ہجر کو بخشی دھڑکن


فیصل زمان چشتی سے بڑا دیرینہ تعلق ہے۔ بچپن میں مل بیٹھنا اور جون جولائی کی دوپہر تک کرکٹ کھیلنا معمول تھا۔ کاغذ کی کشتی اور بارش کا پانی ابھی تک بھولے نہیں۔ شعر و ادب کا غیر معمولی ذوق ان میں اس وقت بھی بدرجۂ اتم موجود تھا جس کا اظہار بزم فکر نو کی محافل میں ہوتا رہتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ منزلوں کے حصول اور روز گار کی دلفریبیوں کی خاطر ہم نے بھی، بڑے، ہو کر ہمسفروں کو کھونا شروع کر دیا۔ فیصل بھائی لاہور گئے تو لاہور کے ہی ہو کر رہ گئے۔

ادبی ذوق کی دولت سے مالا مال فیصل زمان آج اپنی خداداد صلاحیت اور مشاہیر و اساتذہ کی صحبت و رفاقت میں خود کو سکہ بند قومی شاعر منوا چکے ہیں، الحمدللہ حلقہ ارباب ذوق کے روح رواں اور ادبی حلقوں کی شان ہیں۔ خزاں میں پتے اگانے اور سفید لمحوں میں رنگ بھرنے کی خو سے خوب شناسا ہیں۔ فیصل زمان چشتی کی کتابوں کے عنوانات اپنے اندر ایک خاص معنویت رکھتے ہیں۔ ”کرب تنہائی“ ”گئے وہ خواب کہاں“ اور اب ”ہجر کو بخشی دھڑکن۔ ہم اس بات کو کس بات پر تعبیر کریں؟ یقیناً وہ تلخیٔ حیات سے گھبرانے اور گھبرا کر پینے والوں میں سے نہیں ہیں بلکہ آلام و مصائب کی جاگیر میں نوابوں کی طرح زندگی کرنے کے قائل ہیں۔ کہتے ہیں،

دکھ تہ تیغ کیے، ہجر کو بخشی دھڑکن اپنی جاگیر میں ہم نے بڑی سرداری کی

ان کی شاعری کے بنیادی اوصاف میں سنجیدگی، ضبط اور متانت ہے۔ روایت اور ماضی کے طلسم کا ہر تخلیق کار سامنا کرتا ہے۔ مگر اس سے باہر آنے کی حکمت میں لکھنے والے کی نجات ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی تقدیر پر راضی ہے یا نجات کی سعی کرتا ہے۔ شعری روایات میں دل اور دنیا کی جدلیات ہے۔ دنیا دل کو اپنی طرف کھینچے تو دل کبھی مزاحمت کرتا ہے اور کبھی ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ جب دل ہارتا ہے تو تو اپنی متاع عزیز یعنی درد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ مگر فیصل زمان کسی حال میں دل اور درد کو کھونا نہیں چاہتے، لکھتے ہیں،

اس طرح پھرتا ہوں میں دل کی پکڑ کر انگلی جیسے بیمار کو لے کر کوئی بیمار چلے

بے چینی و بے قراری غزل کا جزو لاینفک ہے۔ محبت اور ہجر کے علاوہ بھی کئی غم حیات ہیں۔ جن کے برملا اظہار و اعتراف سے جھجکتے نہیں جیسے۔

مفلسی کی نہیں تکلیف، نہ بیماری کی میرا دکھ یہ ہے کہ بچوں سے اداکاری کی
ایک اور جگہ رقم طراز ہیں
زندگی جینے کا تاوان لیا کرتی ہے بوجھ ایسے ہیں کہ ہم جاں سے گزر جاتے ہیں
فیصل زمان کو زندگی کے تلخ حقائق سے بھی مکر نہیں،
زوال عمر ہے سائے سروں سے ڈھلنے لگے معاملات جو ہاتھوں میں تھے نکلنے لگے
مزید یہ کہ فیصل زمان کسی کے ظرف سے بڑھ کر اس سے مہرو وفا گناہ گردانتے ہیں۔ ان کا خیال ملاحظہ کریں
سارے اعمال پہ بھاری ہے مروت کا گنہ لے کے مجھ کو یہی تقصیر کہاں تک پہنچی
اک اور جگہ کہتے ہیں، اپنے غم خوار کے ادراک سے ڈر لگتا ہے زہر چھوڑو مجھے تریاق سے ڈر لگتا ہے

ان کے اسلوب میں شخصی اذکار کے ساتھ ثقافتی اور خصوصاً مذہبی اقدار کا خوبصورت اظہار ہے۔ حمد و نعت کے ساتھ منقبت اور امام عالی مقام سے عقیدت کے بیان ان کی مذہبی وابستگی کا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں معاشرے اور نظام کی نا انصافیوں اور ناہمواریوں کے خلاف آواز بلند کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں اور ان کی مزاحمتی نظم، مجھ کو گرفتار کرو، اس بات کی غماز ہے۔ البتہ فیصل زمان کے اس شعر نے ہمیں قدرے چونکا دیا،

شہر چھوڑا ہے مضافات میں آ بیٹھے ہیں چھت کے ہوتے ہوئے برسات میں آ بیٹھے ہیں

کیونکہ ہمیں لگا کہ وہ خود دور افتادہ علاقے اور مضافات کو چھوڑ کر ادبی مرکز لاہور آ کر یہ شکوہ کیوں رکھتے ہیں۔ مگر جب اسی غزل کا اگلا شعر دیکھا تو جان گئے کہ فیصل بھائی ایسا کیوں کہتے ہیں، لکھتے ہیں

سوچ پتھریلی ہوئی، لہجے میں نرمی نہ رہی جب سے ہم پکے مکانات میں آ بیٹھے ہیں
تاہم اس سے اگلے شعر میں ان حالات کے کچھ مثبت پہلوؤں کے شکر گزار بھی دکھتے ہیں،
روشن احساس ہوا نور بھر آیا دل میں جب سے کچھ لوگ خیالات میں آ بیٹھے ہیں

فیصل زمان چشتی کی شاعری اور شخصیت میں پایا جانے والا صوفیانہ مزاج اور عجز و فقر کا رنگ انہیں اپنے معاصرین میں نمایاں کرتا ہے۔ خوب کہا کہ،

چمک دمک نہ زر و مال پر نظر فیصل ہم اپنے فقر کو بیٹھے ہیں سرخ رو کر کے

فنی اعتبار سے ان کی استعمال کردہ بحور، تخیل اور اسلوب قابل تحسین و قابل رشک ہیں۔ جاندار قوافی اور شاندار ردیفوں کا استعمال، کیا کہنے۔ حتیٰ کہ زبان غیر سے، پلیز، کا ردیف لے کر شرح آرزو کر ڈالی جو ان کی وسعت قلبی و نظری کا ثبوت ہے۔ غرض زندگی کے تمام شعبوں پر خامہ فرسائی کر کے خود کو verstile artist ثابت کر چکے ہیں۔ روایت، جدت اور انفرادیت کے بیک وقت حامل ہونے کے باعث فیصل زمان عہد حاضر میں ایسی آواز کا روپ ہے جو درخشاں مستقبل سے ہم آغوش ہوتے ہوئے نمائندہ شعراء میں منفرد و ممتاز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ یوں کہ انہیں ناصر کاظمی کی طرح ہنگامہ پرور شہر اداس دکھائی نہیں دیتا بلکہ ظہیر کاشمیری کی طرح اپنے بعد بھی اجالا نظر آتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فیصل زمان چشتی کو ہجر ایسی بلا کو بھی دھڑکنیں بخشنے کا ملکہ حاصل ہو گیا ہے۔ مبارک باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments