دھن، دھونس اور دھاندلی؛ڈنڈا یا ایجنڈا؟


پاکستان میں انتخابات کی کامیابی خوشحالی، انصاف اور خودمختاری کے ایجنڈے پر نہیں بلکہ دھن، دھونس اور دھاندلی کے ڈنڈے کے ذریعے ہی میسر آتی ہے، اس کی ایک سیاہ تاریخ ہے اور تاریخ کے اس حمام میں الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ اور تمام معاون ادارے ننگے ہیں۔ پاکستان میں ہر انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور شرابا شروع ہوتا ہے، جیتنے والی پارٹی انتخابات کو صاف اور شفاف قرار دیتی ہے اور ہارنے والی جماعت دھاندلی کا واویلا کرتی دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان میں انتخابات کے ذریعے جمہوری حکومت اور انتخابات کے آمریت کو تقویت دینے کا دھاندلی کا پہلا سیزن قیام پاکستان سے 1988 تک رہا، اس دورانیے میں آمریت کا عروج جبکہ جمہوریت کا زوال دیکھنے کو ملا۔ اسی دوران آمریت کے اس ناسور نے دختر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو اسی دھاندلی زدہ ماحول سے شکست سے دوچار کر کے وہ گہرا زخم دیا کہ شاید اس زخم پر مرہم ان کی آخری سانس تک کوئی نہ رکھ پایا۔ آمرانہ دھاندلی کے اس سیزن کو ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہیرو ملا جس نے عوامی مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑے اور عوام کے راج کی بنیاد رکھی لیکن بھٹو سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ابھی جنم لیتی اور پنپتی جمہوریت کو قدم جمانے کا موقع ہی نہیں دیا اور بڑے فیصلے کر لیے، وہ بڑے فیصلے کہ جنہیں کا اختیار ہمیشہ برسراقتدار طبقہ اپنے پاس رکھنا ہی پسند کرتا ہے یوں ان کے اقتدار کو ختم کر کے انہیں تختہ دار پر پہنچایا گیا اور سیزن میں ایک بار پھر آمریت کی واپسی ہوئی۔

دھن، دھونس اور دھاندلی کا دوسرا سیزن 1988 سے 1999 تک جاری رہا جب پاکستان میں دو پارٹیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی دیکھنے کو ملی۔ اقتدار بے نظیر کو ملا تو نواز شریف اس کے حصول کے لئے بے چین ہو گئے اور نواز شریف کو ملا تو بے نظیر اس کی واپسی کے لئے بیقرار ہوئیں، اس سیزن میں اسلامی جماعتیں اور ان کے سربراہان ہیروز بنتے رہے، کبھی دیکھو دیکھو کون آیا قاضی آیا قاضی آیا کے نعرہ مستانہ بلند ہوتے دیکھے تو کبھی پروفیسر طاہر القادری کے عوامی اتحاد کے تذکرے، اسی دوران قاضی حسین احمد نے دھرنا سیاست کا رواج ملکی سیاست میں ڈالا، گو کہ یہ سبھی پریشر گروپس ہی رہے لیکن ان کی تحریکیں دھن دھونس اور دھاندلی کو چیلنج کرتی رہیں جبکہ اقتدار اس کی گود میں جاتا رہا جس نے ان تینوں فارمولوں پر مکمل عمل کیا۔

دھن دھونس اور دھاندلی کے سیزن دوئم کا اختتام اکتوبر 1999 میں ایک اور مارشل لاء کے ذریعے ہو گیا۔ مشرف کی آمریت کے 10 سال میں دھاندلی کو سائنسی بنیادوں پر ترقی عطا کی گئی اور سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے انتخابی ڈرامے رچائے گئے، اس سیزن میں مشرف خود ہی ہیرو رہے اور کچھ ناپسندیدہ فیصلوں نے انہیں زیرو کر دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم سیزن تھری کی جانب بڑھیں دھن دھونس اور دھاندلی کے کرداروں پر روشنی ڈالتے ہیں، اس کے کرداروں میں وننگ ہارسز صف اؤل پر ہیں، وننگ ہارس وہ انتخابی گھوڑا ہے جو ایک انتخابی میدان کو جیتنے کے لئے کروڑوں کا دھن لٹانا جانتا ہو، علاقے میں اس کی دھاک کے ذریعے دھونس کا مظاہرہ کرسکے اور انتخابات کے روز طرح طرح کے دیسی ٹوٹکوں کے ذریعے دھاندلی سرانجام دے سکے۔

مشرف کی آمریت کے بعد میثاق مجبوریت ہوا جسے دنیا میثاق جمہوریت کہتی ہے، یہ دو جماعتوں کا انتہائی مجبوری کے عالم میں مک مکا تھا، ایک اقتدار میں تو دوسری اپوزیشن میں رہے گی۔ اقتدار میں رہنے والی جماعت کو پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سیزن کئی عشروں کی پلاننگ تھی لیکن محض انتخابات 2008 کے دو سال بعد ملکی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ایک اور ہیر و یعنی عمران خان کی انٹری ہو گئی اور عشروں کی پلاننگ کا خواب چکنا چور ہوا۔

2013 میں سب کچھ پلان کے مطابق ہی ہوا۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سال بعد مسلم لیگ نون کو پانچ سال میسر آ گئے لیکن اچانک 2013 میں عمران خان نے دھن دھونس اور دھاندلی کو چیلنج کر دیا۔ عمران خان نے تقریباً دو سال انتخابی دھاندلیوں پر بھرپور تحریک چلا کر دھاندلی کے خلاف سب سے بڑی تحریک چلائی اور مسلم لیگ نواز کے اقتدار کے پانچوں سال دھن، دھونس اور دھاندلی کو چیلنج کیا۔ دہائیوں سے قائم اس نظام کو اچانک سے گرانا یقیناً ناممکن تھا لہذا 2018 کے انتخابات میں عمران خان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انہیں بھی وننگ ہارسز میسر آئے لیکن اس بار کچھ الگ ہوا۔

2018 میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں تو کامیاب ہوئی لیکن پہلی بار حکومت بنانے والی جماعت کے ساتھ تاریخی دھاندلی کی گئی اور اس کی سیٹیں کم سے کم کر کے اسے بیساکھیوں کے سہارے حکومت بنانے پر مجبور کیا گیا، پھر وہی ہوا جس کے لئے یہ گیم رچائی گئی محض ساڑھے تین سال بعد اس ہیرو سے بھی اقتدار لے لیا گیا وجہ وہی بنی جو بھٹو کی حکومت گرانے کے محرکات تھے۔ عمران خان کی وفاقی اور پنجاب حکومت کا سورج غروب ہوا۔

دھن، دھونس اور دھاندلی بمقابلہ عمران خان کا ایک اور امتحان پنجاب کی 20 نشستوں کی صورت میں سامنے آ گیا ہے۔ 17 جولائی کو انتخابات ہیں اور اس وقت پاکستان تحریک انصاف مقبول ترین جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دھاندلی کو شکست دینے میں عمران خان اور ان کی پارٹی کامیاب ہوگی یا نہیں۔ پاکستان اب دھن، دھونس اور دھاندلی کے کسی نئے سیزن کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ برسراقتدار طبقات، ملک کے تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کو اب سمجھنا ہو گا کہ قوم اب ڈنڈے کے بجائے ایجنڈے کی سیاست چاہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments