پاکستان واپس آنے والی بد قسمت لڑکیاں – مکمل کالم


پہلا واقعہ دو ماہ پہلے کا ہے۔ چوبیس برس کی انیسہ اور بیس سال کی عروج، اپنی والدہ کے ساتھ سپین سے گجرات پہنچیں، یہ دونوں لڑکیاں محمد عباس نامی شخص کی بیٹیاں تھیں جو کچھ دہائیوں قبل روزگار کے سلسلے میں سپین منتقل ہوا تھا۔ عباس نے اپنی لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح اپنے بھائی کے بیٹے اور دوسری کا اپنی بہن کے بیٹے سے کیا ہوا تھا۔ لڑکے والوں کا پلان یہ تھا کہ نکاح کے کاغذات کی بنیاد پر انہیں سپین بلا لیا جائے گا تاہم لڑکیاں اس سارے بندوبست سے مطمئن نہیں تھیں۔ نکاح کے بعد لڑکیوں کے چچا اور پھپھو صرف یہی گفتگو کرتے تھے کہ ان کے بیٹوں کو سپین کب بلایا جائے گا۔

جب معاملے نے طول پکڑا تو ان لڑکیوں کو دھوکے سے یہ کہہ کر سپین سے گجرات بلایا گیا کہ اگر انہیں اپنے شوہر پسند نہ آئے تو پھر وہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گی۔ لیکن جب یہ دونوں لڑکیاں اپنی والدہ عذرا بی بی کے ساتھ گجرات پہنچیں تو ان کے مقدر کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ دو دن بعد ان خاندانوں کی بیٹھک ہوئی جس میں یہ بحث شروع ہوئی کہ آخر لڑکوں کو سپین کیوں نہیں بلایا جا رہا، وہاں انیسہ اور عروج نے صاف الفاظ میں بتا دیا کہ وہ اپنے کزنز کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتیں، ان کا چچا اپنی بھتیجیوں کی یہ ’بد تمیزی‘ برداشت نہ کر سکا اور ہتھے سے اکھڑ گیا، لڑکیوں کی ماں اس کے پاؤں پڑ گئی، دہائی دینے لگی کہ اس کی بیٹیوں کو چھوڑ دیا جائے مگر کسی نے اس ماں کی فریاد نہیں سنی بلکہ اسے گھسیٹ کر ایک کمرے میں بند کر دیا اور باہر سے کنڈی لگا دی۔

سگے چچا، بھائیوں اور لڑکیوں کے شوہروں سمیت نو آدمیوں نے مل کر ان بچیوں کو درندوں کی طرح قتل کر ڈالا۔ ”میں نے بچیوں کی چیخیں سنیں جو کہ آہستہ آہستہ ختم ہو گئیں، بعد میں گولیاں چلنے کی آواز آئی، مگر شاید وہ گولیاں لگنے سے پہلے ہی مر چکی تھیں۔“ یہ بیان عذرا بی بی نے پولیس کو دیا مگر ساتھ ہی یہ کہہ کر اس مقدمے میں مدعی بننے سے انکار کر دیا کہ انہیں اس مقدمے میں انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں۔ عذرا بی بی نے پولیس کو کہا کہ وہ سپین واپس چلے جائے گی ”بیٹیاں ساتھ لائی تھی، اب خالی ہاتھ واپس جاؤں گی۔“

دوسرا واقعہ پچھلے ماہ کا ہے۔ ساجدہ تسنیم انجینئرنگ یونیورسٹی کراچی سے فارغ التحصیل تھی، سول انجینئر تھی، 2011 میں اس کی شادی سرگودھا میں ایوب احمد شخص کے ساتھ ہوئی، وہ بھی انجینئر تھا۔ شادی کے چند ماہ بعد انہیں سعودی عرب میں ملازمت مل گئی اور دونوں میاں بیوی سعودی عرب چلے گئے، وہاں ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا۔ ساجدہ نے مزید بہتر مستقبل کی تلاش جاری رکھی اور بالآخر اسے پرتھ، آسٹریلیا میں ایک شاندار ملازمت مل گئی اور دونوں میاں بیوی 2013 میں اپنے بیٹے سمیت پرتھ منتقل ہو گئے جہاں ان کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

بی بی سی کے رپورٹ کے مطابق ساجدہ کا شوہر پرتھ میں اپنی ملازمت برقرار نہ رکھ سکا، کچھ عرصہ اس نے آن لائن کام کیا اور پھر اسے بحرین میں ملازمت مل گئی اور وہ بحرین چلا گیا جبکہ ساجدہ اور بچوں کو آسٹریلوی شہریت مل گئی۔ ساجدہ نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ کچھ مزید کورسز بھی کیے اور وہ اپنی سماجی زندگی میں کافی سرگرم ہو گئی۔ اس دوران معاملات میں ایک نیا موڑ آیا، ساجدہ کے شوہر نے اس پر زور دینا شروع کیا کہ وہ پاکستان واپس چلی جائے کیونکہ اس کے ماں باپ اپنے پوتے پوتیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں، ساجدہ شوہر کی باتوں میں آ کر پاکستان واپس آ گئی، گھر پہنچتے ہی اس کے سسر نے یہ کہہ کر اس کا پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیا کہ کہیں یہ گم نہ ہو جائے۔

ساتھ ہی ساجدہ کے سسرال والوں کا رویہ یکسر بدل گیا، انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اب آسٹریلیا کو بھول جاؤ، وہ غیر مسلم ملک ہے، بچے وہاں رہیں گے تو اپنی مذہبی شناخت کھو دیں گے۔ ”ہم پوتے پوتیوں کو کسی صورت کافروں کے ملک میں نہیں رکھ سکتے۔“ دھیرے دھیرے جھگڑا بڑھنے لگا، وہ لوگ ساجدہ سے مار پیٹ بھی کرنے لگے، ایک دن ساجدہ کا والد اپنی بیٹی کو ملنے اس کے سسرال آیا تو اسے بالائی منزل سے شور سنائی دیا، وہ بھاگ کر اوپر پہنچا تو دیکھا کہ بیٹی کے سسر نے اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسا ہوا ہے اور وہ اس پر کلہاڑی سے وار کر رہا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ساجدہ کے ٹکڑے کر دیے اور کلہاڑی لہراتا ہوا فرار ہو گیا۔

ویسے تو اس دنیا میں آئے روز ہی ظلم کی ایک نئی داستان رقم ہوتی ہے، بندہ کس پر ماتم کرے اور کس پر آنکھیں بند کر کے لا تعلق ہو جائے، لیکن نہ جانے کیوں جب میں نے یہ دونوں واقعات پڑھے تو لرز اٹھا، انسان اس قدر سفاک بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے سگی بھتیجی یا بہن کا گلا کاٹ ڈالے یا اپنے پوتے پوتیوں کی ماں کا سر کلہاڑی سے کچل دے۔ لیکن شاید میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں، دنیا میں اس سے بھی کہیں زیادہ جلاد صفت اور بے رحم انسان پائے جاتے ہیں، والدین اپنی اولاد کو قتل کر دیتے ہیں تو باقی کسی سے انسانیت کیا امید رکھی جائے!

ان دونوں واقعات میں جو بات مشترک ہے وہ مغربی ممالک میں کی جانے والی ہجرت اور اس سے جڑے مسائل ہیں۔ انیسہ اور عروج کو اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ اپنے ’شوہروں‘ کو سپین کیوں نہیں لے کر گئیں جبکہ ساجدہ کو اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ آسٹریلیا سے مستقلاً پاکستان واپس کیوں نہیں آئی۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں واقعات میں عورتوں کا سوائے اس کے کوئی قصور نہیں کہ وہ اپنے مردوں کے جھانسے میں آ گئیں اور قتل کردی گئیں۔

ملک چھوڑ کر باہر بس جانے والے لوگوں میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو سمجھداری کے ساتھ اپنی زندگیوں کو ایک نئے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں۔ ملک چھوڑنا کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوتا، یہ ایک مکمل تبدیلی کا نام ہے، جب ہمیں کسی ملک مغربی ملک کی شہریت ملتی ہے تو اس وقت ادراک نہیں ہوتا کہ اس کی کچھ قیمت ایسی بھی ہوگی جو اپنی شناخت اور روایات کی قربانی کی صورت میں ہمیں چکانی پڑے گی۔ انیسہ اور عروج کے باپ محمد عباس نے سپین کی شہریت تو لے لی مگر ذہنی طور پر وہ گجرات کے قصبے گلیانہ کے گاؤں نوتھیہ میں ہی رہا، اس کا ذہن یہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوا کہ بیٹیاں شادی سے انکار کے فیصلے کا اختیار رکھتی ہیں، وہ اپنے بھائی، بہن اور بیٹوں کے ساتھ مل کر ان بچیوں پر دباؤ ڈالتا رہا اور یوں ایک طرح سے وہ ان کے قتل کا شریک مجرم ہے۔

دوسری طرف ساجدہ کے شوہر نے بھی آسٹریلیا ہجرت کرنے کا فیصلہ تو کر لیا مگر ذہنی طور پر وہ بھی سرگودھا میں ہی رہا۔ اس نے آسٹریلیا جانے کی خوشی میں یہ نہیں سوچا کہ کل کو اس کے بچے بچیاں پیدا ہوں گے تو وہ آسٹریلوی شہری ہوں گے اور ان کی تعلیم و تربیت بھی اسی انداز میں ہوگی۔ اگر یہ سب کچھ اسے قبول نہیں تھا تو اسے آسٹریلیا جانے کا فیصلہ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا اور اگر اس کی بیوی آسٹریلیا ہجرت کرنے پر اصرار کرتی تو انہیں سمجھداری سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے تھی۔ مگر یہ تمام باتیں اس وقت لکھنی آسان ہیں، غیب کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں۔ ساجدہ یا انیسہ یا عروج کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ان کے مرد ان کو دھوکے سے پاکستان بلا کر ان کے گلے کاٹ دیں گے۔

ان بے گناہ خواتین کے ساتھ جو ہوا اس کا انصاف تو اب روز محشر ہی ہو گا، فی الحال وہ عورتیں جو باہر سیٹل ہیں، ان کو یہ مشورہ دینے میں کوئی حرج نہیں کہ کسی پاکستانی مرد سے محض اس لیے شادی نہ کریں کہ وہ ان کی مدد سے باہر سیٹل ہونا چاہتا ہے، یا اپنے رشتے داروں کے جھانسے میں پاکستان نہ آئیں کہ یہاں ان کے اچھے رشتے مل جائیں گے۔ اگر آپ باہر رہتے ہیں تو پھر وہی طرز زندگی گزارنے کی کوشش کریں جو وہاں کا ہے
When in Rome، do as the Romans do
اپنی زندگی ذہنی مریض مردوں کے سپرد نہ کریں ورنہ زندگی بھر کا پچھتاوا ہو گا جس کا کوئی مداوا نہیں ہو گا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments