وہ کامران ہو گیا


فلک پر بھی عید کا دن ہے۔ سب فرشتے روحیں جنات وغیرہ ایک جگہ جمع ہیں۔ یہ انبیا کے دادا کا گھر ہے۔ یہ عید انہی سے منصوب ہے۔ انہیں خدا نے بڑھاپے میں بیٹا عطا کیا۔ اور پھر اسے قربان کرنے کا خواب دکھا دیا۔ انہوں نے اس بیٹے جناب اسماعیل سے ذکر کیا تو انہوں نے اپنی گردن ان کے لیے پیش کر دی۔ خدا کو باپ بیٹے کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اسماعیل کی جگہ ایک بھیڑ قربان کرنے کے لیے بھیج دی۔ اور تا قیامت مسلمانوں کو اس ایثار اور قربانی کی یاد تازہ کرنے کی تاکید کر دی۔

صدیاں بیت جاتی ہیں۔ ذوالحج کے اس مہینہ میں مسلمان اس سنت کی یاد مناتے ہیں۔ ابراہیم و اسمعیل کا خدا جہاں میں کروڑوں جانور پیدا کرتا ہے۔ کروڑوں انسان اربوں روپے خرچ کر کے یہ سنت پوری کرتے ہیں۔

اچانک زمین سے اس عید کے دن ایک بچے کی ایسی لاش آتی ہے کہ دیکھی نہیں جاتی۔ ہڈیاں ٹوٹی ہوئی کھال کھچی ہوئی آنکھوں سے خون جاری۔ یہ کون ہے؟ کس نے آج سنت ابراہیمی کی یاد میں کسی کا اسمعیل قربان کر دیا؟ ہاں ہر اسمعیل کی جگہ پر فلک سے قربانی کا جانور نہیں آتا۔ بھوک کے شکنجے میں جکڑے نہ جانے کتنے اسماعیلوں کو یہاں خود قربان ہو کر فلک پہ واپس جانا پڑتا ہے۔

کامران نے اس زمین پر گیارہ سال گزارے۔ خدا کے رازق ہونے کی آس پر دنیا میں لائے گئے بہت سارے بچوں کی طرح کامران بھی اپنے پیدا کرنے والوں کا رزق کما رہا تھا۔ ننھے کاندھوں پر رزق کی اس تفہیم کا بوجھ اٹھاتا کامران اپنے بھائی کے ساتھ بہاولپور سے لاہور اسی رزق کی تلاش میں آ گیا جو بقول شخصے وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ آج تک خدا کے رازق ہونے کی یہ ماورائے عقل و عمل تشریح کرنے والے کروڑوں چائلڈ لیبر کرنے والے بچوں کے سوالیہ نشان بنتے جسموں سے ایسے ہی نظریں چراتے ہیں جیسے ”افلا یعقلون“ کا یہ دین ان سے۔

ڈیفینس کے علاقے کے پتھر سے بنے مکان اور اسکے مکینوں کے چنگل میں یہ دونوں معصوم ایک سال سے اپنی غربت کا خراج اپنے بچپن کی مشقت سے دے رہے تھے کہ ذوالحج کا مہینہ آ گیا اور مسلمان سنت ابراہیمی کی تیاری کرنے لگے۔ ان درندوں کے دل بھی ایثار و قربانی کے جذبے سے یوں لبریز ہوئے کہ نصراللہ نامی اس گھر کے مالک نے بھی ایک جانور قربان کیا۔ اس درندگی اور وحشت کا عالم دیکھیے کہ جس قربانی میں معروف و رائج طریقے کے مطابق بھی تیسرا حصہ انہی غریبوں کا ہے۔ یہ طریقہ بھی ان کی جان بخشی کا باعث نہ ہو سکا۔

ہو سکتا ہے دونوں بھائیوں نے سوچا ہو آپس میں مشورہ بھی کیا ہو کہ رزق خدا دیتا ہے جس کے حکم پر اس کے ایک نبی کی سنت میں مسلمان قربانی کرتے ہیں۔ جس میں سے تیسرا حصہ ہم غریبوں کا ہوتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ آسمان کے بعد زمین کے خدا بھی آتے ہیں۔ آسمان کے خدا نے آسمان سے کچھ حکم عدولی کر کے کھانے پر جناب آدم زمین پر بھیجا۔ زمین کے خدا تو اذیت دے کر سسکا سسکا کر اور تڑپا تڑپا کر آدم زادوں کو جان ہی سے مار کر واپس آسمان پر بھیجتے ہیں۔

نصراللہ کے خاندان کے پانچوں افراد ان دونوں بچوں پر پل پڑے۔ یہ تشدد پہلے بھی ہوتا رہتا تھا مگر اس بار معاملہ سنت ابراہیمی کا تھا۔ دل قربانی اور ایثار کے جذبے سے بھرے پڑے تھے۔ شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ بوٹیاں بکرے کے جسم کے کس حصے کی ہیں۔ رانیں، پسلیاں، گردن، سر۔ بچوں کی ہر جگہ کو ادھیڑ دیا گیا۔ تاکہ بوٹیاں واپس وصول کی جا سکیں کیونکہ خدا رازق ہے اور قربانی میں سے تیسرا حصہ ان بھوکوں کا ہے۔ کامران کی ہڈیوں سے قیمت وصول کر لی گئی۔

سو کامران گیارہ برس کی عمر میں واپس فلک پر پہنچ گیا۔ ہم کیونکہ مسلمان ہیں اس لیے یہاں بھی ہم مقدر پہ اکتفا کرتے ہوئے یہ کہہ کر ایمان مزید مضبوط کر سکتے ہیں خدا نے جو اس کا رزق لکھا تھا جسے وہ ساتھ لایا تھا وہ تھا ہی اتنا۔ اس کا چھوٹا بھائی بچ گیا لیکن وہ اگلی بار۔ کیونکہ نصراللہ کو اپنے نام کے لحاظ سے بھی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظام کے اعتبار سے بھی ”دیت“ کی صورت میں اللہ کی نصرت حاصل ہو گی۔ اور کامران کے ماں باپ بھی اس کی قیمت وصول کر کے اپنا ایمان مزید مضبوط کر لیں گے کہ واقعی ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔ سو وہ کامران ہوا۔

خبر۔ لاہور Phase III، 141۔ X Block ڈیفینس میں نصراللہ نامی درندے نے اپنے خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ مل کر فریج سے قربانی کا گوشت نکال کر کھانے پر اپنے گھر کام کرنے والے دو بچوں میں سے گیارہ سالہ کامران کو تشدد کر کے قتل اور اس کے سات سالہ چھوٹے بھائی کو شدید زخمی کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments