سچائی بیان کرتا ایک جھوٹا شعر


بعینی رایت ذئباً یحلب نملة ویشرب منھا رائق اللبن۔
(میں نے اپنی آنکھوں سے ایک بھیڑیا دیکھا جو چیونٹی سے خالص دودھ نکال کر پی رہا تھا)

جی ہاں! یہی وہ شعر ہے جسے لوگ عربی زبان کا سب سے جھوٹا شعر کہہ کر شاعری کے اس عجیب و غریب سطر کو ایک دوسرے سے طنز و مزاح کے طور پر شیئر کرتے ہیں۔ حقیقت، مگر اس کے برعکس یہ ہے کہ اگر کوئی عقلمند اس کے حقیقی معنی اور کہانی کو جان گیا تو شاید وہ اسے ایک سچا شعر قرار دینے میں بخل سے کام نہیں لے گا۔

کیا بھیڑیا چیونٹی کا دودھ، دھو سکتا ہے؟
کیا چیونٹی کے پاس حقیقت میں دودھ ہے بھی؟ نیز ایک بھیڑیے کے لیے چیونٹی کا کتنا دودھ کافی ہو سکتا ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جو اس شعر کو پڑھنے والے کے ذہن میں گھومتے ہیں۔ پھر عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ شعر کہنے والا کوئی عام شاعر نہیں، بلکہ وہ عربی شعر و ادب کا ایک ستون ہے اور سند کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ ہے، ابو الطیب المتنبی۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جب کسی تعجب انگیز معاملے کی وجہ معلوم ہوجاتی ہے تو پھر حیرت جاتی رہتی ہے۔ شاید اصل کہانی سمجھ کر آپ کی بھی حیرت جاتی رہے۔ کہانی یہ ہے کہ متنبی کہتا ہے :

میں کوفہ کے بازاروں میں ایک ایسی غریب عورت کے پاس کھڑا تھا جو مچھلی بیچ رہی تھی۔ اس کے پاس ایک شخص آیا، جو اپنے ڈیل ڈول، اور مہنگے کپڑوں کی وجہ سے انتہائی دولت مند لگ رہا تھا۔ اس نے عورت سے کہا: ایک پونڈ مچھلی کتنی کی ہے؟ مسکین عورت نے کہا: پانچ درہم کی! اس نے تکبرانہ انداز سے کہا: بلکہ ایک پونڈ کے بدلے ایک درہم دوں گا۔

غریب عورت نے بڑی عاجزی سے کہا: جناب! میں ایک غریب عورت ہوں، اور یہ مچھلیاں میری نہیں بلکہ کسی اور کی ہیں، جو میں اس کے لیے بیچ رہی ہوں اور وہ مجھے جو میرا نصیب ہے، دے دیتا ہے۔

امیر آدمی نے ایک بار پھر بڑے غرور سے کہا : ایک درہم سے زیادہ نہیں دوں گا۔ مسکین عورت نے بڑی لاچارگی سے عرض کیا: بلکہ پانچ درہم ہی اس کی قیمت ہے۔

جب مال دار آدمی نے دیکھا کہ عورت کسی طرح قیمت کم نہیں کر رہی، تو اسے انتہائی کمتر سمجھتے ہوئے حکم دینے لگا: میرے لیے دس پونڈ تول کر دے دو۔

غریب عورت نے اس امید پر دس پونڈ مچھلی برابر کر کے دے دیں کہ اسے پوری قیمت مل جائے گی، لیکن اس آدمی نے انتہائی سختی سے مچھلیاں اس کے ہاتھ سے چھین کر دس درہم اس کی طرف پھینک دیے اور جلدی سے اپنی راہ لی۔

میں نے دیکھا کہ غریب عورت کے آنسو اس کے رخساروں پر گر رہے تھے اور وہ اسے مسلسل پکار رہی تھی، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ متنبی کہتے ہیں : میں نے خود اسے پکارا، لیکن اس نے مجھے بھی کوئی جواب نہیں دیا، کیونکہ وہ در حقیقت اپنی دولت، کنجوسی اور کم ظرفی میں انسان کی شکل میں بھیڑیا تھا اور وہ مسکین عورت اپنی کمزوری، لاچارگی اور مفلسی کی وجہ سے چیونٹی بنی ہوئی تھی۔ تب متنبی نے کہا تھا کہ:

بعینی رایت ذئباً یحلب نملة ویشرب منھا رائق اللبن۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ایک بھیڑیا کو دیکھا جو چیونٹی سے خالص دودھ نکال کر پی رہا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس مختصر سے جھوٹے شعر نے جو سچائی بیان کی ہے وہ لمبے چوڑے مضامین میں بھی بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس نے ہر اس طاقتور کو درندہ کہا ہے جو کمزور کے ساتھ زیادتی اور ظلم کر کے اس کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے، جو کمزوروں کا استحصال کر کے انہیں اپنی ترقی کے لیے بطور سیڑھی استعمال کرتا ہے، اس نے انسانی شکل کے ایسے درندہ صفت لوگوں کو بھیڑیا کہا ہے جن کا چہرہ روشن، مگر اندرون چنگیز سے بھی زیادہ تاریک اور بے رحم ہے، اس شعر میں ان ہوس پرستوں کا ذکر ہے جو اپنی آتش ہوس بجھانے کے لیے عورت کو بطور کھلونا استعمال کرتے ہیں، ان غلیظ کرداروں کی طرف اشارہ ہے، جو ہر چارسو ہمارے معاشرے میں نظر آتے ہیں، اور جو بعض اوقات اتنے بھیانک ہوتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسان تو کیا ایک درندہ بھی کانپ کے رہ جاتا ہے۔

اس میں ان اوباش نوجوانوں کے مکروہ چہروں کو واضح کیا گیا ہے جو زنانہ کالجز اور تعلیمی اداروں کے باہر کھڑے ہو کر لڑکیوں پر آوازیں کستے ہیں، جو بازاروں میں ضرورت سے نکلنے والی خواتین کا سر سے لے کر پاؤں تک ایکسرے لیتے ہیں، اس میں اس جہاں رنگ و بو میں انسانی خون سے رنگنے ہاتھوں کا بیان ہے، اس میں قانون کو مکڑی کا جالا سمجھ کر توڑنے والے دولت مندوں کے چہرے کو بے نقاب کیا گیا ہے، اس میں عوام کو چیونٹی سمجھنے والے حکمرانوں کا ذکر، اور زور و زر کے ذریعے غریب انسانوں کو غلام بنانے والے سورماؤں کا بیان ہے۔

جی ہاں! یہ فقط شعر نہیں بلکہ معاشرے میں موجود ہر غلیظ کردار کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments