منکر نکیر پوچھتے ہیں


ابھی تازہ تازہ خبر ملی کہ قبر میں جو سوال نامہ ہزار ہا برس سے دیا جا رہا ہے، وہ نصاب بحکم سابق وزیر اعظم پاکستان تبدیل کر دیا گیا ہے۔ تب سے دنیا سے بیزار دل، مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟ جیسی شش و پنج میں غرقاب ہے۔

ہمارے گھروں میں رواج تھا کہ رات سونے سے پہلے دادی، نانی، خالہ، پھپھی، ماں جو بھی ساتھ سلا رہی ہوں وہ کہتی تھیں، اندھیرا ہو گیا۔ ایسا ہی قبر میں ہو گا۔ چلو اب بتاؤ کہ جب قبر میں منکر نکیر آئیں گے تو کیا کہو گے؟

بچوں کو یاد آ جاتا، سرخ آنکھیں دیکھ کے ڈرنا نہیں ہے، پہلے السلام علیکم کہنا ہے، جس سے وہ نرم ہو جائیں گے کہ اپنا ہی آدمی ہے۔ پھر اللہ کی ثناء اور رسالت مآب کا امتی ہونے کا اقرار کرنا ہے۔ پھر نماز کی پابندی کا سوال۔ جو ہم سے اکثر بے ہدایت بچوں کو اپنے جہنمی ہونے کا سرٹیفیکٹ ہی لگتا تھا۔ پھر بھی ہم مطمئن سو جاتے کہ کچھ رب تعالی کی کریمی پر بھروسا تھا اور کچھ یہ اطمینان کے پاسنگ ۔مارکس جتنی تو تیاری ہے ہی!

مگر جب سے معلوم ہوا کہ اب قبر میں فرشتے، ایک سیاست دان کا ساتھ دینے یا نہ دینے پر سوال کریں گے اور بقول انہیں کے جواب اگر نفی میں ہوا تو جہنم کا ون وے ٹکٹ وہیں کے وہیں عطا ہو گا۔ کسی کروٹ چین نہیں ہے۔

اس میں ان پاکستانی بھائیوں کے لئے خوشخبری ہے جن کے یہاں دفن کرنے کی روایت نہیں۔ وہ با آسانی بنا دین و دھرم داؤ پے لگائے کسی بھی سیاسی سوچ کو ناصرف اپنا سکتے ہیں بلکہ بخوشی ووٹ بھی اسی کو دے سکتے ہیں۔

عذاب تو ہم پر ہو گا، جو پکڑے جائیں گے فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔ اب یہ الجھن بھی بیکل کیے جا ہے کہ فرشتوں کے پاس اعمال نامہ ہی ہو گا یا وہ اس کے لئے کسی پرہیزگار، خدائی فوجدار ایجنسی کے ذریعے فائل، پروفائل، سوشل میڈیا ڈیٹا وغیرہ بھی نکلوا لیں گے؟

اب خود تصور کیجئے، ایک تو نئی جگہ، نیا ماحول، مرنے کا اس سے پہلے کوئی تجربہ نہیں اور فرشتے تو میرے فرشتوں نے بھی کبھی نہیں دیکھے۔ تو ہیبت کم سے کم بھی ہوئی تو تین ستارے جتنی تو ہو گی۔

اب اس حواس باختگی میں کچھ بھی الٹ بیان دے دیا تو وہ میری رپورٹ میں جاہل۔ غدار اور کافر بھی لکھ دیں گے!

منکر نکیر پوچھتے ہیں ڈانٹ ڈانٹ کر
ہوں منتشر حواس تو کیا دے بشر جواب

یہ بھی اس ذات کبریا کا احسان ہے کہ میرے پاس ابھی توبہ کا در کھلا ہے کیونکہ میرے حلقے میں ضمنی انتخاب نہیں ہو رہے تو شاید اگلے سال تک میری رسی دراز ہے، کیا خبر میری بخشش کا ساماں ہو جائے یعنی میں ایک عظیم رہبر کی پیرو کار ہو جاؤں۔

مگر حال فی الوقت یہ ہے کہ
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعیت ادھر نہیں آتی

اب تلاش ہے اس پیر بزرگ کی جو مجھے ان بقیہ سوالوں کی تعلیم دے سکے جو قبر کے فرشتے نئے کورس سے پوچھیں گے۔ اللہ سے لاکھ بار توبہ کہ درج ذیل میرے ذہن کی اختراع ہیں۔

تم نے خود کو عظیم رہنما کے دیدار سے محروم کیوں رکھا؟
تمہیں شہباز گل اور فیاض چوہان سے برگزیدہ بندوں کا انداز تکلم کیوں نہ بھایا؟
تم نے ایک جمہوری عمل کو بیرونی سازش کیوں نہ مانا؟
تم نے جلسے میں رقص کا فریضہ انجام کیوں نہ دیا؟
تم نے سوشل میڈیا پے بدکلامی کا ثواب کیوں حاصل نہ کیا؟

وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام سوالات کے میرے پاس جو جواب ہیں، مجھے دوزخ میں اپنا آپ ایک سیخ پے چڑھا کباب ہوتا دکھائی پڑ رہا ہے۔ کہوں تو کیا کہوں؟ کروں تو کیا کروں؟ بس ایک ہی عرض ہو گی۔

تیری بخشش کے بھروسے پے خطائیں کی ہیں
تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments