علی وزیر، محسن داوڑ، منظور پشتین اور ان کی کشمکش


اگرچہ کسی ایک جلسے کی بنیاد پر کسی سیاسی جماعت کی شہرت اور مستقبل کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی لیکن ’عمرانی سیاست‘ کو معیار بناتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ رزمک کے حالیہ جلسے نے محسن داوڑ کی پارٹی ایم ڈی ایم کا رنگ مزید پھیکا کر دیا۔ جب سے این ڈی ایم بنی ہے تب سے میں محسن داوڑ اور پی ٹی ایم کے درمیان جاری کشمکش کو غور سے دیکھ رہا ہوں، لیکن ابھی تک محسن داوڑ کے ہاتھوں پی ٹی ایم میں کوئی بڑی ڈینٹ ڈالتے ہوئے نہیں دیکھا۔

وزیرستان کے تین اہم قبائل کی نمائندگی کرتے ہوئے، علی وزیر، محسن داوڑ اور منظور محسود، برابری کی سطح پر تین رکنی جرگہ ممبران کی طرح سیاست کے میدان میں سامنے آئے۔ ان کا بیانیہ اپنی اپنی قوم کی طرف سے قبائلی علاقوں میں جاری بدامنی اور شورش کے خلاف امن اور انصاف کا تقاضا تھا۔ علی ابھی تک وزیر، محسن ابھی تک داوڑ ہے لیکن منظور نے اپنی قبائلی پہچان محسود کو چھوڑ کر پشتین کی پہچان اپنائی، کیونکہ اس کو احساس ہو گیا کہ بد امنی اور نا انصافی صرف قبائل کا مسئلہ نہیں تمام پختون قوم کا ہے۔

انہوں نے پورے پاکستان میں کئی کامیاب جلسے کر کے علاقے پہلے سے موجود سیاسی اور مذہبی تناسب کو عدم استحکام کا شکار کیا۔ جن علاقوں کو چھوٹی بڑی طاقتوں نے میدان جنگ میں تبدیل کر دیا تھا وہاں پر جنگ مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ تو پہلے سے موجود پختون قوم پرست جماعتوں کو بھی پہلی بار میدان ہاتھ سے نکلتے ہوئے محسوس ہوا۔ جنوب میں پی مپپ اور شمال میں اے این پی کو لگا کہ ان کا ووٹر پی ٹی ایم کے بیانیے زیادہ دلچسپی لینے لگا ہے اور ان کا بیانیہ پی ٹی ایم کے سامنے پھیکا پڑنے لگا ہے۔

جس علاقے سے پی ٹی ایم کا ظہور ہوا تھا وہ پہلے صرف مولوی کا چراگاہ سمجھا جاتا تھا۔ جمیعت کو اپنی جنگ پسند پالیسیوں کی وجہ سے جنگ بیزاروں نے رد کرنا شروع کیا تو جماعت اسلامی کو آگے کیا گیا۔ اس لیے جو لوگ اسمبلی کے فلور پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کو پختون کاز کے لئے توانا آواز سمجھتے ہیں کہ وہ محسن داوڑ کے ساتھ آواز ملا کر پختون کاز کے لئے بول رہا ہے وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ سینیٹر مشتاق پنجاب میں جماعت اسلامی کی طرف سے پختون سٹوڈنٹس پر ہونے والے تشدد کے خلاف کیوں نہیں بولتا یا ان کو منع کیوں نہیں کرتا؟ غلط فہمی کے شکار ان حضرات کے لئے عرض ہے کہ محسن جماعت اسلامی کے ساتھ ملا ہوا ہے سینیٹر مشتاق، محسن داوڑ کے ساتھ نہیں۔ جس طرح بلوچستان میں مولانا ہدایت اللہ بلوچوں کے ساتھ ہے اسی طرح سینیٹر مشتاق پختونوں کے ساتھ ہے۔ جماعت اسلامی کو تاریخی پس منظر میں رکھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔

محسن داوڑ نے اپنی جماعت بنا کر پی ٹی ایم کو تقسیم کر دیا ہے جس کے کئی وجوہات ہیں۔ بظاہر تو یہ تقسیم پالیسی معاملات پر ہوئی ہے، کیونکہ محسن سمجھتا ہے کہ اسمبلی میں جاکر اپنے علاقے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک موثر آواز کی ضرورت ہے، جبکہ منظور پشتین اسمبلیوں میں دوسری قوم پرست جماعتوں کی سالہا سال سے موجودگی کی مثال دے کر کہتا ہے کہ انہوں نے وہاں رہ کر ابھی تک کیا کیا ہے؟

محسن کی تربیت این جی اوز کے لائن پر ہوئی ہے وہ جز وقتی فوائد کو طویل المدت مقاصد کے حصول کے لئے زاد راہ سمجھتا ہے، لیکن منظور پشتین کی نظر میں جز وقتی اور قلیل المدتی فوائد کی کوئی وقعت نہیں۔ اس نے عدم تشدد پر مبنی مستقل مزاحمت کا راستہ چنا ہے جو باچہ خان کی سٹریٹیجی ہو کر بھی ان کا طریقہ نہیں ہے۔ باچہ خان نے پاکستان بننے کے بعد پختونوں کو ان کے آئینی حقوق دلوانے کے لئے کے لئے عدم تشدد کا راستہ اپنایا جبکہ تقسیم ہند سے پہلے عدم تشدد آزادی کے حصول کا ذریعہ تھا۔

منظور پشتین سمجھتا ہے کہ عدم تشدد اور پارلیمانی سیاست دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔ پارلیمنٹ میں جانے اور چند سیٹیں جیتنے کی خاطر اس کو بہت کمپرومائز کرنے پڑیں گے۔ کیونکہ پاکستان میں الیکشن میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے ووٹروں کی اکثریت سے زیادہ ایسٹیبلشمنٹ کی قربت اور منظوری زیادہ اہم ہوتی ہے۔ وہ ایک دفعہ اس دلدل میں اترا تو پھر واپسی ناممکن ہو جائے گی۔ اس لئے وہ اسمبلی اور وہاں کی محدود شہد لگی سیاست سے الگ رہ کر اپنی تحریک کو کسی بھی سمجھوتے سے الگ اور آزاد رکھنا چاہتا ہے جس میں وہ ابھی تک کامیاب ہوتا نظر آیا ہے۔

محسن داوڑ نے اپنی نئی پارٹی بنانے کے لئے علی وزیر سے مشاورت کی یا نہیں، مجھے نہیں پتہ، لیکن اس نے علی وزیر کی جیل سے رہائی اور وزیرستان میں واپسی کا انتظار نہ کر کے مجھے یہ حق دیا ہے کہ میں اس کی اس جلد بازی کا تجزیہ کروں۔

سوال بنتا ہے کہ آخر محسن داوڑ کو کیا جلدی تھی کہ اس نے علی وزیر کا انتظار نہیں کیا اور اس کی غیر موجودگی میں منظور پشتین سے راستے الگ کر کے نئی پارٹی کا اعلان کیا؟ کیا اسے ڈر تھا کہ علی وزیر واپس آئے گا تو وہ نئی پارٹی بنانے کی مخالفت کرے گا جس کی وجہ سے اس کو ملی ہوئی پذیرائی مزید کم ہو جائے گی؟ یا اسے کسی طرح معلوم تھا کہ علی وزیر کا انتظار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے بڑی دیر اندر رکھے جانے کا پروگرام ہے؟ یا وہ سمجھتا تھا کہ علی وزیر جیل سے نکل کر منظور پشتین کے ساتھ کھڑا ہو گا اور یوں وہ نئی پارٹی بنانے کے قابل نہیں ہو گا۔

محسن کی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ میں ایک عمار علی جان کے علاوہ باقی تقریباً سارے پرانے پختون نیشنلسٹ سوشلسٹ اور کمیونسٹ شامل ہیں۔ میرا اندازہ تھا کہ این ڈی ایم کی وجہ سے میپ یا اے این پی کو کوئی بڑا کٹ نہیں لگے گا نقصان ہو گا تو پی ٹی ایم کا ہو گا، لیکن حال ہی میں رزمک میں منعقدہ جلسے میں حاضرین کی کم تعداد دیکھ کر میرا یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوا۔ این ڈی ایم کے اہم ممبران جیسے افراسیاب خٹک صاحب بشرہ گوہر یا پروفیسر ابراہیم انتخابی سیاست کے میدان کے شیر نہیں۔

پروفیسر اسماعیل کے علاوہ جتنے بھی پرانے سیاستدان ہیں وہ اپنی سابقہ پارٹیوں کی وجہ سے سینیٹر بنے تھے، وہ اچھے پارلیمنٹیرینز ہیں، انٹلیکچوئل ہیں، لیکن وہ ووٹروں کو متاثر کرنے والے سیاستدان نہیں ہیں، اس لیے ان کا کچھ بھی داؤ پر لگا ہوا نہیں ہے۔ پروفیسر جیل سے رہا ہو کر گھر آئے، ان کی صاحب زادی گلالئی اسماعیل امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہے، کیونکہ گلالئی اسماعیل بھی محسن داوڑ کی طرح پاکستان سے زیادہ عالمی فورمز پر شہرت کی مالک ہے، تبھی تو ماضی قریب میں دونوں کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے نے اعزازات سے نوازا۔

این ڈی ایم کے وجود میں آنے کے بعد پی ٹی ایم کے جذباتی کارکن کنفیوژن کے شکار ہیں۔ محسن داوڑ چونکہ ان کی تحریک کا ساتھی تھا اس لیے وہ ابھی تک انہیں اپنا ساتھی اور رہنما سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ کنفیوژن میں سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں کہ ووٹ محسن کودیں گے لیکن ساتھ پی ٹی ایم کا دیں گے۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ محسن نے این ڈی ایم بنا کر منظور پشتین کا ساتھ اور پی ٹی ایم کا بیانیہ نہ صرف یہ کہ چھوڑ دیا ہے بلکہ اس کو چیلنج اور رد کر دیا ہے۔

محسن داوڑ کی نئی پارٹی کی جان، وزیرستان کی حد تک، اسی میں ہے، کہ وہ ہر فورم پر منظور کے ’مزاحمت اور پارلیمنٹ سے باروبار‘ والی پالیسی کی مخالفت کرے۔

ورنہ پھر وہ منظور سے الگ کیوں ہوا ہے؟ اگر اس کے مقاصد اور بیانیہ وہی ہے جو پی ٹی ایم کا ہے تو پھر اس نے الگ پارٹی بنانے کا خواب کیوں دیکھا؟ وہ پہلے بھی پی ٹی ایم کی شہرت استعمال کر کے راج سنگھاسن تک پہنچا ہے اور آئندہ بھی یہی کر سکتا تھا۔ وہ پی ٹی ایم کی مخالفت نہیں کرے گا تو الیکشن کہاں سے لڑے گا؟ ساتھی کہاں سے بنائے گا؟ ہجوم کیسے پیچھے لگائے گا؟ کیونکہ اس کی پارٹی کا پاؤر بیس وزیرستان ہے، جہاں پر پی ٹی ایم کے کنفیوز کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ این ڈی ایم کو ووٹ بھی دیا جاسکتا ہے اور پی ٹی ایم کا ساتھ بھی دیا جاسکتا ہے۔ لیکن مستقبل میں یہ فالٹ لائن اتنی گہری ہو جائے گی کہ وہاں کے ووٹروں کے لئے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ فی الحال رزمک کا ناکام جلسہ اور پی ٹی ایم کے سٹیج پر محسن داوڑ کی غیرموجودگی اس بڑھتی ہوئی خلیج کی طرف کافی واضح نشانیاں ہیں۔

حال ہی میں گلستان میں تقریر کرتے ہوئے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہبر محمود خان اچکزئی نے بھی اس سلسلے میں اپنی پارٹی کارکنان کو واضح الفاظ میں حکم دیا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہمارے وقتی اتحاد ہوں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان کے جلسوں میں شرکت کریں یا ان کی لیڈرشپ کو گھر بلا کر دعوتیں کھلائیں۔ آپ نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا کارکن بننا ہو گا یا دوسری جماعتوں کا۔

میری نظر ان کے دھمکی آمیز ہدایات اپنی پارٹی کے ان کارکنان کے لئے تھیں جو حال ہی میں سابقہ سینیٹر مرحوم عثمان کاکڑ کے اس جلسے میں شرکت کے لئے گئے تھے جو پی ٹی ایم کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا۔ لگتا ہے محمود خان اچکزئی کو بھی پی ٹی ایم کی طرف سے اپنی پارٹی میں تقسیم کے خطرے کا سامنا ہے، کیونکہ ایک وقت تھا پی میپ پی ٹی آئی کی مہمان نوازی میں پیش پیش تھی۔ شاید ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے علاقے میں پی ٹی ایم کے بیانیے کی شہرت کو اپنی پارٹی کے لئے کیش کر سکیں گے، لیکن پی ٹی ایم نے سخت جان ثابت ہو کر محمود خان اچکزئی کو مایوس اور خوفزدہ کر دیا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ پی ٹی ایم کی مین لیڈرشپ پورے پاکستان میں آنے جانے میں آزاد تھی لیکن بلوچستان میں ان کو جانے سے منع کیا جاتا تھا، میرا خیال ہے ان پر یہ پابندی ابھی تک برقرار ہے، اور اس کے پیچھے بھی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی غیر علانیہ رضامندی شامل تھی۔

ٹی ٹی پی کی قبائلی علاقوں میں واپسی افغانستان میں ظہور پذیر ہونے والا نیا عالمی بندوبست پختونخوا کے چند علاقوں میں پولیس اور اے این پی کے کارکنان پر پھر سے ہونے والے جان لیوا حملے، این ڈی ایم پی ٹی ایم محسن داوڑ علی وزیر اور منظور احمد پشتین کو ایک دفعہ پھر اہم کھلاڑیوں کی حیثیت دینے والے ہیں۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments