کمہارن کا چاک!


”اماں، جب میں پیدا ہوئی تو کیا آپ خوش ہوئی تھیں؟“
”یہ کیسا سوال ہے بیٹا؟“
”بتائیے نا، کیا آپ خوش تھیں؟“

”کیا بتاؤں تمہیں کہ میرا جی چاہتا تھا میں گھی کے چراغ جلاؤں، ناچوں گاؤں اور سب کو بتاؤں کہ ہمارے گھر ایک ننھی پری آئی ہے“

وہ بے اختیار ہنس پڑتی ہے اور آنکھوں کی جوت مزید بڑھ جاتی ہے۔

”کیوں ماں؟ آپ اداس کیوں نہیں ہوئیں؟ میں دوسری بیٹی تھی، کیا آپ کا جی نہیں چاہا کہ اب کی بار بیٹا ہوتا؟“

”ارے بٹیا رانی، کیا تمہیں کبھی محسوس ہوا کہ تمہاری ماں کے لیے بیٹے اور بیٹی میں کوئی فرق ہے؟“
”نہیں اماں آپ ایسا نہیں سوچتیں مگر لیکن لوگ تو کہتے ہیں نا؟ کیا ایسا ہوا؟“

”ہاں ہوا لیکن میں کیوں پروا کرتی؟ تم تو میری چاہ تھیں نا، میری وہ اولاد جسے میں نے بے انتہا آرزو کے بعد پایا“

”وہ کیسے؟“

”وہ ایسے بٹیا کہ تمہاری بڑی بہن میرا پہلا بچہ تھی۔ ایسا پہلا بچہ جس کی آمد عموماً ایک میکانکی عمل ہوتا ہے۔ شادی ہوئی، حمل ٹھہرا اور نو ماہ بعد گود بھر گئی۔ ابھی شادی سے وابستہ جھمیلوں کی سمجھ آئی نہیں ہوتی کہ ماں بننے کی ذمہ داری بھی سر پہ آن پڑتی ہے۔ پہلا بچہ آنکھ کا تارا اور دل کا سرور ہوتا ہے لیکن ممتا تو پہلے سے نہیں امڈتی۔ بلکہ ممتا کس چڑیا کا نام ہے، یہ بھی علم نہیں ہوتا۔

بدقسمتی سے پہلا بچہ تجرباتی بھی بنتا ہے کہ الہڑ و انجان ماں باپ کی سب لغزشیں اسی کو بھگتنی ہوتی ہیں ”

قارئین چونکہ ہماری عزیز از جان یہ قصہ سننا چاہتی ہے سو لگے ہاتھوں آپ بھی سن لیجیے۔

ڈاکٹر ہونے کے باوجود ہماری سمجھ کچھ کمزور ہی تھی۔ سوچئیے ڈاکٹر بن گئے، شادی کر لی مگر بچہ ابھی یا کچھ مدت بعد ؟ جیسے سوال کا جواب ڈھونڈنے کی زحمت ہی نہیں کی، خیر سے دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر بدھو نکلے۔ خیر اس طرح کے کاموں کا نتیجہ تو نکلنا ہی تھا سو چونکے اس دن جب جی متلانا شروع ہوا۔

ہت تیرے کی، نہ کہیں سیر پہ گئے، نہ سارے زرق برق لباس پہنے اور ابھی سے یہ۔ خیر کیا ہو سکتا تھا سو چپ کر کے بیٹھ گئے۔

حمل کا چیک اپ کروانے گئے تو سوچا یہی تھا کہ جینڈر نہیں پوچھنا۔ مگر ڈاکٹر صاحبہ اتنی شفیق نکلیں کہ الٹرا ساؤنڈ پہ کچھ اور دیکھنے کی بجائے پہلی توجہ ہی ٹانگوں کے درمیان اور پھر اعلان۔ جینڈر کا مسئلہ چونکہ اوائل عمری سے جان کا روگ تھا سو اس معاملے میں ہمارے سامنے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہائے لڑکی۔ کہنے والے کا منہ نوچنے میں ہمیں ایک سیکنڈ بھی نہ لگتا۔

ننھی پری آ گئی۔ ایک عورت کے بطن سے دوسری عورت نے جنم لیا، زندگی کے رنگ مزید حسین ہوئے۔
دوسرا حمل آٹھ برس بعد ہوا، کیوں؟ یہ ایک اور کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔

خیر حمل ہو گیا اور ہمارے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے تھے، بھاری ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ممتا کی سمجھ اب آنے لگی تھی۔ منتوں مرادوں سے آنے والے بچے کا خیال پہروں سرشار رکھتا۔ لڑکی یا لڑکے کی بحث ہم سے کوسوں دور تھی۔ اللہ بیٹا دے کی دعا ہمیں ایسے لگتی جیسے کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو۔ ہمارے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور تڑپ کر ہم پوچھتے کیوں بیٹی کیوں نہیں؟ بیٹے میں ہیرے جواہر جڑے ہوتے ہیں یا سرخاب کا پر؟ میں بھی تو بیٹی ہوں، بتائیے کیا اچھی نہیں ہوں؟

”بیٹیاں اچھی تو بہت لگتی ہیں بس ان کے نصیبوں سے ڈر لگتا ہے“ جواب ملتا۔
”تو نصیب سے لڑنے والے سب ہتھیار بیٹی کو عطا کر کے زندگی کے میدان میں اتارئیے نا“ ہمارا جواب۔
”افوہ، ان سے بھلا کون بحث میں جیت سکتا ہے“ زیر لب بڑبڑاہٹ۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ہمارے شریک سفر اس بارے میں کیا سوچتے تھے؟ وہی جو معاشرہ سوچتا ہے، جو لوگ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ وہ اس رنگ میں کیوں نہ رنگے جاتے؟ ایک آدھ بار دبے لفظوں میں خواہش کا اظہار ہوا لیکن ہماری تو یہ دکھتی رگ تھی جسے چھیڑنے کا نتیجہ کچھ اور بھی نکل سکتا تھا سو امن امان ہی رہا۔

دوسری پری آ گئی۔ جان پہ ہم کھیل گئے۔ وینٹی لیٹر تک پہنچنے کی نوبت آ گئی لیکن دو دن آئی سی یو میں رہنے کے بعد واپسی پہ جب اس جان جاں کی سیاہ گھور سی آنکھیں دیکھیں جو ہم سے پوچھ رہی تھیں، ماں کہاں تھیں آپ؟ میں تو ملنے کے لیے بے قرار تھی۔ یقین کیجیے ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی، ایسا لگا کہ خود کو دیکھ رہی ہوں، ہم دو تھے لیکن حقیقت میں ایک۔ وہ پیٹ میں آئی تو کچھ سیلز کا گچھا تھی، نو ماہ کے بعد نکلی تو ماں جیسی تھی۔ کمہارن کے چاک پہ بننے والی چھوٹی کمہارن، ایک ہی مٹی، ایک ہی چاک اور ایک ہی برتن۔

ہم نے گھی کے چراغ جلائے، مٹھائیاں بانٹیں۔ لوگوں کے ماتھے پہ پڑنے والی سلوٹوں پہ قہقہے لگائے جو کہتی تھیں، ہائے ہائے دوسری بیٹی اور ایسی خوشی۔

چاہنے والوں نے محبت کے اس شاہکار کو اپنی دعاؤں کے ساتھ تحفوں سے نوازا، رنگ برنگے کھلونے، فراک، نقدی۔ ایسے میں ناک بھوں چڑھانے والے مہربانوں کی پرواہ کسے تھی؟

بیٹی کو عزت، وقار، مرتبہ اور مقام عطا کرنے کا احساس ہم نے تمہارے نانا سے سیکھا۔ ابا کے گھر بھی دو پریوں نے ہی اول اور دوئم کی جگہ گھیری۔ دادا کے ماتھے پہ ابھرنے والی شکنیں اور خاندان بھر کی ہمدردی نما تشویش کو ابا نے یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ ان کے نزدیک بیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں۔ اس آئیڈیالوجی کو صرف کہا ہی نہیں، اپنایا بھی اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

ایک ایسا گھر جہاں تینوں بیٹیاں بیٹوں جیسے حقوق رکھتی تھیں، ان کی خواہشات مقدم رکھی جاتی تھیں اور کبھی کبھی تو پلڑا بھاری بھی ہو جاتا تھا۔

ہماری اماں نے روایتی گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود ابا کے بنائے ہوئے نظام کو مسترد نہیں کیا گرچہ کبھی کبھار روایتی ماں ہونا ان پہ غالب آ جاتا مگر پھر ابا کی محبت انہیں ان روایات پہ چلنے نہ دیتی۔

یہ ہے کل داستان میری بیٹی! تمہاری بڑی بہن اگر میری ایک آنکھ ہے تو تم دوسری۔ کوئی بھی اپنی دونوں آنکھوں کے بنا مکمل تو نہیں ہوتا۔ بالکل ایسے ہی میں بھی!
سالگرہ مبارک!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments