شفیع عقیل بحیثیت صحافی


شفیع عقیل صحافت و ادب کا ایک اہم نام ہیں۔ آپ1930ء میں لاہور چھاؤنی کے قریب ایک گاؤں تھینہ میں پیدا ہوئے۔ شفیع عقیل نے 1950ء میں کراچی آ کر شین عین کے ادبی و قلمی نام سے روزنامہ ”جنگ“ سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ ”جنگ“ میں بچوں کے میگزین ایڈیٹر ہو نے کے ساتھ ساتھ آرٹ پر کالم لکھا کرتے تھے۔ آپ بچوں کا سنڈے میگزین اس قدر خوبصورتی سے ترتیب دیتے کہ (مرحوم) میر خلیل الرحمن نے آپ کو بچوں کا ایک ماہنامہ نکالنے کی ترغیب دی جس کے نتیجے میں شفیع عقیل نے اپنے دور کا ایک بے حد کامیاب رسالہ ”بھائی جان“ کے نام سے جاری کیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا کہنا تھا کہ ”بھائی جان“ کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی، ہماری زبان میں بچوں کے لیے بہت کم اخبار اور رسالے ہیں، جو ہیں وہ کچھ اچھے نہیں، بچوں کے لیے لکھنا بہت مشکل ہے، اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے، لوگ اپنا بچپن بھول جاتے ہیں، اس لیے بچوں کی زبان، بچوں کی باتیں، بچوں کے شوق اور ان کے دل کی امنگوں کو نہیں سمجھتے۔ بچوں کے لیے بچہ بننا پڑتا ہے، یہ آسان نہیں۔ ”بھائی جان“ کے لکھنے والے اس گر کو سمجھتے ہیں۔ ”

شفیع عقیل قابلیت پر یقین رکھتے تھے، باصلاحیت لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے، وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون لکھ رہا ہے۔ سنڈے ایڈیشن ہو یا ”بھائی جان“ یا پندرہ روزہ ”نمک دان“ نہایت سلیقے سے اسے ترتیب دیتے، صفحات کی ترتیب میں ان کا جمالیاتی ذوق جلوہ گر ہوتا تھا۔ شفیع عقیل نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور اس لحاظ سے بڑے دل اور کھلے ذہن کے مالک تھے وہ اپنی ذات میں خود ایک ادبی ادارہ تھے۔

بڑے بڑے لکھنے والوں نے اپنے سفر کا آغاز شفیع عقیل کی رہنمائی سے کیا جن میں حسینہ معین، عبید اللہ علیم، محسن بھوپالی، رشیدہ رضویہ، مستنصر حسین تارڑ، اطہر شاہ خان، نسیم درانی، افسر آذر، نعیم آر وی، علی ظفر جعفری، عبدالقیوم شاد، غازی صلاح الدین، انور شعور، قمر علی عباسی، رضا علی عابدی، خالدہ شفیع، عفت گل اعزاز، نوشابہ صدیقی، محمد عمر میمن، طلعت اشارت اس کے علاوہ بے شمار نام شامل ہیں جو ”نونہال لیگ“ اور بچوں کی ادبی تنظیم ”بزم نو آموز مصن۔

فین“ کے رکن تھے۔ بچوں کی یہ ادبی تنظیم بھی شفیع عقیل کی سر پرستی میں شروع ہوئی جس کا اجلاس انجمن ترقی اردو کراچی کی لائبریری (پاکستان چوک ) میں منعقد ہوا کرتا تھا۔ شفیع عقیل تریسٹھ سال ”روزنامہ جنگ“ سے وابستہ رہے انھوں نے مختلف عنوانات پر ان گنت کالم لکھے، بے شمار کتابوں کے ترجمے کیے۔ ان کو فن مصوری پر عبور حاصل تھا اور انھوں نے عصر حاضر کی مصوری کا اپنے کالموں میں بھرپور جائزہ پیش کیا ہے۔ فن مصوری پر ان کے یہ کالم کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔

ان کالموں میں شفیع عقیل نے مصوروں کو ایک عام انسان کی شکل میں پیش کیا ہے جس سے ہمیں ان کی روز مرہ زندگیوں کے وہ رخ دکھائی دیتے ہیں جو مصوروں کے کام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ شفیع عقیل سادہ طبیعت اور وطن سے محبت کرنے والے انسان تھے انھیں اپنی مٹی اور اپنی روایات سے بے حد لگاؤ تھا جس کا اندازہ ان کی مصنفہ اور مترجمہ لوک داستانوں سے کیا جاسکتا ہے۔ ان کی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔

جاپانی لوک کہانیاں (تہذیب و ترجمہ) ،
جاپانی لوک داستانیں (تہذیب و ترجمہ) ،
جاپانی لوک کتھائیں (تہذیب و ترجمہ) ،
جاپانی لوک حکایتیں (تہذیب و ترجمہ) ،
جرمن لوک حکایتیں (تہذیب و ترجمہ)
ایرانی لوک کہانیاں (تہذیب و ترجمہ) ،
سیف الملوک (تحقیق و ترجمہ) ،
نامور ادیبوں اور شاعروں کا بچپن (مرتبہ) ،
نامور ادیبوں کی نایاب کہانیاں اور ڈرامے (مرتبہ) ،
بھوکے (افسانے ) ،
ایک آنسو ایک تبسم (طنز و مزاح) ،
ڈھل گئی رات (ناول) ،
مجید لاہوری (سوانح حیات تنقید و تحقیق) ،
تیغ ستم (طنز و مزاح) ،
پنجابی لوک کہانیاں (تحقیق و تہذیب) یونیسکو کی طرف سے سات زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔
ہماری منزل غازی یا شہید (رپورتاژ) ،
غالبؔ جینو ہر کوئی چنگا آکھے (پنجابی ترجمہ) ،
پنجاب رنگ (تحقیق و ترجمہ)
، پنجابی کے پانچ قدیم شاعر (تحقیق و ترجمہ) ،
مجید لاہوری کی حرف و حکایات (مرتبہ) ،
پنجابی لوک داستانیں (تحقیق و تہذیب) اس کتاب کی ایک کہانی جاپانی میں ترجمہ ہوئی۔
چینی لوک کہانیاں (تہذیب و ترجمہ) ،
سوچاں دی زنجیر (پنجابی شاعری) ،
سیر و سفر (سفر نامہ) ،
زہر پیالہ (پنجابی شاعری)

شفیع عقیل کی اس کے علاوہ بھی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ ان کی کئی اردو اور پنجابی نظموں کا انگریزی اور جرمن زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اور ان کی خدمات کے صلے میں انھیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے جن میں داؤد ادبی انعام، حبیب ادبی انعام، پنجاب حکومت کی طرف سے خوشحال خان خٹک ایوارڈ شامل ہے۔ شفیع عقیل ادب کے علاوہ سیر و سیاحت سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اور انھوں نے بے شمار ملکوں کے دورے کیے جن میں جاپان، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، عمان، ایران، شام، ترکی، برطانیہ، مغربی جرمنی، مشرقی جرمنی، پولینڈ، آسٹریلیا، بیلجیم، ہالینڈ، فرانس، کینیڈا اور امریکہ شامل ہے۔

شفیع عقیل کے کالم نے آرٹ کو اس وقت حیات بخشی جب دور دور تک آرٹ پر لکھنے والا کوئی نہ تھا۔ ان کے لکھے گئے تجزیے اور تنقید بہت سے آرٹ کے شائقین کا سفر آسان کر گئے۔ ان کا نام پاکستانی ثقافت کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں انھوں نے پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب کو قومی زبان میں منتقل کرنے کا کام انجام دیا اور بالخصوص پنجاب کے صوفیانہ ادب کو قومی سطح پر روشناس کرانے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔

شفیع عقیل کی بابت ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈگری یافتہ نہیں تھے لیکن ان کا مطالعہ وسیع تھا اور مصوری پہ گہری نظر تھی۔ شفیع عقیل آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کی تحریریں ہمیں ہمیشہ ان کی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں گی۔ 1930ء میں طلوع ہونے والا دنیائے ادب کا یہ ایک دمکتا ستارہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ 6 ستمبر 2013ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ شفیع عقیل اپنی علمی اور ادبی تصانیف کی وجہ سے علمی و ادبی حلقوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments