ہم کون ہیں؟


آج بکرا عید کا چوتھا دن ہے اور دن کا آغاز ایک کرم فرما کی بھیجی ہوئی اس ویڈیو سے ہوا ہے۔ جس میں بہادر آباد کی گلیوں میں ایک بھپرا ہوا بھینسا راہ میں آنے والی ہر شے کو روندتا ہوا ادھر سے ادھر دوڑ رہا ہے۔

ایک صاحب دل اس پر فائرنگ کا شوق پورا کر رہے ہیں اور ویڈیو بنانے والے صاحب بہادر کمنٹری کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں ”پیچھے کی ٹانگوں میں گولی لگی ہے اب گر جائے گا“ ۔ بھینسا نہیں گرتا فائرنگ کا سلسلہ ایک تواتر سے جاری رہتا ہے۔ گولیاں اس کے جسم کے مختلف حصوں پر لگ رہی ہیں، پیٹ پھٹ گیا ہے اور اندر کا مال ابل ابل کر سڑک پر گر رہا ہے۔ بھینسا اب بھی بھاگ رہا ہے۔ گلی میں خون کی دھار بہے رہی ہے، بھاگتے بھاگتے بھینسا ویڈیو بنانے والے کی حد سے باہر نکل جاتا ہے۔

صبح کا آغاز اس خونی ویڈیو کے ساتھ ہونے کے بعد سے میرے دل پر کیا گزری یا گزر رہی ہے، اسے جانے دیں۔ آفت تو اس ایک سوال نے ڈھائی ہوئی ہے جو صبح سے میرے اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کے پوچھتا ہے ”کیا یہ قربانی ہے؟ اگر ہے تو کیا جائز ہے؟“

جس قربانی کے لئے جانور کی عمر، قد کاٹھ سے لے کر چال ڈھال تک کی وضاحت ہو اور جانور کو لٹانے بٹھانے کھلانے تک کی ہدایت دی گئی ہو اور بار بار اس بات کا اعادہ کیا جائے کہ حکم قربانی دینے والے کو ہمارے گوشت اور خون بہا کی ضرورت نہیں۔

وہ تو ہمیں محبت اور صلۂ رحمی سکھانا چاہتا ہے۔ اس ہدایت کی روشنی میں ایک بے زبان جانور کو گولیوں سے چھلنی کرنے کے بعد ہم فلسفہ قربانی کے کس عہدے پر کھڑے ہیں؟

گزشتہ کئی برسوں سے قربانی کے نام پر وحشت زدگی کے یہ واقعات ایک تواتر سے ہو رہے ہیں۔

وہ جو میرے اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہے نا وہ ہر بار یہ بھی پوچھتا ہے کہ جب جانور سنبھالنے کی استعداد نہیں تو منوں، ٹنوں وزن کے جانور خریدتے کیوں ہیں۔ ؟ اس قربانی ہی کے نام پر ہم اونٹوں کا جو حشر کرتے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیا مالک کائنات نے قربانی کا اس لئے کہا ہے کہ ایک جیتے جاگتے وجود کو ہم با زور ڈنڈے، چھریاں گولیاں مار کے پہلے ادھ موا کر دیں اور پھر اللہ اکبر کہہ کے چھری پھیر دیں۔

مجھے پتہ ہے مالک کائنات ظالم نہیں وہ تو قدم قدم پے محبت اور صلۂ رحمی کی ہدایت دیتا ہے۔

ایسے موقعوں پر میں اکثر یہ بھی سوچتی ہوں کہ یہ سب جاہلانہ، قاتلانہ حرکات ہمارے سماج ہی میں کیوں ہوتی ہیں؟

سعودی عرب جہاں ہر سال لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ ان کے اونٹ، بھینسے، بیل، گائیں بے قابو ہو کے کیوں نہیں بھاگتیں؟ ان کی سڑکیں، گلیاں خون قربان سے لالوں لال کیوں نہیں ہوتیں؟ یہ سب ہمارے شہروں میں کیوں ہوتا ہے؟ بارش کا پانی اور خون قرباں ایک دوسرے کے گلے مل کے خون کے دریا کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خونی منظر کسی اور اسلامی ملک میں دیکھنے کو کیوں نہیں ملتا؟ نہ ہی قربان جانوروں کی باقیات شاہراؤں، شاہراؤں گھومتی، مچلتی، سڑتی نظر آتی ہیں۔

ہم جو خود کو خادم رسول، عاشق رسول کہتے ہیں، ہماری گلیوں میں یہ باقیات دنوں تعفن اٹھاتی رہتی ہیں اور ہم ٹخنے کھولے ان کے دائیں بائیں سے کود، کود کے نکل رہے ہوتے ہیں۔

وہ جو اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہے نا اس نے ابھی ابھی یہ بھی پوچھا ہے کہ یہ بتاؤ فریضہ مذہب کی ادائیگی کے نام پر جانوروں کی جو بے حر متی ہوتی ہے وہ تو اپنی جگہ ہے ہی ظالمانہ اقدام، لیکن یہ عین عید کے دن سعید آباد کے رہتے بستے گھر میں گھس کے چار معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے بھون ڈالنا کیا ہے؟ اور گلشن اقبال کے بھرے پرے گھر میں چھ بچوں کی ماں کی سانسوں کو گھونٹ ڈالنا اس پر بھی دل شاد نہ ہو تو بعد ازاں اس کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے چولہے پر چڑھا دینا، یہ، یہ سب کیا ہے؟

کم بخت کو سوال کرنے کی تو اتنی عادت ہے نا!

اب بار بار یہ بھی پوچھ رہا ہے کہ تم کو اشرف المخلوقات ہونے کا دعوی ہے، اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہو، صلۂ رحمی اور حسن سلوک کے درس دیتے ہو لیکن دو معصوم بھوکے بچوں کو بنا اجازت فرج سے کھانا لینے کی پاداش میں مار مار کے ادھ موا کر دیتے ہو۔ ان میں سے ایک جو زیادہ غیرت مند تھا اس نے تو ”تف“ کہہ کے دنیا سے منہ ہی موڑ لیا۔

ابھی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ پھر سر اٹھایا اور پوچھا ”یہ حیدر آباد اور اس کے گردونواح میں کیا ہو رہا ہے؟“

میں نے گھورتے ہوئے کہا ”ہمارا کیا تعلق ہوٹل والوں اور گاہکوں کا جھگڑا ہے۔ ہوتا رہتا ہے“ ۔ میری بات سن کے اس نے مسکراتے ہوئے سر کنڈل میں کر لیا۔ تب ہی ایک اور ویڈیو موصول ہوئی جس میں نوجوانوں کا ایک غول، ایک ہوٹل کے سامنے کھڑا، مالک ہوٹل کو فوری طور پر ہوٹل بند کرنے اور جگہ چھوڑنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ اس سے قبل بھی ایک ویڈیو آئی تھی اس کا انداز زیادہ جارحانہ تھا۔

وہ جو میرے اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اس کو تو میں نے ڈانٹ ڈپٹ کے خاموش کر دیا ہے۔
لیکن
یہ سوال تو اپنی جگہ پھن اٹھائے کھڑا ہے کہ ہم کون ہیں؟

کیا میری طرح آپ سب لوگ بھی صبح شام کے درمیان، سورج نکلتے، ڈوبتے، چاند تاروں کو چمکتے، ہوا کو سرسراتے اور بادلوں کو برستے دیکھ کے سوچتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟

ہم کون ہیں؟ سے میری مراد اس کرہ ارض پر آباد چلتی، پھرتی، جیتی، جاگتی ان تمام اقوام سے ہے جو کائنات کا حسن ہیں اور ان ہی کے دم سے کائنات آباد ہے۔

میں سوچتی ہوں اور خود سے سوال کرتی ہوں کہ قوموں کی اس رنگا رنگی میں ہم کون ہیں؟ ہم ہی وہ حضرت انساں ہیں جس کے لئے یہ کائنات جیسی مافوق الفطرت شے بنائی گئی ہے۔ یا ہم جانوروں کی مختلف اقسام میں سے کوئی قسم ہیں؟ یا درمیان کی کوئی شے ہیں؟ یا بنانے والے سے کوئی بھول چوک ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ آدھی ادھوری قوم کائنات میں اپنے رنگ دکھا رہی ہے۔

گزشتہ دو ہفتوں سے بے وقتی مون سون شروع ہونے کا شور پڑا ہے اور قبل از وقت شروع ہونے والے مون سون کے اثرات اور نتائج بھی پڑوسی ملکوں میں آبادیوں کے بہے جانے، پلوں کے ٹوٹنے، مٹی کے تو دے گرنے، سڑکوں کے غائب ہو جانے، بجلی، پانی اور غذائی اجناس کی قلت کی شکل میں عوام الناس سے لے کر حکومت وقت، وزرا، فقرا سب دیکھ رہے تھے اور دیکھ رہے ہیں۔

لیکن من حیث القوم ہم نے کیا کیا؟

حکومت وقت، وزرا اور فقرا کو کرسیوں کے کھیل اور ہڈیوں پے لڑنے سے فرصت نہیں اور ہمیں بحیثیت عوام شعور نہیں۔

ایسے میں اگر سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا اور حکومتوں کو پالنے والا آدھا کراچی بہے جائے، پورا ٹھٹھ غائب ہو جائے، بلوچستان کے پنج گور، گوادر، جعفر آباد، لسبیلہ اور بہت سے چھوٹے شہر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، جہلم دریا برد ہو جائے، گجرات، گوجرانوالہ نہ رہیں، پنڈی کو نالہ لئی نگل لے، اٹک، دیر، تخت بائی، مردان کو پہاڑی تو دے چھپا لیں تو حکومت وقت ان کے وزرا، فقرا سمیت نہ کسی کا جگر پھٹے گا، نہ کلیجہ منہ کو آئے گا، نہ دل بند ہو گا۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے کسی کی زندگی کا چاند سورج نہیں گہنائے گا۔ یہ بغلیں بجائیں گے گے اور گانے گائیں گے کہ ”چلو پھر سے نئی بستیاں بسائیں اور کھائیں کمائیں“ ۔ کوئی بتلاؤ کہ قوموں کی درجہ بندی میں ہم کون ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments