چے کی محبت میں پاگل دعا زہرا اور وجاہت مسعود کی گستاخی


مخصوص عمر میں ہارمونز کی غیر متوازن پیداوار کو اندھی محبت کہتے ہیں۔ اس لئے تو نادرہ کی دستاویزات، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ، عدالت کا حکم نامہ اور والدین کی شہادتیں چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ دعا زہرا شادی کے لئے چھوٹی ہے لیکن چونکہ اس کی محبت چھوٹی نہیں جواں ہے اس لئے وہ نہیں مانتی۔ وہ اپنے والدین کو جھوٹے اور ظالم، جبکہ اپنی شادی کو اپنی خوشی مرضی اور محبت کہتی ہے۔ میں اس کی محبت کے حق کا احترام کرتا ہوں لیکن وہ اپنے والدین کی اپنے ساتھ محبت کے حق کا بھی تھوڑا سا احترام کرے۔ اس کی نکاح کی تنسیخ یا تصدیق کے لئے اس کے والدین کا نکاح نامہ ہی کافی تھا، لیکن محبت کی طرح قانون بھی اندھا ہوتا ہے وہ کب ایسی باتوں کو ثبوت مانگتا ہے۔ اس لئے قانون کی آنکھیں ثبوتوں اور محبت کی آنکھیں وقت گزرنے کے بعد کھلتی ہیں۔ وقت ابھی محبت کے سامنے ششدر کھڑا ہے اس لئے لوگ ظہیر کی شکل و صورت، سماجی رتبے اور مالی پوزیشن کی طرف دعا زہرا کی توجہ مبذول کراتے ہیں لیکن دعا زہرا کی بڑی بڑی آنکھوں پر اس کی چھوٹی عمر ناکافی تجربے اور والدین کی آہ و بکا سے بڑی محبت کی عینک چڑھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ محبت کے غیر متعین رنگ کے علاوہ ہر رنگ کے لئے کلر بلائنڈ ہو چکی ہے۔

یہی حالت عمران خان کی عقیدت میں اس کے پیروکاروں کی بھی ہے۔ جو اس کی مکمل ناکام سیاست، تباہ کن معاشی پالیسیوں، جھوٹ اور پل پل بدلتے ہوئے بیانیے، ڈوبتے ہوئے ملک، توشہ خانہ، فرح گوگی، عثمان بزدار اور محمود خان کو غیر متعلقہ حوالے کہتے ہیں اور ایک خائن جج کی عطا کردہ صادق اور امین کی اسناد کو معتبر سمجھتے ہیں۔ عمران کو اپنا کوئی ساتھی چھوڑ دے تو وہ اس کو غدار کہتے ہیں لیکن عمران اپنے کسی ساتھی کو چھوڑ دے تو اس کو وہ غلامی کے خلاف بغاوت کہتے ہیں۔ جبکہ عمران خود شیخوپورہ کے جلسے میں ’سازش کرنے والے‘ امریکہ کے خلاف اب بغاوت نہیں شکوہ کرتا ہے کہ ضمانت پر رہا شخص کو امریکہ اپنے ہاں چپڑاسی رکھنے پر تیار نہیں ہوتا لیکن ہمارے ہاں اسے وزیراعظم لگوا دیا، اور اسی سانس میں آگے کہتا ہے کہ سترہ تو کیا سترہ ہزار مقدمات بھی اس پر بنائے جائیں وہ پیچھے ہٹنے والا نہیں، لیکن یہ نہیں بتاتا کہ وہ خود ان سترہ مقدمات میں ضمانت پر ہے۔ لیکن ضمانت پر ہونے کے باوجود بقول ایاز امیر کے، عمران خان آخری آپشن اور چے گویرا ہے۔

انقلاب ضروری سمجھے تو یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سزا پانے والا مجرم ہو، بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ مرنے والے کی وجہ سے انقلاب کتنی محفوظ اور مضبوط ہو سکتی ہے۔ انقلاب ہو یا نیا بننے والا بادشاہ، اقتدار اور تخت تک جانے والا راستہ ایسے ہی ضروری مقتولین کے خون سے رنگین کر کے گزرتا ہے، چے گویرا نے بھی یہی کیا۔

اتنی سی بات وجاہت مسعود نے لکھی اور عشاق کو غش پڑنے لگے۔ اچھے خاصے دانشور ساتھیوں نے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر انقلاب کی دیواروں پر وجاہت مسعود کو مشکل اردو لکھنے والا منشی، چرب زبان، ایسی تحریروں سے اپنے ویب پیج کی ریٹنگ بڑھانے والا اور اسے سنجیدہ سمجھنے والے خود غیر سنجیدہ ہوتے ہیں، لکھا۔

کیا یہ لکھنا کہ چے بندوق کی نالی سے دنیا کو دیکھنے والا بندوق کا شکار ہوا، جرم ہے؟ یا وہ بندوق کو ہر وقت سلفیاں بنانے کے لئے اپنے ساتھ رکھتا تھا، یا پارکوں میں اس سے ہوا بھرے غبارے پھڑوانے کا روزگار کرتا تھا؟ چے گویرا کی انقلابی حکمت عملی ارجنٹائن میں تنقید کی زد میں اور روس میں متروک سمجھی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے کھبے دوستوں نے ثابت کیا کہ وہ تنقید سے مبرا اور اس پر تنقید کرنا کفر کے مترادف ہے۔ ہمارے دوستوں اور طالبان میں تنقید سہنے کے پیرامیٹرز تقریباً برابر ہیں۔

کم عمر دعا زہرا کا زہیر، پیروکاروں کا عمران خان اور انقلابیوں کا چے گویرا بے داغ اور مکمل شخصیات ہیں۔ ممکن ہے بے گویرا کے گھر میں بھی ایک سالن پکتا ہو اور اس نے بھی کبھی انڈین گانے نہ سنے ہوں۔

عاشق خواہشات کی عینک پہنے حقیقت کے رنگوں کے سامنے کلر بلائنڈ ہوتے ہیں۔ وہ نسبت اور تناسب کو پیمانہ ماننے کی بجائے انہیں راستے کی دیوار سمجھتے ہیں۔ بیشک محبت انصاف سے بڑا جذبہ ہے لیکن محبت بہت ذاتی اور متعصب رویہ ہے جبکہ انصاف یونیورسل سچائی ہے۔ دعا زہرا کو زہیر سے خوبصورت جیون ساتھی، پیروکاروں کو عمران خان سے بڑھ کر سٹیٹس مین اور انقلاب کے رومانس میں مبتلا لٹھ بازوں کو چے سے بڑا اور مکمل انسان نظر آتا۔ جب کہ ٹھیک طرح دیکھنے کے لئے کسی بھی نظارے سے مناسب فاصلے پر موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ محبت تناسب اور انصاف تینوں موجود نہ ہوں تو انگلی کے پیچھے پہاڑ چھپ جاتا ہے، والدین ظالم اور جھوٹے لگنے لگتے ہیں اور انصاف راستے میں کھڑی دیوار لگتی ہے۔ محبت، تناسب اور انصاف یکجا نہ ہوں تو والدین ولن اور عاشق ہیرو، عمران چے گویرا اور مخالفین سازشی اور چے گویرا مکمل اور وجاہت مسعود گستاخ لگتا ہے۔

وجاہت مسعود خوش قسمت ہے کہ ٹوٹے ہوئے مندروں کے باہر رونے والے پجاریوں کے دور میں پیدا ہوا ہے، اگر دیوتاؤں کے دور میں موجود ہوتا تو آج دیوتاؤں کی توہین کے جرم میں اپنی عینک اور قلم سمیت خود کو کسی قربان گاہ کے چبوترے پر لیٹا ہوا پاتا، کیونکہ چے گویرا کی محبت میں دعا زہرا بننے والوں سے کچھ بھی بعید نہیں۔

 

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments