنگون اور نیپال تک

” یہ لوگ کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ بس روزی روٹی ملتی ہو۔ اب یہ سردار جی کہہ رہے تھے کہ بس کمائی ہو سکتی ہو اور دارو مل جاتا ہو جتنا بھی ویران، برفانی ٹھنڈا علاقہ ہو مجھے منظور ہے“ میرا استفہامیہ چہرہ دیکھ اگلا فقرہ تھا۔ ”اسی لئے تو مشہور ہے سکھ اور آلو ہر جگہ پائے جاتے ہیں“ کینیڈا میں نو وارد معمولی سرمایہ سے پٹرول پمپ خریدنے کے خواہشمند سکھ جوان سے گفتگو کے بعد بیٹا مجھے بتا رہا تھا۔

”چنیوٹ برادری کیا کم تھی۔“ میرا ذہن بول اٹھا اور پچھلی دو صدیوں کی داستانیں ذہن میں رینگ اٹھیں۔ سکھ حضرات کی کل آبادی دنیا میں میں اڑھائی تین کروڑ کے مقابلہ میں چنیوٹ شیخ برادری محض چند لاکھ تک ہوگی مگر یہ بھی تلاش معاش میں اس وقت دنیا کے تقریباً ہر کونے میں پہنچے اور کامیابی کی انتہا عالمی شہرت پانے والے تک نظر آئیں گے۔

صدیوں قبل ہندو نومسلم کھتری اور اروڑہ۔ بزرگ، محترم، ٹھاکر اور سردار کے معانی والے عربی لفظ شیخ کی پہچان پا گئے۔ چنیوٹ پنڈی بھٹیاں اور کچھ جھنگ آ بسنے والے چنیوٹی شیخ بھی کہلائے اور انہی معانی والا فارسی لفظ خواجہ کھوجہ میں تبدیل ہو چنیوٹی کھوجے اور برادری کی پیش رو کھجیکی مقامی لہجہ میں معروف ہو گئی ( تفصیل علیحدہ مضمون میں انشاءاللہ ) ۔ محنتی اور کاروباری ذہانت کے حامل چنیوٹی شیخ سفر وسیلۂ سفر جانتے بہتر معاش کی تلاش میں نکلنا 1802 میں رنجیت سنگھ کے پنڈی بھٹیاں پر حملہ کے بعد پنڈی بھٹیاں کے ودھاون شیخ فضل دین اور ان کی اولاد میں سے چند اور دوسروں کے چنیوٹ منتقل ہونے کے بعد کا لگتا ہے۔

جب کہ شیخ فضل دین، میرے نانا اور مشہور مصنف اسد سلیم شیخ کے پردادا شیخ غلام محی الدین ودھاون کے دادا، خود گوجرانوالہ وغیرہ سے چمڑا خرید امرتسر کی ٹینریز میں بیچتے۔ چنانچہ اولین نکلنے والوں میں ان کی اولاد پھرتے پھراتے کلکتہ کے قریب گواری میں منتقل ہوئی اور آج تک گواری والے کہلائی۔ اسی طرح جے کے گروپ والوں کے بزرگ اٹھارہ سو ستاون کے لگ بھگ دہلی کلکتہ وغیرہ کا رخ کر چکے تھے اور ان سے حوصلہ پاتے قرائن کے مطابق 1900 سے دو دہائیاں قبل سے بہتر معاش کی تلاش میں نکلنے والوں اور محنت کا پھل پانے والوں کی رفتار تیز ہو چکی تھی۔

ذہن رسا اور خدا داد صلاحیت نے یہ دیکھتے ہوئے کہ واحد کاروبار جس میں ہندو کی اجارہ داری نہیں چمڑے سے متعلق کاروبار ہیں کہ ہندو بالکل اس میں ہاتھ نہیں ڈالتے، یہ کام شروع کیا۔ زیادہ تر خاندانوں کے بزرگوں نے ابتدا امرتسر سے ملازمت کرتے تجارت کا گر سیکھتے کلکتہ میں ڈیرے لگائے۔ امرتسر غالباً ایک جنکشن بھی تھا اور یہاں کی ٹینریاں چمڑے کے کاروبار کے گر سمجھانے والے مدرسے تھے۔ کہ بہت بزرگ یہیں چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے کاروباری رموز ذہن میں بٹھاتے۔ دوسرے دوستوں کی بھی رہنمائی کرتے مختلف شہروں میں جا بستے گئے اور اور اپنی اپنی صلاحیت اور نصیب کے مطابق آگے بڑھتے گئے۔

چنانچہ امرتسر ٹینری میں چمڑے کی گانٹھیں اٹھاتے چیڑی کنڈ والے مولا بخش، میاں منشاء کے دادا مولا بخش اور ان کے بھائی کی سفارش میرے والد شیخ دوست محمد کی 1908 میں اسی ٹینری میں منشی کی ملازمت کا باعث بنی اور دیے سے جلتا 1918 کے لگ بھگ ان میں سے اکثر کلکتہ منتقل ہو کر زیادہ تر چمڑے سے متعلق مختلف کاروباروں یا فیکٹریوں کی ابتدا کر چکے تھے۔

جہاں میرے والد کے دوستوں میں مجھے میاں صدیق بانی، یوسف بانی، میاں صدیق ڈنڈکا، عمر سہگل، محمد حسین ڈنڈکا، مظہر بگا اور بھائی رشید احمد وغیرہ کے نام اور چہرے یاد ہیں وہیں ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ”کامیاب لوگ“ میں مندرج خاندانوں کی کہانیوں میں کم از کم سترہ گروپ ایسے نکلے جن کے بزرگ دوسرے شہروں کے علاوہ کلکتہ میں قسمت آزمائی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ان کے بزرگوں میں سے کچھ نے مدراس، رنگون، آگرہ، ڈھاکہ، وغیرہ کو بھی رونق بخشی۔

بمبئی، شولا پور، نیپال دہلی تک ان کے قدموں کی چاپ سنتے رہے۔ کالونی گروپ والوں کے بزرگ ٹانڈا میں محکمۂ خزانہ میں تھے۔ ان کی تفصیل کتاب میں موجود ہے۔ انگریزی کی شد بد رکھتے میرے تایا اللہ بخش انگریزی فرم ملازمت کے دوران مسٹر اے بی پکارے جاتے مسٹر ہی بن گئے۔ عالمگیر فیملی کپور تھلہ اور جالندھر کو روندتی رہی۔ وہاں کچھ اور افراد کے علاوہ میرے تایا فضل الہی پٹرول پمپ کے ساتھ ٹرانسپورٹ سے منسلک رہے۔ کانپور میں میرے تایا زاد اور بہنوئی میاں عمر مسٹر اور دوسروں کے علاوہ گلزار پری اور حاجی ابراہیم، جنرل خالد مقبول کے پرنانا، بھی تھے ان کے بیٹے عبدالعزیز رنگون میں قسمت آزمائی کرنے والوں میں شامل تھے۔

ان سب کی ابتدا معمولی ملازمت، فٹ پاتھ پہ کپڑا بیچنا، سمیت بغیر عار سمجھے کسی بھی شعبۂ زندگی میں روزی کمانا شروع کرتے خدا کے فضلوں کو سمیٹتے بڑے کاروباروں تک لے گئی۔ چنانچہ ٹینری۔ لیدر جیکٹ، لیدر گڈز مینوفیکچرنگ چمڑے کی دکانیں ( میرے والد کی بینٹنک سٹریٹ پر دکان تھی اور برادری کے کافی دوسرے بزرگ بھی اسی سڑک پر کاروبار کرتے یاد ہیں۔ ) جوتوں کا کاروبار اور ربڑ اور چمڑے کے جوتوں کی فیکٹریاں سمیت ہر قسم کا کاروبار تھا۔

میاں صدیق ڈنڈکا، کوہ نور گروپ کے سعید سہگل اور یوسف سہگل کے ساتھ بچگانہ جوتوں کی فیکٹری میں بارہ آنے کے حصہ دار ہیں۔ میں صدیق ڈنڈکا کی انیس سو ستاون ( شاید ) میں کوہ نور ملز میں میاں سعید سہگل کے ساتھ ملاقات کے بعد ڈھونڈتے ہماری معمولی سی دکان پر میرے والد صاحب سے ملاقات پر پہنچتے اس دلچسپ ملاقات کی رنگینی بیان کرنا بھولتا نہیں۔ کچھ خاندان آٹو پارٹس سے متعلق ہو گئے ان میں سے انیس سو سینتالیس کے فسادات میں کسی کا مظہر بگا ( بعد میں یونائیٹڈ موٹر سیل۔ کراچی ) کو گولی مار زخمی کرنا بھی یاد ہے۔ انیس سو چوالیس میں دس روپے سے نوکری شروع کرنے والے میاں بخش الہی کا ذکر ان کے صاحبزادہ نے کیا۔ گویا کلکتہ برادری کو اسی رنگ میں گود میں سمٹائے تھا جیسے آج فیصل آباد اور کراچی۔

انیس سو چالیس سے قبل فیملی کو جائے معاش پہ مستقل لے جانے کا تصور بہت کم تھا اور چنیوٹ ہی رہائش اور مستقل جائیداد کھڑی کرنے کا مرکز تھا۔ جائے معاش میں دو چار دوست یا زیادہ مل کے مکان کرایہ پر لیتے اور ہوسٹل ٹائپ زندگی ہوتی۔ یہ مراکز کوٹھی کا نام پا گئے۔ سال میں ایک دو مرتبہ عید بقرعید شادی، غمی پہ چنیوٹ کا چکر لگتا اور چھٹیوں میں فیملیوں کو بلایا جاتا۔ توفیق کے مطابق ان کے لئے علیحدہ رہائش کا بندوبست کیا جاتا یا ساتھی ایک کمرہ خالی کر دیتے۔

ایک دفعہ ایک بڑے کمرے میں کھیسوں کے پردہ سے تقسیم شدہ ایک کمرہ میں دو خاندانوں کی رہائش بھی یاد ہے۔ کوٹھیاں پاکستان بننے کے بعد فیصل آباد اور کراچی میں ساٹھ کی دہائی تک دیکھیں اب کا پتہ نہیں۔ چالیس کی دہائی میں آسائش ہوتے بہت سے خاندان بال بچوں کو مستقل لے گئے۔ کچھ تقسیم کے بعد بھی وہیں بس رہے اور پھر باہمی رشتہ داریوں اور حالات نے اپنی اولادوں میں سے کچھ کو پاکستان بھیج دیا۔ چنانچہ اوپر مذکور بانی، ڈنڈکا، سہگل وغیرہ خاندانوں کی اولاد دونوں ملکوں میں موجود ہے۔

خاصی کہانیاں قیام پردیس کے دوران تنہائی کے احساس اور انسانی فطری خواہشات کے نتیجے میں مقامی لڑکیوں سے شادیوں کی بھی نکلتی جو انجمن احترام باہمی کے اصول کے تحت خفیہ ہی رہتیں۔ اور چنیوٹ میں مقیم گھر والوں کو شاذ ہی پتہ چلتا اور شاید ہی کوئی ان بیویوں یا ان سے اولاد کو چنیوٹ لایا ہو۔ البتہ چنیوٹ میں ایک گھرانے میں بنگالن کہہ پکارے جانے والی ایک خاتون یاد ہے۔

ہاں آخر میں۔ چنیوٹ کے کسی خاصے اتھرے باسی نے جس نے شاید کسی شیرنی جیسی جٹی سے متاثر فیس بک پہ شیرنی جٹی اتھری کے تعارف سے میری برادری کی پہچان والی پوسٹ میں تبصرہ کیا، جس کے ایک آدھ فقرہ نے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔ ”اس پرانی جنریشن میں کمپلیکس نہیں تھا۔ رشتہ باہمی احترام خلوص کا اور فوکس کام و کردار کے معیار پر تھا۔ ذرا یہ بھی پتہ کر لیں کہ جن کے بزرگوں کو چنیوٹ کی مٹی سے پیار تھا ان میں سے کتنے فی صد ہیں جنہوں نے بزرگوں کی مٹی سے کسی نہ کسی رنگ میں رابطہ رکھا ہے۔ بلکہ نئی نسلوں میں سے کتنے فیصد ہیں جنہوں نے چنیوٹ دیکھا بھی ہوا“ بات سوچنے کی ہے۔ آپ بھی سوچیں میں بھی سوچتا ہوں۔

اسی کا دوسرا پہلو ایک اور جواب ہے جو ایک عزیز نے میری درخواست ملنے والوں پوچھ کے ان کے بزرگوں رونق بخشے ٹھکانوں کا بتانے کے جواب میں ایک فقرہ تھا۔ ماشا اللہ معاشی کشائش اور دولت کی فراوانی پا جانے والی اپنے محنت کش کھردرے ہاتھوں غربت میں ان کے لئے کی گئی جدوجہد کے ذکر سے نہ صرف شرماتی ہے۔ بلکہ اکثر کو تو نہ ان کے ناموں کا پتہ ہے نا جدوجہد کا۔ اس پہ سوائے ”الھٰکم التکاثر“ کہنے کے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ہاں اب ڈیڑھ دو سو سال بعد چنیوٹی کھوجے ہر اس جگہ پہنچ چکے جہاں آلو بھی ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments